• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری .....ابرار حسین
یہ نارتھ ویسٹ برطانیہ کے ایک ریسٹورنٹ کا منظر ہے، میاں شہباز شریف جی ہاں یہی میاں شہباز شریف جوپاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جبری رخصتگی کے ساتھ اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں، مانچسٹر بزنس کمیونٹی کی جانب سے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں دیئے گئے استقبالیہ میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ،یہ ان دنوں کی بات ہے جب ظہور احمد نیازی بحیثیت ایڈیٹر روزنامہ جنگ لندن میں اپنے فرائض انجام دہے رہے تھے اور علامہ عظیم جی نمائندہ جنگ اپنی نجی مصروفیات کے باعث کام نہیں کر رہے تھے اور راقم الحروف بطور نمائندہ جنگ مانچسٹر کام کر رہا تھا اور اس استقبالیہ کی کوریج کے لئے مدعو کیا گیامگر راقم جب کھڑے ہو کر کیمرہ سے تصاویر بنانے لگا تو شہباز شریف صاحب نے آف دی ریکارڈ بات آن دی ریکارڈ کر دی ، انھوں نے فوری طور اپنے پرسنل سیکرٹری سے کہا کہ انہیں کہو کہ تقریب کی تصاویر نہ بنائیں تو میں بیٹھ گیا اور قلم ہاتھ میں تھام کر کاغذ پر نوٹ لکھنے لگا ،پھر آرڈر جاری ہوا کہ ان سے قلم اور بنائے گئے نوٹ چھین لیں ، میں ہکا بکا رہ گیا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے ان کے پی اے نے مجھے کہا کہ میں اپنے نوٹ ان کے حوالے کر دوں میں نے انہیں انتہائی ادب کے ساتھ کہا کہ یہ نوٹ تو میں اپنی یاد دہانی کیلئے لکھ رہا ہوں لیکن جو بات میرے دماغ میں چلی گئی ہے اس کو کیسے نکالیں گے لیکن آخرکار میں نے وہ نوٹ ان کے حوالے کر دیئے اور اس بات کی شکایت میں نے پاکستان پریس کلب کے صدر جاوید خان سے کی جنہوں نےمانچسٹر کے ایک نجی ٹی وی پر جا کر اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں کو چاہے کہ وہ یوکے کے صحافیوں کے ساتھ اپنا رویہ جوش کے بجائے ہوش کے ساتھ رکھا کریں جس پر انہیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ پاکستان نہیں ہے برطانیہ ہے یہاں ایسا نہیں چلتا مسلم لیگ ن کے اس مقتدر رہنما کا یہ رویہ تھا تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ وطن عزیز کے اندر اہل صحافت کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوگا، اس موقع پر رنگ میں بھنگ تو نہیں ڈالنا چاہتے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں، زیادہ خوش گمانیوں کی ضرورت نہیں، پی ٹی آئی پر صحافتی آزادیوں کو سلب کرنے کے الزامات عائد کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ، آج اس اہم موقع پر ہم جب پی ٹی آئی اور عمران خان کے ایک نہایت مختصر دور حکومت کا جائزہ لیتے ہیں تو بلامبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کئی باریاں لینے والی پارٹیاں جو کام 30 سال میں نہیں کر سکیں وہ عمران خان نے صرف ساڑھے 3 سال میں کر دیئے، خاص طور پر نوجوان پاکستانی کشمیری نسل حتیٰ کہ جو برطانیہ اور یورپ میں پیدا ہوئی اور یہیں پروان چڑ ھ رہی ہے کو عمران خان کی شخصیت نے بہت متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونے کے بعد لندن سے مانچسٹر تک پاکستان اور آزاد کشمیر کے باشندوں کی قابل ذکر تعداد اور خاص کر نوجوانوں میں سخت ردعمل پایا جاتا ہے بلکہ گزشتہ رات مانچسٹر ویمزلو روڈ پر ایک بڑا مظاہرہ بھی کیا گیا جس کےباعث پولیس کو ویمزلو روڈ بند کرنا پڑی اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے افطاری سڑکوں پر کی، اکثریت ہم جو لوگ وطن عزیز میں پیدا ہوئے تھے، سے یہ نوجوان نسل سوال پر سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے لوگ بدعنوان سیاست دانوں کے فریب سے نکلتے نہیں، وہ کیوں ملک کو پھر انہی لوگوں کے حوالے کر رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کو مغربی ممالک کو گروی رکھ دیا تھا، وہ کیوں پھر ان بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھا رہے ہیں جنہوں نے ان کا بار بار استحصال کیا، جنہوں نے ان کی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے محروم رکھا جو پاکستان کی قوم کو مغرب کا بھکاری رکھنے کا وژن رکھتے ہیں، یقین مانیں ہمارے پاس برطانیہ کی نوجوان نسل کو جواب دینے کے لیے کچھ بھی نہیں، اس امر میں بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کی قیادت غیر ملکی مفادات کے ہاتھوں میں بک گئی پھر کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں، یہاں کی نوجوان نسل یہ بھی پوچھتی ہے کہ اگر عدالتیں واقعی آزاد ہیں تو پھر جن لوگوں کے خلاف کیس چل رہے ہیں کیا شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ کے متعددمقدمات کا سامنا نہیں ہے، ان جرائم پر جس کے لیے ان پر 11 اپریل کو باضابطہ فرد جرم عائد کی جانی تھی، جب کہ ان کے بیٹے سلمان اور داماد بھی مفرور ہیں، ان کو کیسے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدوں پر بٹھایا جا رہا ہے، نواز شریف سزا یافتہ مجرم اور مفرور ہیں، مریم نواز سزا یافتہ ہیں، عارضی ریلیف پر باہر ہیں، نواز شریف کے دو بیٹے حسن اور حسین مفرور ہیں جب کہ ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی مفرورہیں، راقم کو دو روز قبل ایک تعزیتی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر بیٹھے ہوئے نوجوانوں نے جنگ و جیو کے نمائندہ کے طور پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی کہ آخر کن مقاصد کے لئے ملک کو لوٹنے والوں کو پھر سے اقتدار کی کنجیاں حوالے کی جارہی ہیں،کیا آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو بدعنوانی کے لاتعداد مقدمات کا سامنا نہیں ہے، اس گٹھ جوڑ پر کیا چیف جسٹس اور ان کا لارجر بنچ کوئی سوموٹو لے رہا ہے کہ نہیں، مولانافضل الرحمٰن، حزب اختلاف کے اتحاد PDM کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ بھی ہیں، اس جماعت نے قیام پاکستان کے وقت کیا موقف اختیار کیا تھا،خود انہوں نے کیا ملک کی سالمیت کے خلاف ریکارڈ بیان نہیں دیئے،پھر کیا انہوں نے آمدنی کے جائز ذرائع کے بغیر زمینوں اور دیگر املاک کے بڑے حصے کی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ حاصل نہیں کی تھی ، پھر ان کی ایک پرائیویٹ ملیشیا، انصار الاسلام بھی ہے جو خاکی وردیوں میں ملبوس اور دھاری دار لاٹھیوں سے مسلح اس کا ایک جمہوری ریاست میں کیا جواز ہے، کیا ہماری عدلیہ کے معزز اراکین اس کے وجود سے لاعلم ہیں پھر جس خط کے حوالے سے عمران خان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کیامسلح افواج کے سربراہوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، کیا اس کے واضح مندرجات سے غیر ملکی مداخلت واضح نہیں، پھر نوجوان نسل یہ سوال بھی پوچھ رہی ہے کہ کیا عمران خان کے خلاف اقدامات پاکستان کی خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلی نہیں اور کیا اس خارجہ پالیسی سے پاکستان اقوام عالم میں باعزت مقام حاصل نہیں کر سکتا، قارئین کرام ، ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو پاکستان کے خود مختار مفادات کو آگے بڑھانے کی سزا دی گئی ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد صرف عمران خان ہی ہیں جو بیرونی آقاؤں کی غلامی کے طوق کو اتارنے کی ہمت کر سکتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید