گزشتہ دنوں ضلع شہید بینظیر آباد میں 3 خواتین کے ایسے گروہ پکڑے گئے جو کہ بلوچستان کے راستے منشیات کے سندھ میں اسمگلنگ میں ملوث تھے، اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ بین الصوبائی منشیات فروش گروہ کی خاتون کارندہ سمیت دو افراد کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب وہ کار میں ساڑھے تین من چرس بلوچستان کے راستے لے کر وہاں پہنچ رہے تھے۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ بلوچستان کے راستے چرس سندھ میں اسمگل کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں خواتین کو اس کاروبار میں ملوث کرکے پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک گروہ چرس لے کر نواب شاہ آرہا ہے۔
پولیس نے باقاعدہ طور پر اس کے لیے ناکے لگائے اور خواتین پولیس کو تعینات کیا گیا اور جب ایک مشکوک کار میں موجود خاتون ایک بچے اور ڈرائیور کے ساتھ دوڑ تھانے کی حدود میں داخل ہوئی تو اس مشتبہ کار کی تلاشی کے لیے پولیس نے گھیرا ڈالا تو اس خاتون نے زبردست مزاحمت کی اور تلاشی دینے سے انکار کیا۔ تاہم لیڈی پولیس کی وجہ سے وہ تلاشی دینے پر مجبور ہوئی اور جب پولیس نے اس کار کی تلاشی لی تو اس کے خفیہ خانوں سے ساڑھے تین من چرس، جس کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے، برآمد کر لیں۔
اس بارے میں ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزمان جن کا تعلق جیکب آباد سے ہے، اس نیٹ ورک کو بلوچستان سے کنٹرول کر رہا ہے ۔ دوڑ کے قریب مہران ہائی وے اور ہیڈ برج پر اس کارروائی میں منشیات کے بین الصوبائی گروہ کی سرغنہ ملزمہ مسمات لال خاتون عرف ثمینہ زوجہ غلام شبیر سولنگی کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح کی ایک اور کارروائی بی سیکشن تھانہ کی حدود میں پولیس نے کی، جہاں منشیات کی ایک سے اسمگلر خاتون کو جس نے اپنے جسم پر جو بیس کلو چرس باندھی ہوئی تھی، رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔
اس سلسلے میں پولیس کا کہنا تھا کہ یہ خاتون اس چرس کو کراچی لے کر جا رہی تھی اور اس کار پر جب چھاپہ مارا گیا تو اس نے بھی شدید مزاحمت کی، لیکن پھر پولیس کو تلاشی دینے پر آمادہ ہوئی تو کار کے خفیہ خانوں سے اور اس کے علاوہ اس کے اپنے جسم پر باندھے گئے چرس کے پیکٹ جس کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے، بر آمد کر لی گئی۔ اس سلسلے میں پولیس کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک منظم گروہ ہے جو کہ خواتین کے ذریعے بین الصوبائی طور پر منشیات کی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہے اور اس سلسلے میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نیٹ ورک کو چلانے والے اسمگلر خواتین کو استعمال کر رہے ہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ خواتین کو اس کاروبار میں ملوث کئے ہوئے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ معصوم بچے بھی ساتھ ہوتے ہیں، جو کہ اس منشیات کی اسمگلنگ میں خواتین کی گود میں ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ کسی کو شک نہ ہو اور وہ باآسانی مقررہ ٹھکانوں پر منشیات پہنچا سکے ۔ دوسری جانب اس بارے میں پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ منشیات فروشی کے اس کاروبار میں خود پولیس کے محکمے کی کالی بھیڑیں بھی ملوث ہیں، جو کہ سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ضلع شہید بینظیر آباد سے منشیات فروشی کے کاروبار کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ بیس پولیس اہل کار جو کہ منشیات فروشوں کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ ضلع بدر کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ بیس ایسے پولیس افسران ہیں جن کو شوکاز نوٹس بھی دیئے گئے ہیں۔
ادھر دوسری جانب پرانا نوابشاہ میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے گھر میں مریض رکھانے کے بہانے داخل ہونے والے چار برقع پوش ڈاکو کو پولیس نے گرفتار کر کے لوٹا ہوا مال برآمد کرلیا۔
جب کہ دوسری جانب شہر میں گٹکا اور مین پوری کی فروخت پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور پورے شہر میں منشیات کی یہ نئی قسم نوجوانوں کو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا کر رہی ہے۔