ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ کل کے تخت نشین آج سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ کل کی اپو زیشن آج حکومتی بنچوں پر براجمان ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر اپو زیشن لیڈر کی نشست خالی کرکے عمران خان کی خا لی کردہ قائد ایوان کی نشست پر بیٹھ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا رویہ عجیب تھا کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے الیکشن کے عمل کا حصہ بننے سے معذرت کرلی۔ شاہ محمود قریشی سے انتخاب جیتنے کے بعد شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے انتخاب سے عین پہلے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کے ایوان سے مستعفی ہو نے کا اعلان کیاجس کے بعد تمام حکومتی ممبران ایوان سے باہرچلے گئے۔
اس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ان کی جگہ چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی نے بطور قائم مقام صدر حلف لیا۔ پی ٹی آئی کو چاہئے تھا کہ اب اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے اور شہباز شریف کو مبارکباد دیتے۔ جمہوری عمل کا حصہ بنتے لیکن وہ اس اسمبلی میں اپو زیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں جس میں حکومت ملنے پر ساڑھے تین سال بیٹھے رہے۔ نئی کا بینہ بن گئی ہے جسے کئی چیلنجز کا سا منا ہے ۔ قانون فطرت کے تحت یہ تبدیلی کا سفر ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں وفاق میں تبدیلی آگئی ہے۔
عمران خان نے کنٹینر سے وزارت عظمیٰ کا سفر طے کیا اور تین سال سات ماہ 24 دن وزیر اعظم رہنے کے بعد وہ دو بارہ کنٹینر پر سوار ہوگئے ہیں۔ وہ ایک ناکام کپتان ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے آخری بال تک کھیلنے کا اعلان کیا مگر انہوں نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا ئے اور گھبرا گئے۔ شکست تو ان کامقدر تھی مگر وہ چاہتے تو وقت پر مستعفی ہوکر عزت اور وقار سے بھی اقتدار چھوڑ سکتے تھےمگر اس کی بجا ئے انہوں نے اپنا نام تاریخ میں ایسے وزیر اعظم کے طور پر لکھویا جنہیں عدم اعتماد کے ذ ریعے نکا لا گیا۔
انکی شکست کے اسباب کا جا ئزہ لیا جا ئے تو اس میں اپو زیشن کا کریڈٹ کم اور ان کی اپنی غلطیوں کا دخل زیادہ نظر آ تا ہے۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان نے خوشنما نعروں اور تبدیلی کے سلوگن سے سیا سی ماحول بنا یا جس میں اسٹیبلشمنٹ نے ان کی مدد کی مگر وہ عوام سے کئے گئے وعدوں اور دکھا ئے گئے خوابوں کی عملی تعبیر دینے میں ناکام رہے ۔ان کے تین سالہ عمرانی دور حکومت کا جا ئزہ لیا جا ئےتو وہ تضادات کا مجموعہ ہے۔
عمران خان کا تکبر ‘ خبط عظمت ‘ ضدی پن اور غیر جمہوری طرز عمل انہیں لے ڈوبا۔بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے پہلے دن عمران خان کو میثاق معیشت اور قومی امور پرتعاون کی پیش کش کی جسے انہوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ بطور وزیر اعظم ان کے منصب کا تقاضا تھا کہ وہ اپو زیشن کو قومی ایشوز پر ساتھ لے کر چلتے اور ان سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرتے مگر و ہ اپنی انا کے حصار میں قید رہے۔
وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی وہ کنٹینر سے نہیں اترے اور چور ڈاکو کی گردان نہیں چھوڑی ۔ عمران خان نے گالم گلوچ اور الزامات کی بھر مار کرکے سیا سی ماحول کو کشیدہ بلکہ آ لودہ کردیا۔ اختلاف رائے کو دشمنی میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے عوامی جلسوں میں مخالفین کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال کرکے ثابت کردیا کہ وہ دوسروں کو ساتھ لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ان کے گرد مہم جو ‘ خوشامدی اور نادان مشیروں کا ایک گروہ تھا جو انہیں بند گلی میں لے گیا۔ انہوں نے مقتدر حلقوں سے بھی تعلقات بگاڑ لئے جو ان کی طاقت کا سر چشمہ تھا۔ ان کے قو ل و فعل میں تضاد تھا۔ انہوں نے مختصر کا بینہ بنا نے کا دعویٰ کیا مگر نصف سنچری بنا دی۔
گور ننس بہتر نہیں کرسکے۔ انتظامی اخراجات میں کمی نہیں لاسکے۔ وہ ماضی کے حکمرانوں پر تنقید کرتے تھے کہ انہوں نے قرضے لئے مگر خود 18ہزار ارب روپے کے قرضے لئے۔ رواں سال کے پہلے نو ماہ میں تجارتی خسارہ 70فیصد بڑھ گیا۔ درآمدات میں 49فی صد اضافہ ہوا۔ کرنٹ اکا ئونٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے اور ڈالر 185روپے تک چلا گیا۔ مہنگائی نے عام آدمی کا کچومر نکال دیا ہے اور مہنگائی ان کی غیر مقبولیت کا سب سے بڑ ا فیکٹر ہے۔ عمران خان کی تمام تر توانائیاں اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے پر مرکوز رہیں۔
ان کے نزدیک وزراء کی کا کردگی کا معیار یہ تھا کہ وہ شریف اور زرداری فیملی کو کتنی گالیاں دیتے ہیں اور ان کے خلاف کتنے کیسز بناتے ہیں ۔اپو زیشن لیڈر کے آئینی منصب کا انہوں نے کبھی احترام نہیں کیا اور شہباز شریف سے مشاورت تو درکنار کبھی مصافحہ تک نہیں کیا۔ ان کے معلو مات کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایڈ یٹرز کو بلا کر یہ خوشخبری سنا دی کہ سمندر سے تیل کا بہت بڑا ذخیرہ مل گیا ہے مگر یہ بات جھوٹ نکلی۔ انہوں نے مرغیاں اور کٹے پالنے کے سطحی آ ئیڈیاز دیے۔ریاست مدینہ کا نام لے کر مذہبی کارڈ استعمال کیا۔
اب انہوں نے پا کستانی سفیر کے کیبل کو استعمال کرکے انٹی امریکہ کا رڈ نکال لیا اور حساس سفارتی معاملہ چوک چو راہوں میں لے آئے۔ان کے نامہ اعمال میں ملکی ترقی اور خوشحالی ‘ اداروں کے استحکام ‘ جمہوریت اور دستور کی بالا دستی اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی ٹیم کے سہارے مصنوعی محل تیار کرائے جو اب زمین بوس ہو رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے وزراء آخر تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہم پانچ سال کی مدت پو ری کریں گے لیکن جب ان کے اتحادی ساتھ چھوڑ گئے تو اب الیکشن کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
ان کی پارٹی کے22 ممبران قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں 40 سے زیادہ ممبران انہیں چھوڑ گئے ہیں۔ سیاست میں یہ ہوتا ہے لیکن اسے قبول کرنے کی بجائے انہوں نے بیرونی سازش کا نیا کارڈ نکال لیااور غداری جیسا سنگین الزام لگا دیا۔ ضمیر فروشی قرار دیدیا حالانکہ پنجاب اسمبلی میںن لیگ کے چھ ایم پی اے تین سال سے اپنی بغل میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے۔ اپوزیشن نے یہ جمہوری اور دستوری آپشن استعمال کیا تو ان پر غداری کا سنگین الزام لگادیا۔
امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر بزعم خود یہ فیصلہ کرلیا کہ جو ان کے ساتھ ہے وہ حق پر ہے اور جو مخالف ہے وہ باطل ہے۔ انہوں نے سیا ست کو کفر و اسلام کی جنگ بنادیا۔ عمران خان نے اقتدار بچانے کیلئے اداروں سے ٹکر لی۔آئین شکنی کی ۔ جمہوریت کو خطرے میں ڈالا لیکن فتح آئین کی ہوئی ۔ جمہوریت کی ہوئی ۔ تکبر ہار گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عوام کو ان سے توقعات ہیں ۔ پہلا چیلنج تو مہنگائی کو کم کرنا ہے جس کیلئے معیشت کی ترقی اور استحکام ضروری ہے۔ ایک لحاظ سے یہ اچھی حکومت ہے جس میں پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ اب شہباز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ عمران خان کے پیدا کردہ نفرت ‘ انتقام اور الزام کلچر کا خاتمہ کریں۔ اپو زیشن کو ساتھ لے کرچلیں۔