• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہڈیوں کا بھر بھراپن (آسٹیو پوروسس) دل کے امراض کے بعد دنیا میں انسانی صحت سے متعلق دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مرض میں ہڈیوں کی لچک میں کمی آجاتی ہے اور وہ بھربھرے پن اور نرم پڑجانے جیسے مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہڈی ایک زندہ ٹِشو ہے، جو مستقل طور پر بنتی رہتی اور اس کے پُرانے حصے ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ہڈی 30 سے 40 برس کی عمر کے دوران اپنی بھرپور حالت میں ہوتی ہے، جبکہ اس کے بعد عموماً ہر فرد کی ہڈیاں گُھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ’اوسٹیو کلاسٹ‘ نامی خلیے ہڈیوں کو توڑتے ہیں، ان ٹوٹی ہوئی ہڈیوں میں پُرانے خلیے کی جگہ نئے خلیے بنتے ہیں۔ اس عمل کو طب کی زبان میں اوسٹیو بلاسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح، ہمارے جسم کے اندر ہڈیوں کے ٹوٹنے اور بننے کے عمل میں توازن قائم رہتا ہے۔

ڈھلتی عمر، ورزش نہ کرنے، متوازن خوراک کی کمی اور خواتین میں ماہواری بند ہونے کے بعد، ہڈیوں کے ٹوٹنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کی بیماری میں ہڈیوں کو توڑنے والے خلیے یعنی اوسٹیو کلاسٹ اپنا کام تیز کرکے اوسٹیو بلاسٹ، جو ہڈیوں کے جوڑنے کے خلیے ہیں، ان کے کام کو ضائع کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہڈیوں کے ٹوٹنے کا عمل تیز اور بننے کا عمل سُست ہونے کی وجہ سے ہڈیوں کے بھربھرے پن کا آغاز ہو تا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہڈیاں زیادہ پتلی اور زیادہ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر ذرا سا دباؤ پڑنےسے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، مَردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ عورتوں میں 45 برس کی عمر کے بعد یہ مرض پیدا ہوتا ہے جبکہ مَردوں میں 50 برس میں آسٹیوپوروسس ہوتا ہے۔ مَردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بیماری ویسے تو پورے جسم کی ہڈیوں کو متاثر کرتی ہے، لیکن ریڑھ، کولہے اور کلائی پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کا تعلق سورج کی روشنی یا دھوپ سے بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مرض پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں پایا جاتا ہے۔ عموماً ہمارے یہاں شہروں میں رہنے والے لوگ جن کا دھوپ میں نکلنا نہیں ہوتا، یا جو لوگ دودھ نہیں پیتے اور مچھلی نہیں کھاتے، ان کو ہڈیوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں، ان میں آسٹیوپوروسس کی شرح کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ ہم نے جتنا جدید لائف اسٹائل اختیار کیا ہے، مثلاً ایئر کنڈیشنر میں سونا، دھوپ میں نہ نکلنا اور موٹاپے کے ڈر سے مناسب غذا نہ لینا،ان تمام عوامل کا نتیجہ آسٹیوپوروسس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق، آسٹیوپوروسس کی بعض دیگر وجوہات میں بڑھتی عمر، خاندان میں پہلے سے اس بیماری کا موجود ہونا، جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی عادت، بہت زیادہ کیفین کا استعمال، کیلشیم کی کمی، تھائی رائیڈ ہارمونز کا مسئلہ اور اسٹیرائڈز (سکون آور دواؤں) کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ اکثر ماہرین اسے ایک ’خاموش بیماری‘ کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ اس میں ہڈیوں کی فرسودگی کا عمل کسی تکلیف کے محسوس ہوئے بغیر سُست روی سے جاری رہتا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ، آسٹیوپوروسس ہونے کے بعد مریض درد یا تکلیف محسوس کرنے لگے۔ جن لوگوں کو یہ مرض لاحق ہو، اگر وہ کسی وجہ سے گِرجائیں، تو گِرنے اور اُٹھنے کے دوران، ان کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی علامات عموماً دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات میں، مریض کو جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ اُٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ، اگر اس مرض میں مبتلا افراد، ادویات سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف بیس منٹ روزانہ سن باتھ لیں (دھوپ میں وقت گزاریں)۔ اگر صرف بیس منٹ بھی ایسا کیا جائے تو ہمارے جسم کی روزانہ کی وٹامن ڈی3کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں میں کیلشیم کو جمع کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ہماری جِلد میں یہ وٹامن موجود ہوتا ہے، جو سورج کی روشنی جسم پر پڑنے سےمتحرک ہو جاتا ہے اور ہڈیوں تک کیلشیم کو پہنچا نا شروع کردیتا ہے۔ 

اس کے علاوہ، کیلشیم دودھ، دودھ سے بنی اشیا، ہری سبزیوں اور مچھلی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، فاسفورس، پروٹین اور نمک کا یومیہ ضرورت سے زیادہ استعمال آسٹیو پوروسس کا باعث بنتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ پروٹین اور فاسفورس پر مشتمل غذائیں، پیشاب کے ذریعے کیلشیم کے اخراج میں اضافے کا سبب سمجھی جاتی ہیں۔ ریفائنڈ شوگر بھی جسم میں کیلشیم کی کمی بڑھاتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

٭ ریڑھ کی ہڈی پر اچانک کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے سے گریز کریں، خصوصاً آگے جھک کر وزن اٹھانے میں احتیاط کریں۔

٭ جب زمین سے کچھ اٹھانا ہو تواسے اپنی کمر کو سیدھا رکھتے ہوئے گھٹنوں کے بل جھک کر اٹھائیں ۔

٭ بستر پر لیٹتے ہوئے اچانک اورتیزی سے پہلو بدلنے سے اجتناب کریں۔ اسی طرح بستر سے اٹھتے وقت بھی احتیاط کریں۔

٭ آسٹیوپوروسس کے مریضوں کے لئے گرنا خاص طور پر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرا سی چوٹ کا نتیجہ ہڈیوں کے ٹوٹنے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ لہٰذا کام کے دوران خاص خیال رکھیں۔

٭ ایسے پائیدان یا چھوٹے قالین راستوں میں نہ بچھائیں جن پرسے پھسلنے یا ان میں پاؤں کے الجھنے کا خدشہ ہو۔

٭ ایسے جوتے پہنیں جو آپ کے پیروں کی حفاظت کریں اور پھسلنے سے بچائیں۔

٭ گیلے فرش پر احتیاط سے چلیں، خصوصاً باتھ روم میں اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

٭ بستر اور کرسی کی اونچائی اپنی ضرورت کے مطابق رکھیں۔

صحت سے مزید