• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلوں اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیش آنے والے سیاسی واقعات کے براہ راست اثرات صوبوں پر بھی پڑنا شروع ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں گورنر خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا جس میں گورنر استعفیٰ دیکر رخصت ہوگئے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کی جانےوالی عدم اعتماد کی تحریک کی واپس لے کر گویا اپوزیشن نے پسپائی اختیار کی ہے جس کے بعد فی الوقت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت رخصت ہونےسے بچ گئی ہے۔ 

ایک طرف اپوزیشن نے ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک واپس لی تو دوسری طرح وزیراعلی نے ایوان غیراعلانیہ طورپر اعتماد کی تحریک بھی لے لی ہے جس میں ایوان کے 88اراکین نے وزیراعلیٰ پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کی واپسی کے ساتھ ہی ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیاں پہلی سیاسی جھڑپ بھی سامنے آئی جس میں حکومتی اراکیں نے وزیراعلیٰ پر اعتماد کے اظہار کے ساتھ ایوان غدار، غدار اور امپورٹیڈ حکومت نامنظورکے نعروں سے گونج اٹھا، اس دوران ایوان مچھلی منڈی کو منظر پیش کررہا تھا جبکہ تحریک انصاف کا ٰایک صوبائی وزیر پی پی پی کی خاتون رخصت اسمبلی کے ساتھ گتھم گتھا ہوگے جس کے نتیجے میں خاتون رکن بے ہوش ہوگئی ،جس کے لئے فوری طور پر ایمبولینس طلب کرنا پڑا۔ 

بعض سیاسی حلقے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی واپسی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ملکی بھگت قرار دے رہے ہیں اور اسے عدم اعتماد کے لئے مطلوبہ تعداد پوری نہ کرنے پر اپوزیشن کی ناکامی گردانتے ہیں، کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پی پی پی کے صوبائی صدر نجم الدین خان کی اس پریس کانفرنس کے بعد جمع کرائی گئ تھی جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 45 اراکین اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ان کے اس دعوے کے بعد اپوزیشن وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف باقاعدہ طورپر عدم اعتماد کی تحریک جس پر اپوزیشن کے 46اراکین کے دستخط تھے صوبائی اسمبلی میں جمع کرائی اور یہ موقف اختیار کیا گیا تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا مقصد صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہونےسے بچانا ہے، سیاسی جماعتوں کا خیال تھا اپوزیشن نے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے یہ موقف اس لئے اختیار تھا کہ شائد مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ختم ہونےکے باعث اس وقت کے وزیراعظم عمران خان یہ اسمبلی بھی تحلیل کرنے کی ہدایت نہ کردے کیونکہ گورنر بھی انہیں کا تھا ،تاہم سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال تھاکہ جونہی مرکز میں سابق وزیراعظم عمران کے خلاف عدم اعتما دکی تحریک کامیاب ہوگی اور  تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوگا تو خیبرپختونخو امیں بھی اپوزیشن جماعتیں متحر ک ہونگی اور عدم اعتماد کی تحریک کے زرئیے یہاں کی حکومت کوبھی رخصت کردیا جائےگامگرا ن کےیہ توقعات اس وقت غلط ثابت ہوئے۔

یہ بات تو طے ہے کہ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومت کے باعث صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کوکافی مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، خصوصا ًوفاقی سے اپنے آئینی حقوق اور دیگر مالی وسائل کے حصول میں کافی مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ باقی امور کے علاوہ ہمارے صوبائی بجٹ کا 90 فیصد انحصار وفاقی کی ادائیگیوں پر ہوتاہے، اور اگر وفاق یہ ادائیگیاں وقت پر کرتاتو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو باقی حکومتی امور چلانے کے علاوہ بجٹ پیش کرنے میں بھی مشکلات سامنا کرنا پرسکتا ہے، کیونکہ یہاں ہمیشہ سے یہ تاثر رہتا ہے کہ جب مرکز اور صوبے میں الگ الگ حکومتیں ہوتی ہیں تو اس سے صوبائی حکومت کو اپنے وسائل کے حصول میں مشکلات کاسامنا رہتا ہے مگر گزشتہ چار سال کے دوران وفاقی اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود موجودہ صوبائی حکومت ہمیشہ اپنے آئینی حق اور مالی وسائل کی بروقت عدم ادائیگی کا رونا روتی رہی، اب جبکہ وفاقی میں اپوزیشن اور صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہوگی تو صوبے کوان کی آئینی حقوق اور مالی وسائل کس طرح اور کب ملیں گے اس کااندازہ آنے والے صوبائی بجٹ کی تیاری کے موقع پر ہوجائے گا۔

اس بات کا انحصار صوبائی حکومت کے رویے پر ہے کہ وہ اپنی مرکزی قیادت کی ایما پر وفاق کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اچھے تعلقات استوار کرتی ہے ،کیونکہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت نے وفاق سے محاذآرائی کا راستہ اختیار کیا تو انہیں وفاق سے مالی وسائل کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گی، اس لئے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرپی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم رہتی ہے تو کیا وہ وفاق سے اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گی، اسی طرح ابھی گورنر کی تقرری ہونا بھی باقی ہے ،لازمی بات ہے کہ صوبے کے نئے گورنر کا تعلق متحدہ اپوزیشن یا پی ڈی ایم میں شامل کسی جاعت سے ہوگا ،اور گورنر صوبے میں وفاق یا صدر کانمائندہ ہوتا ہے۔ 

اگر وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان بہتر تعلقات نہیں ہونگے تو گورنر بھی صوبائی حکومت کےلئے مشکلات پید ا کرسکتا ہے، اس لئے اگرپی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو برقرار رہناہے تو اسے وفاق کےساتھ محاذآرائی کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ محاذ آرائی کی صورت میں عوام اور صوبے دونوں کا نقصان ہوگا، مالی وسائل کی عدم ادائیگی سے دیگر امور کے علاوہ حکومت کے ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہوسکتے ہیں ،اس لئے صوبائی حکومت کی مجبوری ہوگی کہ انہیں ہرصورت وفاق کے ساتھ بنا کررکھنا پڑےگا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید