• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسانے اور ناول کا فن زندگی کی تخلیق نو ہے۔ زندگی وہ نہیں ہوتی جو ہم جی رہے ہوتے ہیں یا کہہ لیجئے جینے کے جتن کر رہے ہوتے ہیں ، افسانے اور ناول میں آکر زندگی کے اس پیٹرن میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں زندگی کا نیا چہرہ سامنے آتا ہے؛ ویسا جیسا ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا محض خواب کی سطح پر نہیں ہوتا کہ خواب تو اکثر غیر مربوط اور کسی لاجک کے بغیر ہوتے ہیں۔ ان اصناف میں یہ پیٹرن اس سے کہیں بڑھ کر حقیقی ہوتا ہے اور اپنے پیچھے فکشن کی اپنی منطق رکھتا ہے۔ اب رہامعیاری افسانے اور ناول کا سوال تو اس باب میں ایک آدھ سطر میں بات نہیں نمٹائی جا سکتی۔ 

مختصر لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کہانیاں کسی اور دنیا سے ہمارے پاس نہیں آتیں، ہمارے آس پاس ہی ہوتی ہیں، ان کہانیوں کے فکشن بننے کے درمیان اگر کچھ حائل ہوتا ہے تووہ کوئی اور نہیں ہم خود ہوتے ہیں۔ ہم بھی اور ہماری زبان بھی۔۔۔ اور ہاں اگر انہیں کوئی بدل کر فکشن بنا دیتا ہے تو وہ بھی ہم ہوتے ہیں۔ جی ہم اور ہماری زبان بھی۔ یہاں ہم سے مراد وہ تخلیق کار ہیں جو یہاں وہاں موجود کہانیوں میں سے کوئی کہانی اپنے نام کرلیتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تخلیق کار کسی اور دنیا کے باسی نہیں ہوتے، ہماری اپنی دنیا کے ہوتے ہیں۔ 

یہ میں بھی ہو سکتا ہوں اور آپ بھی۔ مگر یاد رہے میں آپ نہیں ہو سکتا نہ آپ میں۔ یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ جب ہم سے دوسرے منہا ہو جائیں تو ہمارا وجود اور ہماری شخصیت تشکیل پاتی ہے۔اگر ایسا ہے، اور یقینا ایسا ہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہانی جو آپ کے پاس آئے اور آپ کے وجود کے اندر اتر کر کاغذ پر اپنا وجود پائے وہ میرے وجود سے ہو کر کاغذ پر اترتے ہوئے ویسی ہی رہے جیسی آپ کے قلم کا کرشمہ ہوئی۔ اسے ہر حال میں مختلف ہونا ہوتا ہے اور اگر مختلف نہیں ہوتی تو یقین جانیے کہیں نہ کہیں معاملہ گڑبڑ ہے۔ یہ گڑبڑ ہی کہانی کو آپ کے لفظوں میں "معیاری" کے درجے تک نہیں پہنچنے دیتی۔

اچھا، اس سارے عمل کو ایک اور رُخ سے دیکھتے ہیں اور اس ہو چکی بات کو کچھ نقاط کی صورت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے نقطے کے سامنے میں نے ’’مشاہدہ‘‘ لکھ لیا اور اس کے دو ذیلی نقاط ’’الف‘‘ اور ’’ب‘‘ بنالیے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ’’مشاہدہ الف‘‘ محض دیکھنے کا عمل نہیں ہے آپ اور میں ایک وجود ہو کر نہیں دیکھ سکتے کہ یہ ہماری وجودی مجبوری ہے۔ ہم پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر دیکھیں گے یا آپ بیٹھ جائیں گے اور میں آپ کے عقب میں کھڑا ہو کر دیکھ لوں گا دونوں صورتوں میں نظر کا زاویہ بدل جائے گا۔ ایسے میں دیکھے جانے والے منظر کی جو تصویریں میرے ذہن کے البم میں محفوظ ہوں گی،ان کی کچھ لکیریں اور رنگ ان تصویروں سے مختلف ہوتے چلے جائیں گے جو آپ کے ذہن کے البم کا حصہ بن پائیں۔

"مشاہدہ ب‘‘ کی ذیل میں کہنا ہے کہ ہماری آنکھ محض کیمرہ نہیں ہے کہ کھٹ کھٹ بس تصویریں بناتی چلی جائے۔ یہ دیکھے جانے والے منظر سے ایک تعلق قائم کرتی ہے،اس لیے کہ یہ آنکھ زندہ انسانی وجود کی ہے۔ جی، زندہ انسانی وجود کی، جو ایک حسیاتی نظام رکھتا ہے۔ تاہم کچھ کے ہاں یہ حسیاتی نظام اتنا فعال ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی لرزش پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے اور کچھ کے ہاں قدرے کم فعال کہ بہت سی کروٹوں کو دیکھ کران دیکھا کر دیتا ہے۔ ایک منظر پر کوئی آنکھ جھٹ گیلی ہو جائے گی اور کوئی بٹر بٹر دیکھتا چلا جائے گا۔ لکھنے والوں کے ہاں یہ حسیاتی نظام بہت فعال سہی مگر ہر ایک کے ہاں یہ فعالیت بھی ایک سی نہیں ہوتی یوں مشاہدے میں جو تیسری جہت یا گہرائی پیدا ہوتی ہے وہ ہر ایک کے ہاں مختلف ہو جاتی ہے۔ 

مشاہدے کے بعدزبان کی طرف آتے ہیں کہ جوکہانی مشاہدے کے وسیلے سے آئی، اسے لکھنے والے نے اپنی زبان میں لکھنا ہوتا ہے۔ کہانی کا ہر منظر تصویروں کے ایک سلسلے کی صورت میں آپ کے ذہن میں محفوظ تھا اور میرے ذہن میں بھی۔ اور ہم یہ اخذ کر چکے تھے کہ دونوں کے پاس کہانی ایک ہو کر بھی ان تصویروں میں مختلف ہوتی چلی گئی تھی۔ لیجئے میری اور آپ کی زبان اسے اور بھی مختلف کرنے جا رہی ہے۔ میرا اور آپ کا ذخیرہ الفاظ ایک سا نہیں ہے۔میرا اور آپ کا لہجہ مختلف ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا انداز جداگانہ ہے۔ پھر ہمیں یہ اختیار بھی ہے کہ جملے کی ساخت بدل بدل کر ایک ہی بات کو بیان کرنے کا انداز بدل لیں۔ 

گویا اُن تصویروں کو جو ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں ہر بار ایک ترتیب میں کاغذ پر نہیں اتارتے۔ پھر انسانی ذہن کی کارکردگی ہر صورت میں ایک سی نہیں رہے گی کہ لکھتے ہوئے کچھ تصویریں آپ کے ہاں طاق نسیاں پر دھری رہ جائیں گی اور کچھ میرے ہاں۔ ہم دونوں کے ہاں کچھ تصویریں زیادہ روشن ہو کر فن پارے میں متن ہوں گی اور کچھ کے رنگ پھیکے رہ جائیں گے اور ہم دونوں کے ہاں اس کا انتخاب اپنا اپنا ہوگا۔ گویا ہرتخلیق کار کو زبان اور کہانی سے تخلیقی سطح پر معاملہ کرتے ہوئی اپنی انفرادیت کے ہالے ہی میں رہنا ہوتا ہے۔

ایک اور نقطہ ہے: اسلوب۔ اسلوب کا چرچا آپ نے سنا ہوگا تو یہ جان لیجئے کہ بن بن کر لکھنے اور بنابنا کر لکھنے سے اسلوب نہیں بنتا یہ تو شخصیت کی تخلیقی تظہیر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلوب ایک الگ موضوع ہے اور طویل گفتگو کا متقاضی۔ میں اپنی بات مختصر کرنے کا حیلہ کرتے ہوئے روایت پر ایک آدھ بات کرنا چاہوں گا کہ یہ اصطلاح ہمارے موضوع کو سمجھنے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ روایت سے مراد روایتی ہونا نہیں ہے۔بلکہ اس باب میں ہو چکے اس تخلیقی تجربے سے اکتساب ہے جو تہہ در تہہ اسی روایت میں موجود ہوتا ہے۔ 

روایت کی بابت بات کرتے ہوئے میرے ذہن میں فکشن لکھے جانے کے وہ جدید اور جدید تر تجربات بھی ہیں جو روایت سے انحراف کے دعوے کے ساتھ وجود میں آتے ہیں گویا جب ہم افسانہ لکھنے کا ارادہ باندھتے ہیں تو منظر اور پس منظر، گزر چکے اور گزر رہے ہر تخلیقی تجربے کا اثر قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک کھرے، سچے اور جینیوین تخلیق کار کے ہاں یہ تجربات عین مین ویسے ظاہر نہیں ہوتے جیسا کہ اس نے ان سے اکتساب کیا ہوتا ہے وہ اس کے ہاں وہ کھاد ہوجاتے ہیں جسے زمین میں دبا کرکچھ وقت کے لیے یوں چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے اسے بھول ہی گئے ہوں۔ یہی انحراف دراصل انفرادیت کا وہ بیج ہے جوتخلیقی زمین میں بیخچہ اور راس جنین کی صورت نمو پاتے ہی ایک اسلوب میں ڈھلنے لگتا ہے۔ لیجئے انفرادیت کا ایک اور زینہ طے ہوا۔ یہ زینے یہاں ختم نہیں ہوتے۔

جوں جوں آپ آگے بڑھتے جائیں گے مختلف ہوتے چلے جائیں گے اور آخر کار آپ کی اپنی تخلیقی شخصیت اپنی پوری قامت کے ساتھ ظاہر ہو جائے گی۔ شاعروں اور افسانہ نگاروں پر یہ جو دیوانگی کی پھبتی کسی جاتی ہے یا انہیں اپنی سماجی تشکیل سے ہٹ کر چلنے والے اور’خبط عظمت‘ میں مبتلا اشخاص کے طعنوں اور مہنوں کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا تخلیقی عمل سماجی تشکیل کا پابند نہیں ہوتا اسے توڑنے، پیسنے، گوندھنے اور اپنے تخلیقی وجود کے چاک پر ایک اچھوتی صورت میں ڈھال لینے کا پابند ہوتا ہے۔ یہ پابندی ہی تخلیقی عمل کی آزادی ہے اور اس آزادی کو کام میں لا کر ہی ایک اعلیٰ فن پارے کی تخلیق ممکن ہو پاتی ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی