ایسے تو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی پانی کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا لیکن اس تنازع میں میں بڑے اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ مسلہ یہ ہے کہ اس خطے کے اکثر دریا ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور ان کے منبع زیادہ تر بھارت میں واقع ہیں۔گوکہ 1960 میں جنرل ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم نے سندھ طاس معاہدے پر دست خط کیے تھے تاکہ اس مسئلے کا کوئی دیر پا حل نکالا جاسکے۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریا یعنی سندھ, چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا اور تین مشرقی دریا یعنی بیاس, راوی اور ستلج کا پانی بھارت کو دے دیا گیا۔
یہ معاہدہ پاکستان کے حق میں بہتر اس لیے نہیں تھا کہ بھارت کو دہے جانے والے دریاؤں کا بڑا حصہ پاکستان میں ہی واقع تھا اس لیے کم ازکم ایک اور مشرقی دریا خاص طور پر راوی کا پانی پاکستان کو دیا جانا چاہئے تھا۔اس لیے بھی کہ راوی کے راستے میں پاکستان کے بڑے آبادی والے علاقے آتے تھے جن کے لیے پانی کی اشد ضروت تھے۔ لیکن عالمی بینک نے اس مفاہمت کو پاکستان پر تھوپ دیا اور چوں کہ خود ایوب خان کسی پارلیمان کو جواب دہ نہیں تھے اس لیے انہوں نے عالمی بینک کی دیگر امداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر دست خط کردیے۔
پاکستان پچھلے 5،6 سال سے یہ اعتراض اُٹھا رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں
اس معاہدے کے چند برس بعد ہی اس کے تباہ کن نتائج پاکستان میں سامنے آنا شروع ہوگئے۔ راوی ایک گندے نالے کی شکل اختیار کرتی گئی اور جنوبی پنجاب میں بھی دریا خشک ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے یہ کیا کہ جب بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جس سے غیر متوقع طور پر پانی کے ریلے آ کر یہاں تباہی پھیلانے لگے۔ گو کہ پاکستان نے اس کے بعد کئی بار کوشش کی کہ اس معاہدے میں منصفانہ ردّ و بدل کرکے پاکستان کو اس کا جائز حصہ دلوایا جائے لیکن خود عالمی بینک نے اس میں کوئی زیادہ دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور پاکستان کی آبی حق تلفی ہوتی رہی۔
اب تازہ ترین صورت حال ہے کہ رتل اور کشن گنگا آبی بجلی کے منصوبے ہیں جن سے بالترتیب 850 اور 330 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھارت قابل اعتراض طریقے سے ڈیم بنا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی رسد مزید متاثر ہوگی۔ پاکستان کے اعتراض کے باوجود بھارت نے ان منصوبوں پر کام کی رفتار تیز تر کردی ہے اور گنگا کشن ڈیم کو تو مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے حصّے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں ہے اور پاکستان پچھلے پانچ چھ سال سے مسلسل یہ اعتراض اٹھا رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔
کشن گنگا ڈیم دریائے جہلم پر پاکستان کے حصّے کے پانی کو روک رہا ہے جب کہ رتل ڈیم دریائے چناب پر بنایا جارہا ہے۔ یعنی تین دریا جو بھارت کو دیے جاچکے ہیں اُن کے علاوہ دو مزید بڑے دریا بھارت کے تصرف میں ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کر پارہا۔ بھارت اس سلسلے میں بڑی چالاکی سے کام لے رہا ہے اور پاکستان کی بات کو مسترد بھی نہیں کررہا یعنی بات چیت کا راستہ بھی کھلا رکھا ہوا ہے اور کہتا ہے اس سلسلے میں غیر جانب دار ماہرین مقرر کیے جائیں مگر ورلڈ بینک خود چوں کہ امریکی زیر اثر ہے اس لیے خاموش ہے۔
اس سلسے میں ورلڈ بینک کو فوری مداخلت کرکے بھارت کو مجبور کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے منصوبوں پر کام روک دے مگر خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں جو بھارت کے ساتھ گرم جوش تھی اس نے غالباً ورلڈ بینک کو بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے سے روکے رکھا۔ پھر جوبائیڈن کے آنے کے بعد تو امریکی حکومت پاکستان کے سابق وزیراعظم کی حرکتوں کے باعث خاصی ناراض دیکھائی دی۔اب پاکستان کے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ حنا ربانی کھر اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے بلاول سے بات کی ہے اور انہیں امریکا آنے کی دعوت دی ہے۔ جلد ہی نیویارک میں غذائی تحفظ کے موضوع پر کانفرنس ہونے والی ہے اور پاکستان کو اس کانفرنس میں یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے۔
غذائی تحفظ کا سب سے بڑا تعلق پانی کی فراہمی سے ہے اگر دریاوں میں پانی روکا جائے تو کاشت کاری شدید متاثر ہوتی ہے جس سے فیصل کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہیں۔ اس مسئلے کو چھ برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور عالمی بینک اس مسئلے پر مسلسل تاخیر کررہا ہے اور جواز یہ دے رہا ہے کہ اگر اس مسئلے کو شدت سے اٹھایا گیا تو خود سندھ طاس معاہدہ خطرے میں پڑھ سکتا ہے یعنی بھارت کھلم کھلا کہہ سکتا ہے کہ وہ اس معاہدے سے دست بردار ہورہا ہے ایسی صورت میں پاکستان یا عالمی بینک کچھ نہیں کرسکیں گے جیسا کہ کشمیر میں ہوا۔
سندھ طاس معاہدہ جتنا بھی بُرا سہی کم ازکم اس میں کچھ ضمانتیں تو ہیں مثلاً یہ کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریاؤں پر منصوبے ایک دوسرے کی رضا مندی کے بغیر شروع نہیں کرسکتا تاکہ اگر اعتراض ہو تو اسے کسی طرح حل کیا جائے۔
سندھ طاس معاہدے سے ملنے والا پانی پاکستان کی تقریباً پانچ کروڑ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کا وہ رویہ ہے جس کے تحت وہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت جموں کشمیر اور لداخ میں دریائے سندھ پر آٹھ نئے آبی منصوبے شروع کررہا ہے جن میں سات منصوبے لداخ میں اور ایک جموں کشمیر میں ہوگا۔ تقریباً تین ارب روپے کی لاگت سے لداخ میں در بکشیو آبی بجلی کا منصوبہ صرف ڈھائی سال میں مکمل ہونا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ پاکستان کی غفلت کا دخل بھی ہے کیوں کہ ہماری حکومتیں اعتراضات بہت دیر سے کرتی ہیں۔
مثلاً کیشن گنگا ڈیم کے خلاف ہم نے عالمی بینک سے اس وقت شکایت کی جب اس کی تعمیر بہت آگے بڑھ چکی تھی اور عالمی بینک نے اسی نکتے کو استعمال کرتے ہوئے مزید تاخیر کردی۔ اس وقت پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ بارشیں ویسے ہی کم ہورہی ہیں۔ ہمارے گلیشیئر ختم ہورہے ہیں اور ایسے میں دریاؤں پر بھارتی رکاوٹیں مستقبل میں پاکستان کو بُری طرح متاثر کریں گی نہ صرف پانی کی کمی بل کہ غذائی قلت کا شدید خطرہ پیدا ہوجائے گا ایسے میں ہمیں فوری کاروائی کی ضروت ہے۔بھارت کے دیگر منصوبوں میں نیمو شلنگ منصوبہ, کارگل ہنڈر منصوبہ, منگرم سنگر منصوبہ اور اسنوک منصوبہ شامل ہے جو سب آبی بجلی کے منصوبے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان میں کچھ لوگ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ حکومت کو کالا باغ بنا لینا چاہیے۔ اس منصوبے سے بھارت کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ پاکستان کے چھوٹے صوبے ضرور متاثر ہوں گے۔ سندھ اور بلوچستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کے جنوبی علاقے پانی سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں جن کے باعث ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی اوپر کی طرف آکر زمین کو شورزدہ کررہا ہے جس سے سجاول, ٹھٹہ, بدین اور دیگر علاقوں میں کاشت کاری بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔
اس لیے کالا باغ ڈیم مسئلے کا حل نہیں ہے بل کہ بھارت سے مزید پانی کا حصول ہی ہمارا مطالبہ ہونا چاہیے۔پہلے ہی پاکستان کے بالائی علاقوں میں بھاشا اور داسو ڈیم زیر تعمیر ہیں اب مزید کالا باغ ڈیم کی ضرورت نہیں ہے بل کہ ہمیں بجلی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے ہوں گے جن میں پون یا ہوائی بجلی اور شمسی توانائی سے چلنے والے منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔اب پاکستان کو بھارت کے منصوبے عالمی سطح پر اٹھانے چاہیے اور عالمی برداری کو بتانا چاہیے کہ پاکستانی آبی ضروریات کے لیے ان دریاؤں کا پانی کتنا ضروری ہے۔