• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب میں سیاسی بحران کا ذمہ دار کون ؟

ملک کا پارہ بھی موسم کے پارے کی طرح غیر متوقع طور پر وقت سے پہلے ہی اوپر چڑھ گیا ہے اور بلندی کے ساتھ سا تھ غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاروائیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے بعدپنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ کسی میدان جنگ سے کم نہ تھا۔اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی سیاست تاریخ کے بد ترین دوراہے پر کھڑی ہے تو بے جا نہ ہوگا اوراس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے۔ عدالت کے حکم کے مطابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کواختیار دیاگیا کہ وہ اجلاس16 اپریل کو بلائیں اور وزیر اعلی پنجاب کا انتخاب کرائیں۔

بات یہاں تک تو درست تھی لیکن 16 اپریل کو وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن کے لئے فیصلے کی گھڑی قرار دیاجارہا تھا۔ تاہم اسپیکراسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری جو سابق وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کے پوتے ہیں کی میڈیا ٹاک سے اندازہ لگایا جارہا تھا کہ حالات امن کی طرف نہیں بلکہ کسی انہونی کی طرف جارہے ہیں۔ وہی ہواجس کا گمان تھا۔ نئے وزیراعلی کے انتخاب کے لیے اجلاس صبح ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا تھا اور 10 بجے سے ہی اسمبلی کے احاطے میں گہماگہمی شروع ہو گئی تھی۔

سکیورٹی کے پیش نظر اسمبلی کے داخلی دروازے پر رینجرز اور پولیس تعینات کی گئی تھی۔ اپوزیشن نے حکمت عملی کے تحت اپنے ایم پی ایز کو بسوں کے ذریعے اسمبلی کی عمارت میں منتقل کیا۔ پانچ بسوں میں سے ایک خواتین کی تھی۔حکومتی اراکین بھی پہنچنا شروع ہوئے اور دونوں اطراف کی قیادت بھی پہنچی۔ حمزہ شہباز، پرویز الٰہی، علیم خان اور سردار عثمان بزدار بھی 11 بجے سے پہلے ہی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین جب اسمبلی میں آئے تو وہ بہت خوش تھے البتہ حکومتی ارکان کا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ پرویزالٰہی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ اندر کچھ ہو سکتا ہے جسے آنے والے وقت نے درست ثابت کیا۔

اپوزیشن اراکین ہال میں آنا شروع ہوئے تو حکومتی بینچز پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین بھی آ گئے۔اچانک حکومتی اراکین نے پلاسٹک کے لوٹے نکال لیے اور احتجاج شروع کر دیا اور شدید نعرے بازی ہوئی۔ ڈپٹی اسپیکر نے ہال کے اندر جیسے ہی قدم رکھا اسی لمحے میں ہال میں شور بلند ہوا اور جوں ہی وہ اپنی نشست پر بیٹھے تو اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی طرف پلاسٹک کے لوٹے اچھالے گئے اپوزیشن ارکان نے انہیں گھیر لیا تھپڑ مارے ان کےبال نوچے اور دھکے دیے۔اس پرتشدد احتجاج کے باعث ڈپٹی اسپیکر کو سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں دوبارہ واپس اپنےچیمبر جانا پڑا اور اسمبلی کا اجلاس شروع نہ ہو سکا۔

چوہدری پرویز الٰہی نے اس دوران کہا کہ اسمبلی ہال کے اندر پولیس کیوں آئی۔ یوں پنجاب اسمبلی کا اجلاس جو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا تھا۔ شروع ہوئے بغیر ہی ملتوی ہو گیا اور انتہائی پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی۔اس کے بعد جو کچھ ایوان کے اندر ہوا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا چوہدری پرویز الہی کے ایما پر غیر متعلقہ افراد ایوان کے اندر آگئے اور مار کٹائی شروع ہو گئی اور چوہدری پرویز الہی اور ان کے ساتھی فلمی ولن کی طرح زخمی ہو گئے۔ اسمبلی اجلاس پانچ بجے تک تاخیر کاشکار رہا۔تاہم معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا۔

اپوزیشن کی طرف سے اسپیکر اور عملے کی سیٹوں پر قبضے کے باعث اسمبلی کے اندر پولیس تعینات کر کے اجلاس دوبارہ شروع ہوا پھر ہنگامہ آرائی ہوئی اس میں چودھری پرویز الٰہی زخمی بھی ہوئے۔ اینٹی رائٹ فورس کی مداخلت ہوئی اور کچھ لوگوں کو پکڑا بھی گیا۔ تاہم اس کے بعد پی ٹی آئی اور ق لیگ نے بائیکاٹ کردیا۔ اس کے بعد اجلاس کی کارروائی مکمل ہوئی اور ن لیگ نے وزیر اعلی پنجاب کے امیدوار حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے اوروزیر اعلی پنجاب بن گئے۔ ایک گھنٹے سے زائد وقت میں گنتی مکمل ہوئی اور افطاری سے پہلے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے نتائج کا اعلان کردیا حمزہ شہباز 197ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب جب کہ چودھری پرویز الہی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے انہیں اپوزیشن بینچوں سے حکومتی بینچوں پر آنے کی دعوت دی، یوں اپوزیشن حکومت اورحکومت اپوزیشن میں تبدیل ہوگئی۔ تاہم پنجاب کی سیاست میں معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا ۔حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بن تو گئے لیکن پھر معاملہ حلف بردار ی کاآیا۔ اس سلسلے میں گورنر پنجاب نے حلف لینے سے انکار کردیا اور حلف برداری کی تقریب ملتوی کر دی۔ وزیر اعظم نے اس پاداش میں گورنر پنجاب کی برطرفی کی سمری صدر مملکت کو بھجوا دی۔ گورنر پنجاب نے نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لینا تھا لیکن ان کی جانب سے واضح طور پر حلف لینے یا نہ لینے کے حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔

جو عملی طور پر انکار ہی تھا۔ اس ساری صورتحال میں سوالات اٹھے کہ اراکین کو لوٹے اندر لانے کی اجازت کس نے دی؟ ڈپٹی اسپیکر پر حملہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا یا اچانک کیا گیا؟ ان سوالوں کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر نے قرار دیا کہ ساری صورتحال کے باوجود وہ اراکین کے تعاون کرنے پر خوش ہیں۔ اس سیاسی صورتحال میں ایک ایسا افسوس ناک واقعہ بھی ہوا جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ایک حساس ادارے کے حاضر سروس آفیسر کوکچھ لوگوں نے تشدد کانشانہ بنایا۔ آرمی چیف نے سی ایم ایچ لاہور میں تشدد کا نشانہ بننے والے میجر حارث کی عیادت کی اور یقین دہانی کرائی کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید