برصغیر پاک و ہند میں فلمی کہانیوں میں جہاں رومانی اور نغماتی فلموں نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے سحر میں مبتلا کیا، وہاں دیگر موضوعات پر مبنی فلموں نے بھی باکس آفس پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ خصوصاً سسپنس، جاسوسی، ایڈونچر فلمیں ہمیشہ عوام میں خاصی پسند کی گئیں۔ کمرشل سینما میں ان فلموں کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہی، پاکستان کی فلمی صنعت میں اس سلسلے کا آغاز 1959ء میں ہدایتکار ہمایوں مرزا کی فلم ’’راز‘‘ سے ہوا۔ جس کی سسپنس سے بھرپور کہانی سلیم احمد نے لکھی، یہ فلم اپنے دور میں سپرہٹ رہی اور پھر جاسوسی فلموں کا ایک سنہرا دور شروع ہوا۔
معروف فلم ساز، ہدایت کار اقبال یوسف، جب بھارت سے 1960ء میں پاکستان آئے، تو انہوں نے اپنی پہلی فلم ’’رات کے راہی‘‘ بنائی جس کا موضوع جاسوسی تھا۔ اس فلم نے کمرشل سینما میں کام یابی حاصل کی۔ اقبال یوسف کی دوسری فلم ’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ کے موضوع میں جاسوسی اور سسپنس تھا۔ یہ فلم ان کی پہلی فلم کے مقابلے میں زیادہ کام یاب رہی۔ اس کام یابی سے ان کا نام سینما اسکرین پر جاسوسی اور سسپنس فلموں کے حوالے سے بے حد کام یاب تصور کیا جانے لگا۔ 1962ء میں انہوں نے مصنف سلیم احمد سے فلم ’’دال میں کالا‘‘ کی کہانی لکھوائی۔
یہ وہ دور تھا، جب اداکار محمد علی نے اپنے فلمی کیریئر کاآغاز فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘سے کیا تھا۔ اس فلم میں ان کے منفی کردار کو بے حد پسند کیا گیا تھا۔ ہدایت کار اقبال یوسف نے اپنی فلم ’’دال میں کالا‘‘میں انہیں ایک بار پھر منفی کردار میں کاسٹ کیا۔ اس فلم میں اداکار کمال نے ہیرو کا کردار کیا، جب کہ اداکارہ بہار نے ہیروئن کا کردار نبھایا۔ معروف اداکار ادیب کی پہلی فلمی تھی۔ ان دِنوں وہ بمبئی سے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔ بمبئی میں وہ چند فلموں میں اپنی اداکاری کا سکہ جما چکے تھے۔
یہی وہ فلم تھی، جس کی تکمیل کے دوران اقبال یوسف اور بہار کا عشق میاں بیوی کے رشتے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ مصنف سلیم احمد نے اس فلم کی کہانی کا آئیڈیا انگریزی فلم (Some like it hot) سے لیا تھا۔ فلم کا سیکنڈ ہاف فل کامیڈی تھا، جس نے جاسوسی اور سسپنس فلمیں پسند کرنے والے سنجیدہ فلم بینوں کو بے حد بور کیا، جس کی وجہ سے فلم اپنی ریلیز کے بعد وہ کام یابی حاصل نہ کر پائی، جو اس سے قبل ریلیز ہونے والی اقبال یوسف کی فلم ’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ نے حاصل کی تھی۔
خاص طور پر اداکار کمال نے بعض مناظر میں بہت ہی اوور ایکٹنگ کا شکار رہے۔ اداکار محمد علی کے کردار اور پرفارمنس کو فلم بینوں نے بے حد سراہا۔ ان کا کردار فلم کی بنیادی کہانی کا مرکزی کردار تھا۔ وہ اس میں فلم کے ہیرو سے زیادہ پسند کئے گئے۔ فلم اسکرپٹ میں اگر فلم اسٹار رخسانہ کے کردار کو بڑھایا جاتا، تو شاید یہ فلم باکس آفس پربہت اچھا بزنس کرتی۔ رخسانہ کے مختصر کردار کے بعد محمد علی کے کردار کو بھی زیادہ ایکسپوز نہ کیاگیا۔ اس کے باوجود ان کی اداکاری فلم کی ہائی لائٹ بنی۔
انہوں نے مراد نامی ایک کریمنل شخص کا کردار ادا کیا، جو اسمگلروں کے ایک بین الاقوامی گروہ کا اہم کارکن تھا۔ یہ گروہ ملک میں دہشت گردی اور جعلی ادویات کے کاروبار میں ملوث تھا۔ جس کا سربراہ اداکار ساقی تھا۔ جو فلم کے شروع میں اپنے ملک کی ڈانسر زوبی (رخسانہ) کی عصمت دری کرنے کی کوشش میں اس کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔ ساقی کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی نرگس (ناصرہ) اپنے باپ کی جگہ گینگ کی سربراہ بن کر گینگ چلاتی ہے اورگروہ کے کسی کارکن کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے اصل باس ساقی کا قتل ہو چکا ہے اور مرد کی آواز سے ایک نقاب پوش جو کارکنوں کو مختلف نوعیت کے کاموں کا حکم دے رہا ہے، وہ ایک عورت ہے، اس سسپنس سے پردہ فلم کے اینڈ میں ناصرہ کے اقبال جُرم سے ہوتا ہے، جو اپنے باپ کی قاتل کلب ڈانسر زوبی کا قتل کر دیتی ہے۔
کلب ڈانسر زوبی جو مراد (محمد علی) کو چاہتی ہے اور مراد بھی زوبی کو بہت پیار کرتا ہے اور اس سے وعدہ کرتا ہے کہ بہت جلد جرائم کی اس دُنیا کو چھوڑ کر وہ زوبی سے شادی کرکے ایک پُرامن اور پُرسکون زندگی بسر کرے گا۔ اس بات کا علم جب گینگ کے سربراہ ساقی کی بیٹی ناصرہ (نرگس) کو پتہ چلتا ہے، تو وہ زوبی کی دشمن بن جاتی ہے، کیوں کہ وہ بھی مُراد کو بہت چاہتی ہے، لیکن ایک روز زوبی کے ہاتھوں ساقی کا قتل ہو جاتا ہے اور وہ وہاں سے فرار ہو کر اپنے ہاسٹل میں آجاتی ہے۔ کلب میں میوزک ماسٹر بانسری والا شمیم (کمال) زوبی کو اپنی منہ بولی بہن بنا لیتا۔ جس روز زوبی کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے، اس روز شمیم ہوسٹل کے کمرے میں جب زوبی سے ملنے جاتا ہے ، تو مراد پہلے سے ہی زوبی کے کمرے میں ہوتا ہے۔
شمیم کے آتے ہی وہ دوسرے کمرے میں چھپ جاتا ہے، زوبی جب شمیم کے لیے چائے بناکر لانے لگتی ہے، تو ایک گولی چلتی ہے اور زوبی کی لاش خون میں لت پت فرش گر گر جاتی ہے۔ مراد وہاں سے نامعلوم قاتل نے پیچھے جاتا ہے، جو نقاب پوش تھا۔ گولی کی آواز سے ہوسٹل کے کمرے کے سارے لوگ جاگ جاتے ہیں۔ شمیم وہاں سے عورت کا بھیس بدل کر نکل جاتا ہے۔ زوبی کی سہیلی فریدہ (بہار) اس کی لاش پر روتی ہے اور اس کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا عہد کرتی ہے۔
شمیم اپنے دوست آدھے منے (فیضی) کے ساتھ مل کر زوبی کے کمرے پر نظر رکھتا ہے۔ فریدہ ایک روز شمیم اور آدھے منے کو بتاتی ہے کہ زوبی کو کوئی محبت نامے لکھتا تھا۔ اگر ہمیں وہ خطوط مل جائیں، تو زوبی کے قاتل تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہوسٹل کا کمرہ، جہاں زوبی کا قتل ہوا تھا، وہ پولیس نے سیل کردیا تھا اور ہوسٹل کا مالک مرزا عاشق حسین (نرالا) اپنے نام کی طرح بے حد عاشق مزاج تھا۔ شمیم کو زنانہ روپ میں دیکھ کر اس سے عشق جھاڑنا شروع کردیتا ہے۔ شمیم زنانہ روپ میں مرزا کو عشق کا چکر دیتا اور مردانہ روپ میں فریدہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔
یہ منظر دیکھ کر آدھا منا کہتا ہے، پارٹنر دال میں کچھ کالا ہے!! آخرکار ایک روز زوبی کے کمرے سے وہ خطوط مل جاتے ہیں، جو مراد نے اسے لکھے تھے۔ مُراد بھی ان خطوط کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مراد ان خطوط کا فریدہ اور شمیم سے سودا کرتا ہے اور پھر اپنے باس سے پچاس ہزار مانگتا ہے۔ باس انکار کرتا ہے، مراد اسے پولیس کی دھمکی دیتا ہے، باس گروہ کے ایک کارندے نادر (ادیب) کو کہتا ہے، مراد غدار ہوگیا ہے، اسے جلد ٹھکانے لگا دو۔ نادر اپنے آدمیوں کے ساتھ مراد پر حملہ کرتا ہے۔
شمیم اور آدھا منا اسے بچا لیتے ہیں، مگر نادر اور اس کے ساتھی مراد کو ٹیکسی میں بٹھا کر اغواء کر لیتے ہیں۔ مون لائٹ کلب میں نرگس کا ڈانس آئٹم شروع ہوتا ہے،اس دوران شمیم آکر زنانہ لباس میں نرگس کو غائب کرکے خود ڈانس کرتا ہے اور پولیس آکر تمام جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرلیتی ہے۔ نادر اور نقاب پوش فرار ہو کر سمندری بوٹ میں سوار ہوجاتے ہیں، جہاں فریدہ اور شمیم ان کا تعاقب کرتے ہیں اور پھر ایک مقام پرنادر مارا جاتا ہے اور نقاب پوش کو فریدہ پکڑ لیتی ہے اور جب اس کا نقاب اتراتی ہے، تو وہ نرگس ہوتی ہے، جو اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ زوبی کو مراد نے نہیں، میں نے قتل کیا ہے، کیوں کہ وہ مراد کو چاہتی تھی اور وہ ہمارے گروہ کے طرز بھی جانتی تھی۔ میں مراد کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ زوبی نے میرے باپ کو بھی قتل کیا تھا۔ شمیم کا راز بھی یہاں کھل جاتا ہے کہ وہ بانسری نواز نہیں، بلکہ خفیہ پولیس انسپکٹر تھا، جو اس گروہ کو گرفتار کرنے کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اس ڈیوٹی میں آدھا منا بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا۔
کہانی اور اداکاروں کے بعد بات کرتے ہیں، فلم کے گانے اور میوزک کی۔ موسیقار مصلح الدین نے اس فلم میں انگریزی دھنوں، طبع آزمائی کی ، جس پرنغمہ نگار فیاض ہاشمی کی شاعری کا وہ معیار تھا، جو فلمی شاعری میں ان کا خاصہ رہا ہے۔ حمایت علی شاعر کا لکھا ہوا اس فلم کاایک گانا معیاری شاعری کا نمونہ پیش کرتا نظرآیا، جس کے بول تھے، کاہوں ہوں ہوں تجھے کیا خبر میری ایک نظر پڑی جادوگر کا ۔ اس گانے میں شاعر نے چند عربی الفاظوں کا استعمال بے حد خوب صورتی سے کیا۔ گانا اپنے دور کی معروف ویسٹرن اسٹائل ڈانسر مہر پروین پر فلمایاگیا، جس میں ملنگ چارلی نے بھی حصہ لیا۔ اس گانے کو نجمہ نیازی اور احمد رشدی نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا۔
یہ فلم کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو اورلاہور کے ملکہ اسٹوڈیو میں مکمل کی گئی تھی۔ اس فلم کو پورے پاکستان میں ایور ریڈی پکچرز نے ریلیز کیا تھا، یہ فلم 2؍ نومبر 1962ء کو کراچی کے جوبلی، حیدرآباد کے راحت سنیما میں نمائش پذیر ہوئی۔ پہلے دن میں فلاپ ہونے والی یہ فلم 1978ء میں نئے پرنٹوں کے ساتھ جب کراچی کے خُوب صورت سینما کوہ نور میں ریلیز ہوگی تو، اس نے شان دار بزس کرتے ہوئے مسلسل دو ماہ بڑی کام یابی سے مکمل کئے اور دیگر سینماؤں میں یہ فلم اس دوران چلتی رہی اپنے سیکنڈری میں یہ شان دار کام یاب رہی۔