کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان کو چھپکلی سے ڈر لگتا ہے، میں تھانوں میں تین تین ماہ رہا ہوں،انتخابی اصلاحات ہمارا پہلا ایجنڈا ہے،اگرفالودے والےکےاکاؤنٹ میں پیسےگئے توپراسیکیوشن سامنے لے آئے،حکومت کو سب سے بڑا چیلنج منہگائی کا ہے،فالودے والے کے اکاؤنٹ میں پیسے جانےکا پروپیگنڈا کیا گیا،نفرت عمران خان سے نہیں ان کی سوچ سے ہے،ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونی چاہئے.
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان صرف 8 گھنٹے کیلئے تھانے گیا، اسے تو چھپکلی سے بھی ڈر لگتا ہے، تھانے کے ماحول میں عمران خان کو ڈال دیا تو یہ گورا صاحب پریشان ہو جائے گا،سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے عمران خان کے اس الزام کو مسترد کردیا کہ ان کی حکومت ہٹانے کیلئے اپوزیشن نے امریکا کے ساتھ مل کر سازش کی۔
ایک زرداری سب پربھاری نہیں ایک زرداری سب سے یاری پریقین رکھتا ہوں،سابق صدر آصف زرداری نے عمران خان کو جھوٹا قرار دے دیا اور کہا کہ عمران حکومت ہٹانے کیلئے ان کی تین سال سے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی، شہباز شریف کے ساتھ خفیہ بات چیت بھی جاری تھی۔
الیکشن کب کرانا ہے یہ فیصلہ مل جل کر کریں گے،آصف زرداری نے کہا کہ شہباز کو وزیراعظم نامزد بھی انھوں نے کیا اور انھیں وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر راضی بھی کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کب کرانا ہے یہ فیصلہ مل جل کر کریں گے۔آصف زرداری نے کہا کہ ایک پاکستانی بزنس مین نے پاکستان میں عمران خان کو فنانس کیا، اس بزنس مین کا مقدمہ اب امریکا میں چلنے والا ہے۔ہم تو ابھی بھی چاہتے ہیں پرویز الٰہی سیاسی دائرے میں واپس آجائیں،میں نے ان سب کواکٹھا کیا ہے ان کےجینوئن مطالبات کوپورا کیا جائے،نواب شاہ کا بجٹ بھی اتنا ہی ہے جتنا دادو اورنوشہروفیروزکا رکھا،اتحاد میں ہم دینے والے ہیں پیپلزپارٹی نےہمیشہ دیا ہے،اسفندیارولی میری بات مانتے ہیں،مجھے 8 ماہ کیلئےسرکاری مہمان بنایاگیا،پھرمیاں صاحب چلے گئے تھے،سابق صدر آصف زرداری نے مزید کہا کہ عمران خان شروع سے ہی جھوٹ بولتے ہیں، مجھے 8 ماہ کیلئے سرکاری مہمان بنایاگیا، پھرمیاں صاحب چلے گئے تھے، اسفندیارولی میری بات مانتے ہیں،اتحاد میں ہم دینے والوں میں سے ہیں، پیپلزپارٹی نےہمیشہ دیا ہے، جتنے بھی دوست اتحاد میں ہیں ان کے ساتھ ہمارے معاہدےہوئے ہیں، میں نے ان سب کو اکٹھا کیا ہے ، ان کے جائز مطالبات کوپورا کیا جائے۔آصف زرداری نے کہا کہ ایم کیوایم کے ساتھ معاہدے کا ضامن بھی میں ہوں، پرویز الٰہی ہم سے تھوڑے سینیئر ہیں، ہم ان کے لیے کوشش کرتے رہے، جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو مسئلہ ہوتا ہے، کسی نے پرویز الٰہی کو مس گائیڈ کیا، ہم تو ابھی بھی چاہتے ہیں پرویز الٰہی سیاسی دائرے میں واپس آجائیں۔بلاول وزیرخارجہ بنتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ سی ای سی کرےگی،سابق صدر نے کہا کہ ’میں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی، شہباز شریف کو کہا کہ آپ وزیر اعظم بن جائیں میرے پاس 70 ووٹ ہیں، اتحادیوں سے رابطے میں تھا، مجھے پتا تھا کہ وہ میرے ساتھ آئیں گے، اتحادیوں کو پتا ہے کہ جو میں نے وعدہ کیا وہ پورا کروں گا۔آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ نفرت عمران خان سے نہیں اس کی سوچ سے ہے، بلاول بھٹو پوری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کوساتھ لے کرچلتے ہیں، پھرپالیسی بناتے ہیں، بلاول وزیرخارجہ بنتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ سی ای سی کرےگی۔اگرفالودے والےکےاکاؤنٹ میں پیسےگئے توپراسیکیوشن سامنے لے آئے،بلاول بھٹوپوری سی ای سی کوساتھ لے کرچلتے ہیں،پھرپالیسی بناتے ہیں،اتحادیوں سے رابطے میں تھا مجھے پتا تھا کہ وہ میرے ساتھ آئیں گے،میں نےشہبازشریف کووزیراعظم بننے کی پیش کش کی تھی،ہم توابھی بھی چاہتے ہیں پرویزالہٰی سیاسی دائرے میں واپس آجائیں،ایک زرداری سب پربھاری نہیں ایک زرداری سب سے یاری پریقین رکھتا ہوں،آج کا سوشل میڈیا بہت خطرناک ہوگیا ہے،ہم دوستوں کوآزمائش میں نہیں ڈالتے،کیامینگل،بگٹی،مگسی کوکوئی خریدسکتا ہے؟میرے پرانے تعلقات کام آئے،جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تومسئلہ ہوتا ہے کسی نےپرویزالہٰی کومس گائیڈ کیا،ایم کیوایم کے ساتھ معاہدے کا ضامن بھی میں ہوں،میں نے ان سب کواکٹھا کیا ہے ان کےجینوئن مطالبات کوپورا کیا جائے،جتنے بھی دوست اتحاد میں ہیں ان کے ساتھ ہمارے معاہدےہوئے ہیں،اسفندیارولی میری بات مانتے ہیں،آج کا سوشل میڈیا بہت خطرناک ہوگیا ہے،پی ٹی آئی کوسمجھانا چاہیے کہ اسمبلی میں واپس آجائیں،جس سے بھی بات چیت کی اس سے سیاسی اتحاد کی بات کی ہے،ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونی چاہئے،عمران خان شروع سے ہی جھوٹ بولتے ہیں،بلاول بھٹوپوری سی ای سی کوساتھ لے کرچلتے ہیں،پھرپالیسی بناتے ہیں،نفرت عمران خان سے نہیں اس کی سوچ سے ہے،اتحادیوں سے رابطے میں تھا مجھے پتا تھا کہ وہ میرے ساتھ آئیں گے،شہبازشریف کوکہا کہ آپ وزیراعظم بن جائیں میرے پاس 70 ووٹ ہیں،بلاول وزیرخارجہ بنتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ سی ای سی کرےگی،جتنے بھی دوست اتحاد میں ہیں ان کے ساتھ ہمارے معاہدےہوئے ہیں،اتحاد میں ہم دینے والے ہیں پیپلزپارٹی نےہمیشہ دیا ہے،(عمران خان کا کلپ) عمران خان: پہلا میرا ٹارگٹ ہوگا، جو میری بندوق کی نشست پر بڑی دیر سے اس کے اوپر آیا ہوا ہے وہ ہے آصف علی زرداری ۔ آصف زرداری اب تمہارا وقت آگیا۔ (پروگرام) حامد میر: آج ہم ایسی شخصیت سے گفتگو کریں گے جنہیں عمران خان اپنا ٹارگٹ نمبر ون قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم میری بندوق کی نشست پر آگئی ہے حالانکہ نشست کوئی چیز نہیں ہوتی شست ہوتی ہے، بہرحال جو بھی تھی ان کی بندوق کی شست پر تھے، آصف علی زرداری کا نام لیتے تھے عمران خان ہر تقریر میں جب وہ وزیراعظم تھے اب عمران خان پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں اور آج ہم گفتگو کریں گے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب سے۔ یہ بتائیں عمران خان آپ پر اتنے مہربان کیوں تھے، آپ کو ٹارگٹ نمبر ون کیوں کہتے تھے؟ آصف زرداری: میرا خیال ہے کہ ، میں نے اس دن تقریر میں بھی کہا کہ زیادہ تر لوگ جو نکلے ہوئے ہیں، جو ہماری نرسری سے گئے ہیں وہ اس کے ساتھ ہیں، بابر اعوان کو دوسروں کو میری capacity کی انڈراسٹینڈنگ ہے کہ politically I can move میں جب صدر تھا تب بھی میرے پاس پوری اسٹرینتھ نہیں تھی اس کے باوجود میں نے دوستوں کو سب کو ساتھ ملا کر حکومت بنالی تھی، ان کی ایڈوائس ہوگی کہ اس کا خیال کرنا یہ تیرے کو گرادے گا یہ تجھے نکال دے گا۔ حامد میر: آپ کو یاد ہے 2019ء میں تین سال پہلے میں نے آپ کا ایک انٹرویو کیا تھا؟ آصف زرداری: جو بند کرادیا گیا تھا۔ حامد میر: ہاں۔ اس انٹرویو میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو آن ایئر تو نہیں ہوا لیکن میں نے سوچا کہ آج آپ سے بات کررہے ہیں تو آپ کو آپ کی پرانی باتیں یاد کرائی جائیں شاید جن کی وجہ سے وہ انٹرویو روک دیا گیا تھا۔ (آصف زرداری کے پرانے انٹرویو کا کلپ) آصف زرداری: میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت ہی چلے گی، میری گرفتاری تو کیا یہ حکومت ہی اتنا نہیں چلے گی۔ حامد میر: حکومت نے تو بجٹ بھی پاس کروالیا۔ آصف زرداری: بجٹ تو ہوتے رہتے ہیں۔ آصف زرداری: حکومت کو ہم گرانا چاہتے ہیں پارلیمنٹ کو ہم توڑنا نہیں چاہتے۔ ہوسکتا ہے کوئی اور سلیکٹو پرائم منسٹر ہوجائے، کوئی اور سلیکٹڈ وزیر ہوجائیں یہ خود نہیں ہوگا۔ حامد میر: یہ نہیں ہوگا۔ اس کی مجھے لوجک سمجھادیں۔ آصف زرداری: یہ تو تباہی ہے، جو بھی اس کی اکنامک ٹیم کہتی یا کرتی ہے اس کو یہ نہیں پتا کہ اس کا غریب پر عوام پر کیا اثر ہوگا۔ (پروگرام) حامد میر: آپ نے تین سال پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ آپ اس کو نکالیں گے، اس وقت تو ٹرمپ امریکا کا صدر تھا جوبائیڈن تو نہیں تھا، اب عمران خان کہتا ہے کہ مجھے امریکا نے نکلوایا ہے؟ آصف زرداری: امریکا کے اپنے دنیا کے ایشوز ہیں، رشیا ہے، کووڈ کی وجہ سے ان کے پاس بھی مہنگائی ہے، وہ اپنے ایشوز میں ہے ان کو پاکستان یاد ہی نہیں ہے، صرف ایک کانسیپٹ پر یاد آجاتا ہوگا کوئی افغان کا ایشو ہو تو، سیکیورٹی ایشو۔ they are not interested either me or Imran Khan یہ اپنی پولیٹیکل لائن بیچ رہا ہے، یہ لوگوں کو غلط بیانی سے، ہمیشہ اس نے شروع سے جھوٹ بولا ہے، ہر چیز پر جھوٹ بولتا ہے، اتنی exaggerationکرتا ہے کہ imposible to imagine exaggeration ہیں۔ حامد میر: آپ نے 2019ء میں کیسے کہہ دیا تھا کہ میں اس کو نکالوں گا، تین سال لگ گئے آپ کو نکالنے میں؟ آصف زرداری: دو تین چیزیں ہوئیں، ایک تو میں چلا گیا سرکاری مہمان بن گیا آٹھ مہینے کیلئے۔ وہ آٹھ مہینے سرکاری مہمان بننے کا وقفہ بیچ میں سے نکال دو، پھر میاں صاحب کو لے گئے، پھر ہم نے پی ڈی ایم بنایا، پھر پی ڈی ایم کے ایشوز ہوگئے ، سیاسی اتحادوں میں کبھی رفٹ ہوجاتی ہے کبھی سیلف انٹرسٹ ہم لوگوں کا، everybody has a Pakistan interest تو پاکستان انٹرسٹ پر ہم اکٹھے ہوجاتے ہیں، ان سب کو میں نے پاکستان انٹرسٹ پر اکٹھا کیا، اب آپ سوچو کہ مینگل جیسا آدمی، اس سے کوئی بات کرسکتا ہے کہ تو کسی ریزن کی وجہ سے ہمارے ساتھ آجا۔
وہ صرف اس ریزن پر آیا کہ تین چار سال سے اس کو false hood کی statements اور جعلی امیدیں دلاتے رہے، اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی false hopes دیتے رہے، وہ سب اپنے ایشوز کی وجہ سے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ہمیں سپورٹ کیا۔
حامد میر: آپ نے تین سال پہلے ان اتحادیوں کے بارے میں اس انٹرویو میں جو عمران خان نے رکوادیا تھا اتحادیوں کے بارے میں بات کی تھی سنیں وہ کیا تھی۔ (آصف زرداری کے پرانے انٹرویو کا کلپ) حامد میر: یا تو وہ استعفیٰ دیں یا پھر تحریک عدم اعتماد لائیں، اگر انہوں نے استعفیٰ دیدیا… آصف زرداری: چلیں وہ جس کے ساتھ بیٹھے ہیں کوئی اس کے ہیں، ان کو وہ کہتے ہیں نا ایک لکڑی لانی ہے اور وہ اس طرف سوئچ ہوجائیں گے یہ اکیلا کیا کرلے گا۔ حامد میر: جو ان کے ساتھ ہیں اس میں بہت سے آپ کے بھی ہیں۔
آصف زرداری: مجھے نہیں پتا کیا؟ حامد میر: آپ کو اتنا یقین کیوں ہے؟ آصف زرداری: یقین ہے، آپ نے مجھے دیکھا ہے لوگوں کو گراتے، اٹھاتے، بٹھاتے۔ گو کپتان گو، مک گیا تیرا شو کپتان۔ (پروگرام) حامد میر: مک گیا تیرا شو کپتان۔ آپ 2019ء میں کہہ رہے تھے۔
اس کے اتحادیوں کو آپ نے اس وقت سے توڑنا شروع کردیا تھا؟ آصف زرداری: نہیں، ان سے ڈائیلاگ تھا، مینگل صاحب سے ان کے والد صاحب سے ہمارے تعلقات ہیں، دوسرے جیسے بگٹی ہیں اس کے پرانے ہمارے تعلقات ہیں، مگسی صاحب ہیں اس کے پرانے تعلقات ہیں مجھ سے، یہ ساری فیملیاں ہیں جو سیاست کرتی رہی ہیں، جتنے بھی دوسرے دوست ہیں، جیسے اسفند ہے، آج تک اسفند میری بات مانتا ہے اس بات پر کہ میں نے خیبرپختونخوا ان کو بنوادیا.
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ۔ وہ کسی اور کیلئے چھوٹی بات ہوگی اس کیلئے بڑی بات ہے، اس لیے کہ جب خان غفار خان زندہ تھے تو 400بندے شہید ہوئے تھے ان کے جلسے پر، اس زمانے میں کلاشنکوف نہیں تھی، تھری ناٹ تھری کی رائفلوں سے مارا تھا، ایک دفعہ بولٹ کر کے پھر بولٹ کرو، پھر بولٹ کر کے پھر بولٹ کرو، اس میں 400بندے ایک جگہ مارنا تاریخ کا بہت بڑا سانحہ تھا، مگر چونکہ اخبارات کنٹرولڈ تھے، مارشل لاء کا دور تھا تو کچھ نہیں ہوسکا، جس دن میں نے یہ بات کی تو اے این پی والے اسفند خود بیچارہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حامد میر: اس انٹرویو میں ایک اور بات تھی، وہ معاملہ ابھی تک ختم نہیں ہوا، وہ بھی ذرا سن لیں۔
(آصف زرداری کے پرانے انٹرویو کا کلپ) حامد میر: حکومت یہ تاثر دیتی ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ نواز شریف بھی جیل میں ہیں، زرداری صاحب بھی نیب کی کسٹڈی میں ہیں، یہ بہت غیرمعمولی واقعہ ہوگیا ہے، اس پر وہ کہتے ہیں یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے، آپ کو لگتاہے کہ اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا؟ آصف زرداری: دیکھتے ہیں کہ وہ خود ہوں گے تو دیکھیں گے۔
حامد میر: لیکن وہ کس طرح ہوں گے، ان کے خلاف تو ابھی تک کوئی ایسا کیس نظر نہیں آرہا؟ آصف زرداری: نظر تو نہیں آرہا۔ ایک انویسٹی گیشن ہورہی ہے لندن میں جو امریکا پہنچے گی جس میں ان کا بہت بڑا اسکینڈل آرہا ہے۔ حامد میر: عمران خان صاحب کا؟ آصف زرداری: جناب۔ حامد میر: یہ اندر کی خبر آپ کو کس طرح پتا چل گئی
آصف زرداری: ہمارا بھی کام ہے اندر کی خبر رکھنا۔ (پروگرام) حامد میر: ساری اندر کی خبریں جو ہیں اس کی وجہ سے یہ انٹرویو رک گیا تھا۔ آصف زرداری: ہم سیاستدان ہیں، ہم اخبارات پڑھتے ہیں، لوگ ہمیں بتاتے ہیں، یہ ایک پاکستانی بزنس مین کی بات ہے جو کہ پاکستان میں اس نے اس کو فائنانس کیا، اب میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ کتنا فائنانس کیا مگر ملین آف ڈالرز میں کیا، اس کے اوپر کیس چل رہا ہے انگلینڈ میں۔ اب اسے امریکا کے حوالے کیا جارہا ہے تو اس کی جو ڈائری ہے اس میں یہ باتیں آئیں گی،یا اس کی جو اسٹیٹمنٹس ہیں یا اس میں جو approver بنے ہیں وہ یہ اسٹیٹمنٹس لائیں گے۔ حامد میر: وہ جو آج کل نیا بیانیہ چل رہا ہے کہ امریکا نے میری حکومت نکلوائی ہے، شاید یہ پہلے سے ہی کاؤنٹر کررہے ہیں کیونکہ یہ کیس اب امریکا میں چلنا ہے؟ آصف زرداری: ہاں، چلے گا۔
حامد میر: اس انٹرویو میں ایک اور اندر کی بات تھی ، وہ پتا نہیں آپ کو کیسے پتا تھی۔ (آصف زرداری کے پرانے انٹرویو کا کلپ) آصف زرداری: میں ابھی بھی آپ کو کہتا ہوں اس کو سیل میں بند کریں ہماری طرح اور ساتھ دو چھپکلیاں چھوڑ دیں۔ حامد میر: چھپکلی کا کیا چکر ہے؟ آصف زرداری: ڈرتا ہے چھپکلی سے۔ حامد میر: یہ آپ کو کس نے بتایا؟ آصف زرداری: مجھے پتا ہے، کچھ اس کے راز ہمارے پاس بھی ہیں، صرف ریحام خان کے پاس نہیں ہیں۔
حامد میر: چھپکلیوں سے ڈرنا ، اس کا مطلب انسان ڈرپوک ہوتا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے بہادر لوگ چھپکلی سے بھاگتے ہیں، ویسے میں نہیں ڈرتا چھپکلی سے۔ آصف زرداری: آپ کا یہ بتانا ضروری تھا۔ (پروگرام) حامد میر: یہ چھپکلی والی جو بات ہے یہ بڑی مجھے intriguing سی لگ رہی ہے؟ آصف زرداری: آپ کو یاد ہے کہ یہ آٹھ گھنٹے کیلئے ایک دفعہ تھانے گیا تھا۔ تھانہ تو آپ کو پتا ہے ان تھانوں میں تین تین مہینے میں ریمانڈ کاٹی ہے، تین تین مہینے میں رہا ہوں جہاں نہ پردہ نہ کوئی اور، نہ پنکھا، نہ کوئی سہولت، مجھے پتا ہے کہ وہاں کا ماحول کیا ہوتا ہے، اس ماحول میں ان صاحب گورے صاحب کو ڈال دیں تو یہ گورا بہت پریشان ہوجائے گا۔
حامد میر: سورسز سے آپ کو پتا چلا کہ یہ چھپکلیوں سے ڈرتے ہیں؟ آصف زرداری: جب بھی کوئی جیل جاتا ہے یا تھانے جاتا ہے وہ تھانیدار اور وہاں کے قیدی وہ پوری ایک داستان لکھتے ہیں، اسے جیل کی لینگویج میں کہا جاتا ہے سینہ گزٹ۔ تو سینہ گزٹ لکھتے ہیں، جو بھی وہاں جائے گا آئے گا، وہ بتائیں گے کہ جی نواز شریف تھے کیسے رہے، زرداری صاحب تھے وہ کیسے رہے، بی بی آئی تھیں کیسے رہیں، میں نے تو ایسے لوگوں کے انٹرویو کیے ہیں لاہور میں جو بھٹو صاحب کے زمانے میں پولیس والے تھے۔
حامد میر: کوٹ لکھپت جیل میں؟ آصف زرداری: لاہور کا جو جیل ہے وہاں پر۔ وہاں جہاں مجھے رکھا تھا وہیں بھٹو صاحب کو رکھا تھا ، وہاں بھٹو صاحب نے ایک آم کا پودا لگایا تھا اس کا میں نے پھل کھایا، پھر وہاں سے میں نے ایک پودا لگایا جب میں ریلیز ہوا تو اس کا آم کھا کر ریلیز ہوا۔
حامد میر: اب آپ دس بارہ پارٹیوں نے مل کر عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کی، آپ نے اس کو نکال دیا، اب جو شاہ محمود قریشی نے آخری اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کی، آپ بھی وہاں پر تھے، انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ یہ حکومت چند ہفتے چلے گی، آپ کا اتنا بڑا الائنس واقعی چلے گا؟
آصف زرداری: اس الائنس میں پہلا کانسیپٹ یہ ہے کہ ہم دینے والے ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کے انٹرسٹ میں آگے بڑھ کر دیا ہے لیا نہیں ہے، جب ہماری حکومت تھی جب ہم بجٹ بنارہے تھے تو میں نے نوابشاہ کی ڈویلپمنٹ اتنی نہیں کردی تھی کہ آپ کو لگے کہ یہ نوابشاہ جو ہے دوسرے شہروں سے الگ ہے، نوابشاہ کا بجٹ اتنا ہی ہے جتنا دادو کا ہے، دادو کا اتنا ہی ہے جتنا نوشہرو فیروز کا ہے، ہم سب چیزوں کو ساتھ رکھتے ہیں، جتنے ہمارے دوست ہمارے ساتھ آئے ہیں، سردار مینگل ہوں، بگٹی ہوں، دوسرے دوست ہوں، ایم کیو ایم والے ہوں، ان کے ساتھ ہمارے ایگریمنٹس ہوئے ہیں، ان ایگریمنٹس کو it is my responsibility کیونکہ میں نے ان سب کو اکٹھا کیا ہے، میری ذمہ داری ہے کہ ان کی جو ڈیمانڈز ہیں ، جینوئن اور قانونی ڈیمانڈز ہیں انہیں پورا کیا جائے بشمول ایم کیو ایم۔