• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:وقار ملک.....کونٹری
آئین و قانون کی پاسداری و عملداری پاکستان کی ضرورت ہےمگر قوم کے منتخب نمائندوں ،حکومتی اکابرین کی جانب سے آئین و قانون کی عمل داری سے گریز اور اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کو کسی سازش سے تعبیر کیا جانا سخت تکلیف دہ ثابت ہوا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عام آدمی کو آئین و قانون کے احترام کا کیسے پابند کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کے حوالے سے حکومتی اختیار کردہ طرز عمل کے باعث ایک ایک پل پل ملک اور قوم پر بھاری گزرا اور جمہوریت کی عم لداری پر بھی سوال اٹھتے رہے جبکہ قاعدے قانون کے مطابق اور پرامن طریقے سے حکومت کی تبدیلی بھی قوم کیلئے ایک خواب بنی رہی، ہمیں ایسی اقدار و روایات بہرصورت قائم نہیں ہونے دینی چاہئیں جو ملک میں انتشار و انارکی ،کی نوبت لانے اور اس ارض وطن کو جنگل کے معاشرے کی جانب دھکیلنے پر منتج ہو سکتی ہو، تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو ملکی سیاسی فضا میں ارتعاش پیدا ہوا جو ایک طوفان کی شکل اختیار کرگیا ،افراتفری اور انتشار کی اس کیفیت میں قوم کی نظریں اعلیٰ عدلیہ کی طرف مرکوز تھیں جہاں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سے متعلق رولنگ کی آئینی حیثیت کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے ازخود اختیارات کے تحت لئے گئے نوٹس پر حکومتی اراکین انتہائی تذبذب کا شکار رہے حالانکہ انھیں تو خوش ہونا چاہئے تھا کیونکہ حکومت کا مقصد ہی قانون کی پاسداری تھا اور عمران خان نے بارہا مرتبہ اپوزیشن کو للکارا کہ وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں تو وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے لیکن حسب روایت وزیراعظم نے یو ٹرن لے لیا اور اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد پیش کئے جانے پر ناراضگی اور اسمبلی چھوڑ کر بھاگ نکلے اور جب اپوزیشن سپریم کورٹ گئی تو وزیراعظم پریشان ہو گئے انھیں گھبرانا نہیں چاہئے تھا بلکہ عدالتوں کا مقابلہ کرنا چاہئے جس کا انھوں نے وعدہ کر رکھا تھا، انھیں باعزت طریقے سے اور جمہوری انداز سے مقابلہ کرنا چاہئے تھا، عوام جانتی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا جس کی مثال دی جا سکے اور نہ کرپشن کے خاتمہ کے لیے کوئی کام کیا اور نہ کسی کا احتساب کیا گیا، صرف اپوزیشن کا حصار تنگ کیا گیا انھیں بلاوجہ گرفتار کیا گیا اور سزائیں دی گئیں، سچ یہ ہے کہ عوام اور عام آدمی نہ حکومت کی اور نہ اپوزیشن کی ترجیح تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے کیونکہ ہم سب تقاریر کے دور میں جی رہے ہیں، چاہے حکومتی زعماء ہوں یا پھر ’’کرسی‘‘ کی طلب میں پاگل ہوتی شخصیات ، میری ترجیح صرف ’’کُرسی‘‘ ۔ میری تمنا حاصل مقصود صرف میری ذات کوئی دوسرا نہیں جس ملک میں اکثریتی سوچ ایسی ہو وہاں کون سا آئین ،کہاں کا قانون ، قانون کا نفاذ کرنا ہے تو بلا تفریق ہو قوم کو نہ جھکنے دینے کی بات 100 فیصد درست قوم معاشی طور پر مضبوط ہوگی تو پھر وہ کیوں جھکے گی؟ پیٹ بھرے ہوئے لوگوں کو کوئی نہیں جُھکا سکتا ۔ قوم کو نہ صرف یقین ہے بلکہ اعتماد ہے کہ میاں شہباز شریف اپنی خداداد صلاحیتوں سے اور اپنے قائد نواز شریف کی آشیرباد سے ملک کو سنواریں گے پاکستان کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالیں گے، پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائیں گے، پنجاب و دیگر صوبوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں گے، ایک ایسی پالیسی بنائیں گے جس سے پاکستان کا نام اور مقام بلند ہو، اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ووٹ کے حق سے زیادہ ان کے مسائل کا حل ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت اوورسیز کو متحرک کیا جائے اور پنجاب اوورسیز کمیشن دیانت دار شخصیت تعینات کی جائے۔قوم کو شہباز شریف اور میاں نواز شریف سے توقعات وابستہ ہیں۔
یورپ سے سے مزید