لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ نے حلف برداری سے انکار کیخلاف حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے صدر پاکستان کو حلف لینے سے متعلق فوری نمائندہ نامزد کرنے کی ہدایت کر دی.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ سسٹم تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے،نظام کو بچانے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے، وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے جس طرح تاخیری حربے استعمال کئے گئے سب پتا ہے ،گورنر آئین کے تحت حلف لینے سے انکار نہیں کرسکتے ، وہ آئین کی قدر نہیں کر رہے تو عدالت انہیں قابل احترام نہیں کہے گی.
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ کسی کو بھی آئین سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے،جس پر عدالت نے کہا کہ آپ یہ بات گورنر پنجاب کو بھی بتا دیں جو یہاں بتا رہے ہیں،بعدازاں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کےچیف جسٹس محمد امیر بھٹی کی زیر سربراہی بینچ نے گزشتہ روز حمزہ شہباز کی وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف نہ لینے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ میں نے عدالتی حکم پر گورنر پنجاب سے ملاقات کی ہے، میرے دو تین اعتراضات ہیں جو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کے بعد اسپیکر حلف لے سکتا ہے، حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں اسپیکر کو فریق نہیں بنایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب نے حلف نہ لینے کا کوئی جواز بتایا ہے، جیسے صدر نے بتا دیا تھا کہ وہ موجود نہیں ہیں۔انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ 11 بجے تک گورنر سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ حلف کیوں نہیں لینا چاہتے۔
لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کی درخواست پر کارروائی 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ گورنر پنجاب سمجھتے ہیں وزیر اعلیٰ کا الیکشن قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہوا، سر گورنر کوئی ربر اسٹمپ یا پوسٹ آفس تو نہیں ہے، گورنر پنجاب نے حلف لے رکھا ہے۔ انہوں نے آئین کے مطابق ہی چلنا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے استدعا کی کہ کیس پیر تک ملتوی کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں مہلت دی جائے آپکو ؟ آپ کے پاس تو اسکے علاوہ کوئی اورکام ہی نہیں ہے.
گورنر پریس کانفرنس کر رہے ہیں تو کیا اس کیس کیلئے ٹائم نہیں انکے پاس ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا انہوں نے اسپیکر کو فریق ہی نہیں بنایا،چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ شہباز اسپیکر کو فریق کیوں بنائے؟ پہلے آپ بتائیں کہ گورنر کیوں حلف نہیں لینا چاہ رہے؟ اپنی معذرت جس کو لکھنی ہے اسی کو لکھیں، عدالت کو اپنی معذرت نہ لکھیں۔
عدالت نےایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کو اندازہ ہے صوبہ کیسے چل رہا ہے ؟ یہ الیکشن جیسے ہوا سب علم ہے، عدالت کے حکم پر چیف منسٹر کا الیکشن ہوا، جس طرح سے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے سب پتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعلیٰ کے الیکشن کی جو سماعتیں ہوئی وہ ختم ہو گئیں۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مزید کہا کہ یہ بہت اہم ترین معاملہ ہے جو آج اس عدالت کے سامنے ہے، میں عدالت میں تحریری تفصیلی جواب دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اہم معاملہ ہے تو آپ تیاری کر کے آتے، آپ تو یہاں تاریخ لے لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 21 دن سے پنجاب میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے، 21 دن سے سارا کام بند پڑ رہا ہے، گورنر کیا کر رہے ہیں، انہوں نے تو تجویز پر عمل کرنا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ گورنر پنجاب صدر پاکستان کو حلف نہ لینے کی ساری وجوہات بیان کرینگے۔
تاہم چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساری وجوہات بالکل لکھیں لیکن وہ کب لکھیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اگر مجھے گورنر نے کوئی چیز پوچھی تو میں نے آئین سے دیکھ کے بتا دیا، میں عدالت کو کوئی وقت نہیں دے سکتا کہ گورنر کل پرسوں یا کب صدر کو لکھیں گے.
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ کسی کو بھی آئین سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ یہ بات گورنر پنجاب کو بھی بتا دیں جو یہاں عدالت میں بتا رہے ہیں، اس سسٹم کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے، سسٹم کو بچانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے.
گورنر پنجاب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہوا، ایک خاتون ایم پی اے تشدد کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت امید کرتی ہے کہ گورنر پنجاب آج ہی صدر کو لکھیں گے اور ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ اگر آپ گورنر کی نمائندگی نہیں کر رہے تو کون کر رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو کہا کہ گورنر کو دو بجے تک کا وقت دے رہا ہوں، گورنر نے کوئی فیصلہ لے لیا تو ٹھیک ورنہ عدالت اپنا حکم پاس کریگی۔سماعت دو بجے دوبارہ شروع ہوئی تو گورنر کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کیے جانے پر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان کو حلف لینے سے متعلق نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس امیر بھٹی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم صدر مملکت کو بھی بھجوایا جائے۔