• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر میں تقریبا 27سال بعد دوسری خاتون بمبار کی جانب سے جامعہ کراچی میں خودکُش حملے کے نتیجے میں گاڑی میں سوار3 چینی باشندوں اور وین ڈرائیور سمیت 4 افراد ہلاک ، جب کہ چینی باشندے اور رینجرز اہل کار سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔ نشانہ بننے والی گاڑی میں آگ لگ گئی،جس کے نتیجے میں گاڑی موجود تمام افراد کی لاشیں مکمل طور پر سوختہ ہوگئیں۔ مبینہ ٹاؤن تھانے کی حدود جامعہ کراچی میں شعبہ کامرس اور شعبہ کنفیوشس کے قریب منگل کی دوپہر ہائی ایس وین نمبر BB-0173 گزر رہی تھی کہ اس میں اچانک زودار دھماکا ہوا اور اور اس میں آگ لگ گئی۔

واقعہ کے بعد وہاں خوف و ہراس پھیلا گیا، واقعہ کے بعد گاڑی کے اندر موجود افراد گاڑی کے اندر ہی جلنے لگے اور گاڑی میں آگ لگ گئی، وین میں ڈائریکٹر کنفیوشس سمیت دیگر چینی افراد بھی سوار تھے ، فائر بریگیڈ اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں نے موقع پرپہنچ کر آگ بجھانے کے بعد لاشیں نکال کر اسپتال منتقل کیں، جہاں مرنے والے افراد میں سے 3 چینی باشندوں کی شناخت ڈائریکٹر کنفویشش ہوانگ گیوپنگ، ڈنگ موپینگ اور چین سائی کے ناموں سے ہوئی ہے،جب کہ چوتھا جاں بحق ہونے والا شخص پاکستانی اور وین ڈرائیور خالد کے نام سے ہوئی ہے، جب کہ زخمیوں میں حامد حسین اور تصور حسین ایک رینجرز اہل کار اور ایک چینی باشندہ، وونگ شامل ہیں۔ 

دھماکے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اس موقع پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نےعلاقے کو گھیرے میں لے لیا اور قریب نصب کیمروں کی مدد سے یہ بات واضح ہوئی کہ دھماکا خودکُش تھا اور حملہ آور ایک خاتون جو برقعے میں ملبوس تھی اور گاڑی کے انتظار میں کھڑی تھی، جیسے ہی وین اس کےقریب پہنچی اس نے خود کو اڑا لیا۔ بم ڈسپوزل یونٹ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکا خیز مواد3 سے 4 کلوگرام تھا اور اس میں انتہائی طاقت ور بارودی مواد کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھ اسٹیل کی بال بئیرنگ کا بھی ستعمال کیا گیا تھا۔ 

دھماکے کے نتیجے میں گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی اور اس میں بھی بال بئیرنگ کے ذرات بھی موجود تھے، جب کہ قریبی موجود موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت سی ٹی ٹی ڈی کے افسران بھی جائے وقوعہ پر پہنچے، انہوں نے بھی جائے وقوع کا دورہ کیا۔ سی ٹی ڈی کے سینئر افسر راجا عمر خطاب نے بتایا کہ دھماکا خودکُش تھا ، خود کُش حملہ اور خاتون تھی اور ایک کالعدم تنظیم نے ذمہے داری بھی قبول کر لی ہے۔انہوں نے کہا کہ خودکُش بمبارلڑکی نے دھماکا خیز مواد اپنے بیگ میں رکھا ہوا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ واقعہ کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے اور دیگر کیمروں کی بھی مدد لی جارہی ہے کہ خاتون اور کس کس سے ملی تھی، جب کہ اطراف سے 3 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے ۔ خود کش بم دھماکے پر بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کی رپورٹ موصول ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق دھماکے میں 3 سے 4 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے۔ بی ڈی ایس رپورٹ کے مطابق دھماکے کے لیے بڑی مقدار میں اسٹیل بال بیرنگ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خود کش حملہ آور خاتون نے ایک میٹر کے فاصلے سے خود کش حملہ کیا، خود کش بمبار کے جسمانی اعضا اور برقعے کے حصے حاصل کیے ہیں۔

ترجمان جامعہ کراچی کا کہنا ہےکہ ریکارڈ کے مطابق خاتون خودکش بمبار کے یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہونے کی تردید کر تے ہوئے کہا ہے کہ البتہ شازی بلوچ نامی ایک طالبہ فزکس ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم تھی، جو پاس آؤٹ ہوچکی تھی ،جب کہ خودکش دھماکے میں ہلاک ہو نے والے ڈاکٹر ہونگ نے2 ماہ قبل ہی ڈیپارٹمنٹ میں پوسٹنگ کرائی تھی اور ڈاکٹر ہوانگ گیوپنگ نے ہی چائینیز ڈیپارٹمنٹ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ بنایا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ہوانگ 2013 میں ڈائریکٹر تعینات ہوئے اور چند سال بعد واپس چین چلےگئے تھے اور 2ہ قبل خود دوبارہ ڈیپارٹمنٹ میں پوسٹنگ کرائی تھی۔

عوامی حلقوں جامعہ کراچی میں ہونے والے خود کش دھماکے نے انٹیلی جنس و قانون نافذ کر نے والے ادروں اور جامعہ کراچی کی سیکیورٹی کی کارکردگی پر کئی سوال اٹھا دئیے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ خاتون خودکش بمبارجامعہ کراچی کیسے پہنچی، اطاعات یہ بھی ہیں کہ خود کش حملہ آور خاتون نے جامعہ کراچی میں آنے کے لیے ممکنہ طور پر رکشے کا استعمال کیااور مسکن چورنگی گیٹ کا استعمال کیا ۔ اتنی بڑی دہشت گردی کےلیے باقاعدہ ریکی کے بعد ہی چینی باشندوں کی وین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے لیے وین کےآگے پیچھے رینجرز کے موٹرسائیکل سوار اہل کار بھی مامور تھے۔اس کے باوجود دہشت گرد اپنا ہدف حاصل کر نے میں کام یاب ہو کر سوالیہ نشان لگا گئے ہیں ۔ عوامی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے دہشت گردی اس واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے اداروں کومزید الرٹ رہناہوگا۔

صانٹرنیٹ ،واٹس ایپ اور فیس بک کی یلغار اور اس کا منفی استعمال ہماری نوجوان نسل کو والدین سے نہ صرف منحرف کررہا ہے، بلکہ علیحدگی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ماہ رمضان کے مقدس ماہ کے10روز کے دورا ن یکے بعد دیگرے شہر کے مختلف علاقوں سے 3نو جوان لڑکیوں کے لاپتہ (مبینہ اغوا)ہونے اور بعد ازاں والدین کی مرضی کے خلاف شادیوں کی تصدیق سے بچیوں کے والدین میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑگئی ہے۔ واقعات کے مطابق الفلا ح کے علاقے سے نوجوان لڑکی دُعا زہرہ ، سعودآباد کی نمرہ کاظمی اور سولجر بازار سے لا پتہ ہونے والی لڑکی دینہ، بازیاب تو نہ ہو سکیں، البتہ انھوں نے میڈیا کے ذریعے شادیوں کی تصدیق کرتے ہوئے نکاح نامے بھی منظر عام پر لے آئیں۔ 

قابل غور امر یہ ہے کہ مذکورہ لڑکیوں نے اپنے والدین پر مبینہ تشدد کےالزامات لگا کران کے خلاف کیسیز بھی کردیے ہیں۔ دُعا کی لاہور اور نمرہ کی ڈیراغازی خاں میں موجودگی کی اطلاع اور ان کے نکاح نامے منظر عام پر آنےکے بعد دونوں لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے واقعات کا ڈراپ سین ہو گیا۔ دُعا زہرہ نے لاہور میں ظہیر نامی نوجوان سے شادی کی ، پولیس ذرا ئع کے مطابق ظہیر احمد شیر شاہ لاہور کا رہائشی ہے۔ دُعا زہرا کے نکاح نامے کی فوٹو کاپی بھی مل گئی ہے۔ نکاح نامے کی تصدیق کے حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں، جب کہ پولیس نے لڑکیوں کی بازیابی کی باضابطہ تصدیق سے انکار کیا ہے ۔ دعا کے والد کا کہنا ہے کہ میری بچی عمر 14سال ہے، جب کہ نکاح نامے میں اس کی عمر 18سال درج ہے، مجھ سے ایڈیشنل آئی جی کراچی نے رابطہ کرکے خود دریافت کیا کہ دُعاکے حوالے سے کچھ معلومات ملی ہے۔

ذرائع کے مطابق دُعا کا ماموں گزشتہ روز لاہور گیا تھا اور دُعا نے اپنی والدہ سے بھی رابطہ کیا تھا، جس میں اس نے نکاح کا بتایا تھا۔ سندھ پولیس کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ لڑکی کو لاہور پولیس نے حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔ کراچی پولیس ذرائع کے مطابق پولیس نے اس کیس میں کافی محنت کی۔ تاہم جدید طریقوں کی تفتیش کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ زیادہ تر لوگ اب واٹس ایپ ایپلیکیشن کے ذریعے کالز کرتے ہیں جو کہ امریکی سوفٹ وئیر ہے، جوہماری دسترس میں نہیں ہے۔ 

دُعا کے پاس موبائل فون بھی نہیں تھا اور وہ اپنی والدہ کا موبائل فون ہی استعمال کرتی تھی، جس میں وہ چیٹنگ کے ساتھ آن لائن گیمز بھی کھیلتی تھی۔ دُعا کی والدہ کے موبائل سے کافی ڈیٹا اکٹھا گیا تھا، جسے ریکور بھی کیا گیا اور کچھ کالز کو بھی ڈی کوڈ کیا گیا۔ تاہم اس سے خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوئی ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کراچی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ لاپتہ دُعا زہرا کا پتا چل گیا ہے اور وہ لاہور میں ہے۔ لاہور پولیس کی مختلف ٹیمیں نکاح نامے میں درج لڑکے، نکاح خواں اور گواہوں کے پتوں پر پہنچی، تو سب جعلی تھے اور لڑکی بازیاب نہیں ہوئی۔

نکاح نامے پر لڑکے ظہیر احمد کی تاریخ پیدائش 17دسمبر 2001، پتہ سی بلاک شیر شاہ کالونی رائے ونڈ درج ہے۔ مذکورہ مکان ظہیر کا بھائی شبیر 3 سال قبل فروخت کر چکا ہے اور اب یہاں ایک ڈاکٹر کا کلینک ہے۔ دُعا زہرا کے نکاح نامے پر اس کی تاریخ پیدائش درج نہیں۔ تاہم عمر 18 سال اورایڈریس یونین کونسل بابو صابو ملت پارک شیرا کوٹ لاہور درج ہے۔ شادی کی تاریخ 17 اپریل 2022 ہے، حق مہر کی رقم 50 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔نکاح خواں حافظ غلام مصطفیٰ کا ایڈریس مزنگ روڈ لاہور درج ہے، جو جعلی ہے۔

ابھی دُعا زہرہ کے لاپتہ ہو نے کا معمہ حل نہیں نہ ہو تھا کہ دوسری جانب ملیر سعود آباد میں واقع گھر سے میٹرک کی طالبہ پُراسرار طور پر غائب ہوگئی ۔ 20 اپریل کو سعودآباد آر سی ڈی گراونڈ کی رہائشی ہیلتھ ورکر نرگس زوجہ محمد ندیم کی بیٹی نمرہ کاظمی گھر سے پراراسرار طور پر غائب ہوگئی، لاپتہ لڑکی کی والدہ نرگس کا کہنا ہےکہ واقعہ کے دن میں صبح ساڑھے8 بجے ڈیوٹی پر چلی گئی تھی، 2 گھنٹے بعد میں نے بیٹی کو فون کیا، تو اس نے فون اٹینڈ نہیں کیا، کچھ دیر بعد دوبارہ فون کیا تو موبائل بند مل رہا تھا ،جب گھر پر آکر دیکھا تو بیٹی گھر پر نہیں تھی۔ میں نے نمرہ کی تمام دوستوں اوررشتے داروں سے رابطے کیے ، لیکن سب نے لاعملی ظاہر کردی ، جس کے بعد میں نے سعودآباد تھانے جاکر بیٹی نمرہ کے اغوا کا مقدمہ درج کرادیا۔ 

تاہم 4 دن گزر جانے کے باوجو کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، نرگس نے مزید بتایا کہ 2 ماہ قبل نمرہ نے ایک نوجوان شاہ رخ کا تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا وہ رشتہ بھیج رہا ہے ، جس میں نے رشتہ دینے سے منع کردیا تھا اور کہا ابھی تمہاری تعلیم مکمل نہیں ہوئی، پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شادی کردیں گے،مجھے شبہ ہے شاہ رخ نے ہی میری بیٹی کو اغوا کیا ہے، بیٹی کے اغوا کے بعد شاہ رُخ اور اس کی والدہ سے رابطہ کیا کہ میری بیٹی آپ کے گھر پر تو نہیں ہے، تو انھوں نے منع کردیا تھا ، لڑکی کی ماں نے شاہ رُخ کا موبائل نمبر پولیس کو دے دیا ہے ۔

پیر کے روز دُعا زہرہ کے نکاح نامے کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی لاپتہ ہونے والی نمرہ کاظمی دختر ندیم کاظمی نکاح نامہ بھی منظر عام پر آگیا، جس میں نمرہ نے اغوا کی تردید کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ میں نے شاہ رخ نامی لڑکے سے ڈیرہ غازی خان میں نکاح کرلیا ہے۔ لڑکی نمرا کی والدہ نے بھی نجیب شاہ رخ پر شبہ ظاہر کیا تھا، کیوں کہ اس کی جانب سے کچھ عرصہ قبل رشتہ بھیجا گیا تھا، جسے منع کردیا گیا تھا ۔ 

بعد ازاں لڑکی گھر سے اچانک غائب ہوگئی تھی۔ نمرہ کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، جس میں اس کہنا ہے کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا گیا ہے میں اپنی مرضی سے 17پریل کو یہاں آئی ہوں اور بغیر کسی دبائو کے اپنی مرضی سے 18اپریل کو محمد نجیب شاہ رخ کے ساتھ نکاح کر لیا ہے ،نکاح کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے۔

مذکورہ لڑکیاں اغوا نہیں ہوئی تھیں اور دُعا زہر کی بازیابی کے بعد چائلڈ پروٹیکشن یونٹ میں یہ کیس جائے گا کہ لڑکی اگر کم عمر ہے، تو اس کے ساتھ نکاح کرنے والے شخص کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب سولجر بازارتھانے کی حدود سے لاپتہ ہو نے والی25 سالہ نوجوان لڑکی د ینہ نے بھی پیر کے روز اپنی گمشدگی کا معمہ حل کرتے ہو ئے اپنا نکاح نامہ اہل خانہ اور پولیس ارسال کر دیا ،اس نے وہاڑی کے رہائشی شخص اسد عباس سے شادی کر لی ہے ،مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا ،میں اسد عباس سے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے ،جس کے بعد دینار کے بھائی نے تھانے جاکر پولیس سے گمشدگی کی رپورٹ واپس لے لی۔

، گلشن اقبال بلاک 19 میں ایک اور نوجوان لڑکی کا اغوا اور زیاد تی کاو اقعہ رونما ہوا،متاثرہ بچی کے والد عبدالولی خان کے مطابق 13 اپریل کو بچی گھر کے نیچے سے لاپتا ہوئی تھی ،جسے ہر جگہ ڈھونڈا ، والد عبدالولی خاں نے الزام لگایاکہ عزیز بھٹی تھانے میں رپورٹ درج کے لیے گیا، تو پولیس نےٹال دیا۔ 14اپریل کو بچی گھر کے نیچے بے ہوشی کی حالت میں ملی، بچی کا جناح اسپتال میں ایم ایل کرایا گیا تھا، ایم ا یل رپورٹ میں معلوم ہوا کہ بچی سے زیادتی بھی کی گئی ہے، والد کا کہنا ہے کہ میری بچی کو فلیٹ کے رہائشی پڑوسی نے اغوا کیا، بااثر افراد کی سرپرستی کے باعث پولیس کارروائی نہیں کررہی ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید