• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

’’مدینۂ منورہ‘‘ کائنات ارض و سماوات کا وہ نگینہ ہے، جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت کی رم جھم برستی رہتی ہے، ساکنانِ مدینہ سائبان کرم میں رہتے ہیں، اہل مدینہ کو مدینے کا شہری ہونے کے باعث بے پناہ فضیلت حاصل ہے۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کے شب و روز کا ہر لمحہ حضور اکرم ﷺکی چادرِ رحمت کے سائے میں گزرتا ہے، نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں کا حصار انہیں اپنے دامنِ عطاء و بخشش میں چھپا لیتا ہے۔ اہل مدینہ کو بتقاضائے بشریت اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حرف شکوہ زبان پر نہیں آنے دیتے، یہ امر ان کے لیے غایت درجہ اجرو ثواب کا باعث ہے۔

احادیث نبوی ؐمیں مدینۂ منورہ کے بے شمار فضائل بیان کیے گئےہیں، چند فضائل پیش خدمت ہیں ۔

٭مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے۔ (صحیح بخاری)٭ مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے ،اگر علم رکھتے ۔٭یہ حرم پاک ہے ۔(صحیح مسلم )٭ بےشک مدینہ امن والا حرم ہے ۔٭فرشتوں کے ذریعے، طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت کی گئی۔(صحیح بخاری)٭مدینے کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں ،اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔٭مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا۔(صحیح بخاری)٭اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص مدینۂ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا، قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘(صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا، جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

آپﷺ کے شہر ِدل نواز، مدینۂ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپﷺ کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا، وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینۂ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ)

حضرت ابن عمر ؓ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینے میں موت کی سعادت رکھتا ہو، وہ ایسا کرے، کیونکہ جو مدینے میں وفات پائےگا، میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔(ابن ماجہ)

امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے فرمایا، میری مسجد میں ایک نماز بیت اللہ کے سوا ہر مسجد میں پڑھی ہوئی ایک ہزار نماز سے افضل ہے۔(بخاری، مسلم )

حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مسجد میں ایک نماز مسجد الحرام بیت اللہ کے علاوہ باقی ہر مسجد کی ہزار نماز سے افضل ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں، سرورکائناتﷺ نے فرمایا: میری مسجد میں پڑھی ہوئی ایک نماز ،مسجد الحرام کے علاوہ باقی ہر مسجد میں پڑھی ہوئی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ (مسند احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان)

مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنا، دعا کرنا، عبادت اس قسم کے امور کے لیے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، نہ صرف حاجیوں کے لیے، بلکہ سب مسلمانوں کے لیے جائز ومشروع ہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنے والا پانچ وقت نماز مسجد نبویؐ میں ادا کرے اور مسجد نبویؐ میں نماز، دعا، ذکر الٰہی کو اپنے لیے غنیمت سمجھے، اس لیے کہ مسجد نبویؐ میں عبادت بڑے اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ خطہ زمین جو میرے منبر اور گھر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے، زیارت کنندہ وغیرہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ فرض نماز کے لیے آگے بڑھے، حتیٰ الامکان پہلی صف کی محافظت کرے اگرچہ صف اول پہلی تو سیع شدہ جگہ میں ہو۔ چنانچہ صحیح احادیث میں رسول اللہ ﷺنے پہلی صف میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔آپﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف میں شامل ہونے کا علم ہو جائے تو وہ گھٹنوں کے بل چل کر بھی آئیں گے۔

مدینہ منورہ ،مسجد نبویؐ اور روضۂ رسولﷺ ،ان مقاماتِ مقدسہ کی حاضری اور زیارت کا شرف بڑی سعادت کی بات ہے۔محدثین اورفقہائے کرام نے باضابطہ اس کے آداب بیان کیے ہیں۔ بالخصوص روضۂ نبوی ﷺکے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں اپنی آوازوں کو نہایت پست اور دھیما رکھا جائے،وہاں بلند آواز سے ذکرو اذکار یہاں تک کہ درودوسلام بھی اتنی بلند آواز میں پیش نہ کیا جائے ،جو روضۂ رسولﷺ کی حاضری کے آداب کے منافی ہو۔چہ جائیکہ وہاں شوروغل کیا جائے۔ 

بےمقصد آوازیں بلند کی جائیں۔ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ زائرین میں سے بعض قبر نبویؐ کے نزدیک آواز بلند کرتے اور احتراماً دیر تک قیام کرتے ہیں، یہ شریعت کے خلاف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو منع کیا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺکی آواز سے اپنی آواز کو بلند، اونچا نہ کریں یا آپﷺ کو بے ادبی سے آوازنہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی ﷺکی آواز سے اونچا نہ کرو اور نہ آپﷺ کو اس طرح آواز دو، جیسا کہ تم میں سے بعض بعض کو آواز دیتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتا بھی نہ ہو، بے شک، وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺکے پاس اپنی آواز کو پست کرتے ہیں، یہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے خاص کر دیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات)

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے مسجد نبویؐ میں دو افرادکی بلند آواز سنی، تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا’’کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا:تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عرض کی: ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ ارشاد فرمایا: اگر تم مدینۂ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں(یہاں آواز بلند کرنے کی وجہ سے) تمہیں ضرور سزا دیتا(کیونکہ مدینۂ منورہ میں رہنے والے دربارِ رسالتﷺ کے آداب سے خوب واقف ہیں) (ابن کثیر)

سرورِ کائنات، فخر موجودات، تاجدار مدینہ، سیدنا حضرت محمد ﷺ کے روضۂ انور کی زیارت بالاجماع افضل طاعات میں سے ہے اور درجات کے لیے سب وسائل سے بڑا وسیلہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

ضروری ہے کہ مدینۂ منورہ میں قیام کو غنیمت جانے اور جب تک وہاں کی حاضری مقدر ہو،اکثر وقت مسجدِ نبویﷺ میں بہ نیتِ اعتکاف گزارے اور پنج گانہ نمازیں جماعت کے ساتھ بلکہ تکبیر ِاولیٰ اور اوّل صف کے اہتمام کے ساتھ ادا کرے، مسجدِ نبویﷺ میں نماز ادا کرنے پر بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: میری مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزارنمازوں کے برابر ہے۔ ایک حدیث میں ہے:جو شخص مسجد نبویﷺ میں مسلسل ۴۰؍ فرض نمازیں پڑھے، اس کے لیے جہنم سے چھٹکارا اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بری ہوجاتا ہے۔

جب مدینۂ منورہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہو، بہتر یہ ہے کہ نیت زیارتِ قبر مطہرہ کی کرے، تاکہ مصداق اس حدیث کا ہوجائے کہ جو شخص میری زیارت کو آئے، مجھ پر اس کی شفاعت واجب ہے۔ دعا اور درود شریف نہایت خشوع وخضوع، عاجزی وانکساری کے ساتھ پڑھتے ہوئے، داہنے پاؤں سے مسجد میں داخل ہو، اگر ممکن ہو تو بابِ جبرائیل ؑسے اندر داخل ہو، یہ زیادہ بہتر ہے۔

مسجدنبویﷺ میں داخل ہونے کے بعد اِدھر اُدھر دیواروں وغیرہ کو نہ دیکھتا رہے،بلکہ خوب ادب کا لحاظ رکھے اور فرض نماز کی جماعت کا وقت ہو تو اس میں شریک ہو جائے، ورنہ ریاض الجنہ میں دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر دعا کرے۔پھر انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔ بارگاہ نبوی میں یوں کھڑے ہوںکہ نگاہیں بارگاہ نبوی ﷺ میں عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرتی رہیں اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کرکے حضور اکرمﷺ کے زمانے میں کھو جائیں۔پھر مسلمان آپﷺ کی بارگاہ میں وقار و ادب کے ساتھ ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے آئے، جیسا کہ صاحبانِ ایمان و صاحبان علم کا شیوہ ہے۔ آپﷺ کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے گھر (یعنی موجودہ قبرِ اطہر کا مقام) اور میرے مبنر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

اگر ریاض الجنۃ میں نماز کا موقع میسر نہ ہو تو پھر روضۂ انور کے قریب جہاں جگہ ملے ،نفل پڑھ لے اور سلام پھیر کر اللہ کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرے اور زیارت کے قبول ہونے کی دعا کرے۔اگر روضۂ اطہر تک بھیڑ کی وجہ سے پہنچنا ممکن نہ ہو تو مسجد نبویﷺ کے کسی بھی حصّے میں کھڑا ہو کر سلام پیش کرسکتا ہے۔

اس موقع پراپنی ذات سے کسی کو تکلیف دے اور نہ خود بہت تکلیف برداشت کرے۔ درود و سلام سے فراغت پر دوبارہ بارگاہ سرورِ کائنات ﷺ کے سامنے حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ کی خوب حمد و ثنا بیان کرے ، آپ ﷺ پر درود شریف پڑھے ، آپ ﷺکے توسل سے دعا کرے اور شفاعت کی درخواست کرے ، ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سےدعا کرے :’’اے اللہ ،ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے، اے اللہ، ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکار دوعالمﷺ کی زیارت کی برکت سے ہمیں خوش بخت بنا اور آپ ﷺ کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔

اقراء سے مزید