کراچی (جنگ نیوز) کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ منگل کو چینی باشندوں پر جو خونریز خودکش حملہ ہوا اس کے پیچھے علیحدگی پسند دہشت گرد گروہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
یہ کالعدم گروہ جو دیگر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں، بلوچستان میں سرگرم ہے۔ بی ایل اے کا ہدف بلوچستان کی مکمل آزادی کا حصول ہے جو پاکستان کے رقبے میں سب سے بڑا صوبہ ہے، جبکہ اس کی آبادی دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔
صوبے میں دہائیوں سے بغاوت کی کیفیت ہے، باغیوں کا الزام ہے کہ بلوچستان کے قدرتی اورمعدنی وسائل کا استحصال کیا جارہاہے۔ بلوچستان کے شمال میں افغانستان اورمغرب میں ایران سے سرحدی ملتی ہیں، جبکہ جنوب میں بحرئہ عرب کے ساتھ طویل ساحل لگتاہے۔
پاکستانکی سب سے بڑی گیس فیلڈ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر ہی ہے اور خیال کیا جاتاہے کہ تیل اور گیس کے غیر دریافت بھاری ذخائر موجود ہیں۔ سونا اور تانبہ سمیت قیمتی معدنیات اور دھاتیں بھی معدنی پیداوار کا اہم جز ہیں جن کی پیداوار حالیہ برسوں میں بڑھی ہے۔
بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپوں میں سے اکثر خود مختار اور آزادی کیلئے اپنے طورپر سرگرم ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں کے دوران ان کے درمیان باہمی تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ان کی توجہ کا مرکز اور ہدف پاکستان کی سیکورٹی فورسز ہیں لیکن خطے میں چین کی اقتصادی چھاپ کے تناظر میں بلوچستان میں چینی مفادات کو بھی ہدف بنایا جارہا ہے۔
بلوچستان کیلئے چینی منصوبوں میں گوادر کی بندرگاہ نمایاں ترین اور آبنائے ہرمز کے قریب ترین ہے، جہاں تیل کی ترسیل ہوتی ہے یہاں پر خدمات انجام دینے والے چینی انجینئروں پر دہشت گرد حملے ہوئے جس کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی۔
بلوچستان میں سونے اور تانبے کی اہم اور بڑی کانیں چینی کمپنی چلاتی ہے۔ چین کے لئے اپنے باشندوں کی سلامتی سب سے بڑا ایشو ہے۔ جب سے سی پیک (اقتصادی راہداری) کی شروعات ہوئی چینی تشویش میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔ سی پیک کا مالی حجم 60ارب ڈالر ہے۔
بی ایل اے نے اپنے حملوں کے جواز میں بتایا کہ چینی نے بلوچستان کے حوالے سے اس کی وارننگ کو نظرانداز کردیا۔
بی ایل اے کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز ہٹالی جائیں اور غیر جانبدار اور آزاد بین الاقوامی ضمانت کار کی موجودگی میں بات چیت کی جائے تاکہ بلوچستان کی آزای کیلئے تفصیلات طے کی جاسکیں۔ علیحدی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ فدائیں نوجوان اور تعلیم یافتہ بلوچ ہیں جنہیں اقتصادی ترقی کے عمل میں نظرانداز کیا جارہاہے۔
بی ایل اے کی موجودہ شکل میں قیادت بالاچ مری نے کی جو 2007میں افغانستان میں مارا گیا۔ جہاں اس نے اپنا خفیہ اڈا قائم کررکھا تھا۔ گروپ کا کہنا ہے کہ اس وقت بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب بلوچ کے ہاتھوں میں ہے جو تنظیم کا شیڈو کمانڈر انچیف ہے۔
بلوچستان میں بی ایل اے نے بڑے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کیہے جبکہ کراچی میں بھی چینی مفادات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 2020میں کراچی اسٹاک مارکیٹ اور 2018میں چینی قونصل خانے کو نشانہ بنایا گیا۔