• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کئی صدیوں سے کراچی کے ساحلی علاقوں میں سمندری نمک کی تیاری کا کام ایک صنعت کے طور پرکیا جارہا ہے۔ برطانوی دورمیں نمک سازی کو باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل تھا اور نمک سازی سے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ کیپٹن ماری کراچی میں چیف سالٹ ریونیو آفیسر کے طور پر تعینات تھا۔ گمان غالب ہے کہ ماری پور روڈ کا نام کیپٹن ماری کے نام سے موسوم ہے۔ 

سمندری نمک جسے شمسی نمک بھی کہا جاتا ہے اس میں پوٹاشیم، میگنیشیم، سوڈیم جیسے عناصر شامل ہیں جو میٹابولزم کی بہتری میں حصہ لیتے ہیں، سمندر کے نمک میں دیگر مائیکرویلیٹس کی وجہ سے ہمارے جسم میں سیل جھلیوں کو تیز بنایا جاتا ہے جو سیل کی تخلیق کے لئے ضروری ہے۔ سمندری نمک میں شامل برومین اعصابی نظام پر ایک پرسکون اثر ڈالتا ہے، اور اس میں شامل میگنیشیم ایک اینٹی الرجک ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور زخموں کی تیزی سے شفا اور انفیکشن کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔

1890میں بلوچستان سے ہجرت کرکے آنے والے بلوچ باشندوں نے ماری پور اور ہاکس بے کے ساحل پر نمک سازی کا آغاز کیا تھا۔ کراچی تاریخ کے آئینہ کے مصنف عثمان دموہی لکھتے ہیں کہ، 1930میں ایک جرمن نزاد یہودی کو گرین فیلڈ گریس نام کی کمپنی قائم کرنے کی اجازت دی گئی تھی اس فیکٹری کے قیام کے بعد یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے گریکس کے نام سے ایک کالونی قائم کی گئی، اس طرح آہستہ آہستہ ہاکس بے، سینڈس پیٹ پر سمندری پانی سے نمک تیار کرنے کے کئی کارخانے قائم ہوگئے۔ 

سمندری نمک تیار کرنے کے زیادہ ترکارخانے یورپی باشندوں اور پارسیوں کی ملکیت تھے۔ نمک بنانے کے کام سے ذکری بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد جڑے ہوئے تھے۔ کراچی میں برطانوی دور میں پارسی بزنس مین رستم جی مہتا نے بھی کراچی سالٹ ورکس کے نام سے ماری پور کے علاقے میں نمک کشید کرنے کا کارخانہ لگایا تھا ، جبکہ برطانوی راج میں سمندری نمک مائی کلاچی روڈ موجودہ مولوی تمیز الدین خان روڈ پر بھی خشک کیا جاتا تھا ۔یہ سمندری نمک بنگال اور وسطی ایشیائی ممالک میں جاتا تھا۔ 

سید عارف شاہ گیلانی علیگ مرحوم اپنی کتاب’’ عروس البلاد ‘‘میں لکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے1930 میں مغربی بھارت کے شہر احمد آباد کے قریب دریائے سابرمتی کے کنارے ڈانڈی کے مقام پر چڑھائی کرکے نمک بنایا تھا جس کی پاداش میں انھیں گرفتارکرلیا گیا تھا ۔ کراچی کے شہریوں نے بھی سول نافرمانی کرتے ہوئے موجودہ کوئنز روڈ پر ہزاروں من نمک بنایا تھا۔

کراچی کے ساحلی علاقوں ابراہیم حیدری ، سینٹ پٹ ، ہاکس بے میں ان دنوں بھی نمک سازی کا کام زور شور سے جاری ہے ۔ان علاقوں میں نمک سازی کے لئے ساحل کے کنارے مٹی کے اونچے اونچے(سالٹ پن) تالاب بنائے گئے ہیں۔ نمک کی تیاری کے لئے کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے پہلے مرحلے میں تالاب میں پانی کے لیول کو 3 انچ تک بھرا جاتا ہے اگر پانی کا لیول ڈیڑھ انچ تک کم ہوجائے تو نمک کی بجائے تیزاب بن جاتا ہے نمک بنانے کے لیے جو زیر زمین پانی استعمال ہوتا ہے۔ 

وہ سمندر کے پانی سے چار گنا زیادہ نمکین اور گاڑھا ہوتا ہے۔ 30 ڈگری پر نمک تیار کیا جاتا ہے۔ تالاب میں جمع شدہ پانی کو مختلف کیمیائی مراحل سے گزار کرپانی کو واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے، اس عمل کے بعد حاصل ہونے والے نمک کو سورج کی شعاعوں سے خشک کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سے چار لیٹرسمندری پانی سے پانچ فیصد نمک حاصل ہوتا ہے۔اس کی تیاری میں موسم کا بڑاعمل دخل ہوتاہے۔ سخت گرمیوں میں 15 دن ، سردیوں میں ایک سے دو ماہ جبکہ نارمل موسم میں ایک مہینے کےاندر یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے۔

ماہرین نمک بننے کے عمل کو یوں بتاتے ہیں، پانی بخارات بن جاتا ہے اور معدنیات (نمک) تالاب میں رہ جاتی ہیں۔ نمک کو زمین پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ پانی سورج کی روشنی سے اڑ جاتا ہے اور نمک رہ جاتا ہے۔ جو خشک اور صفائی کے بعد قابل استعمال ہوتا ہے۔ الغرض سمندری نمک کی کراچی میں یومیہ سو سے ڈیڑھ سو ٹن پیداوار ہے جس کو ملک اور بیرونِ ملک فروخت کیا جاتا ہے۔ کراچی میں تیار ہونے والا سمندری نمک چمڑے اور کپڑوں کی رنگائی کرنے والی فیکٹریوں ،مقامی آئس فیکٹریوں اور برف بنانے والے کارخانوں کوفروخت کیا جاتا ہے، جہاں پانی کو ٹھوس حالت میں لانے کے لیے یعنی برف بنانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 

ماضی میں جب کولڈ اسٹوریج نہیں تھے، ان دنوں ماہی گیر سمندر میں شکار کے بعد مچھلیوں کو کاٹ کرانھیں نمک لگا کر خشک کرتے تھے، بعد ازاں ان مچھلیوں کوسری لنکا سمیت دیگر ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سمندری نمک کی تیاری کے لئے نہ بجلی اور نہ ہی گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان نمک کی عالمی منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرکے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں، بلکہ ملکی معیشت میں سالانہ کروڑوں روپے کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔