• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ555 ہجری کے حج کے دنوں کا واقعہ ہے۔ہزاروں مسلمان حج کی ادائی کے بعد روضۂ رسول ﷺ کی زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ پہنچ چُکے تھے۔ ایک روز شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت کئی بزرگانِ دین مسجدِ نبویؐ میں موجود تھے، جب کہ دیگر زائرین کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا۔ اِس دوران ایک عجیب واقعہ رونما ہوا، جسے صوفیائے کرامؒ سے متعلق کتب میں کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے اپنی کتاب ’’فضائلِ حج‘‘ کے صفحہ 785 پر علّامہ سیوطیؒ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ’’ سیّد احمد رفاعی مشہور بزرگ اور اکابر صوفیا میں سے ہیں، جب حج سے فارغ ہوکر زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ حاضر ہوئے اور قبرِ اطہر کے مقابل کھڑے ہوئے ،تو یہ دو شعر پڑھے، ترجمہ’’ دُوری کی حالت میں اپنی رُوح کو خدمتِ اقدسؐ میں بھیجا کرتا تھا، وہ میری نائب بن کر آستانۂ عالیہ چُومتی، اب جسموں کی حاضری کی باری آئی ہے، اپنا دستِ مبارک عطا کیجیے تاکہ میرے ہونٹ اُسے چُومیں۔‘‘ اِس پر قبر شریف سے دستِ مبارک نکلا اور اُنھوں نے اُسے چوما۔ اُس وقت تقریباً نوّے ہزار کا مجمع مسجدِ نبویؐ میں تھا، جنھوں نے اِس واقعے کو دیکھا اور حضور ﷺ کے دستِ مبارک کی زیارت کی۔‘‘آج ہم اُنہی سیّد احمد کبیرؒ کے بابرکت ذکر سے اپنے قلب و نظر کو جِلا بخش رہے ہیں۔

ولادت، خاندان ، تعلیم و تربیت

حضرت سیّد احمد کبیر رفاعی شافعی رحمۃ اللہ علیہ جنوبی عراق کے اُم عبیدہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے۔مؤرخین نے اِس ضمن میں500 ہجری یا512 ہجری کا ذکر کیا ہے۔ آپؒ کا نام احمد بن علی ہے۔شافعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے، اِس لیے شافعی کہلائے، جب کہ خاندان کے ایک بزرگ کی نسبت سے رفاعی کے طور پر معروف ہوئے۔چوں کہ آپؒ کا نسب حضرت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، اِس لیے نسبی طور پر حسینی ہیں۔ والدہ معروف صوفی بزرگ، حضرت منصور بطائحیؒ کی ہم شیرہ تھیں۔

سات برس کی عُمر میں قرآن پاک حفظ کیا، مگر اُسی برس والد ایک سفر کے دَوران بغداد میں انتقال کر گئے اور وہیں سپردِ خاک ہوئے، جس پر شیخ منصورؒ نے بیوہ بہن کو اپنے پاس بطائح میں بُلا لیا، یوں آپؒ کی ماموں کی نگرانی میں نشوونما اور تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ معروف عالمِ دین اور روحانی شخصیت، شیخ علی ابوالفضل واسطیؒ کے حلقۂ درس سے وابستہ ہوگئے اور اُن سے تفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور فلسفے وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔20 برس کے ہوئے، تو اُستادِ محترم نے تعلیم کی تکمیل کی سند عطا کی اور ساتھ ہی روحانی خلافت سے بھی نوازا۔

تاہم، آپؒ نے حصولِ علم کا سلسلہ منقطع نہ کیا اور مزید کئی برس تک اُن کی مجالس میں شریک ہوتے رہے۔ اِس دَوران اپنے ماموں سے بھی فقہ کا درس لیتے رہے۔جب ماموں کا آخری وقت آیا، تو اُنھوں نے آپؒ کو کچھ وظائف کی تعلیم اور نصائح کے بعد اپنی خلافت سے سرفراز فرما کر اپنی مسند پر بِٹھا دیا۔

درس و تدریس، روحانی حلقے

حضرت احمد کبیرؒ نے واسط میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت عطا کی کہ شائقینِ علم دُور دُور سے آپؒ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ روزانہ صبح وشام حدیث، فقہ، تفسیر اورعقائد کا درس دیتے، جب کہ پیر اور جمعرات کو عام خطاب فرماتے، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے۔لوگ سوالات کرتے اور آپؒ قرآن و سُنّت کی روشنی میں اُن کے جوابات دیتے۔ کتب میں آپؒ کی ایک مجلس کا حوالہ ملتا ہے، جس میں دو سو سوالات پوچھے گئے اور آپؒ نے سب کا خندہ پیشانی سے نہایت عالمانہ جواب دیا۔دوسری طرف، راہِ سلوک کے مسافر بھی روحانی استفادے کے لیے اِس کثرت سے آپؒ کے پاس آنے لگے کہ ایک روایت کے مطابق، محض 35 برس کی عُمر میں آپؒ کے مریدین کی تعداد سات لاکھ ہوگئی۔

علّامہ ابنِ جوزیؒ کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے کہ’’ مَیں ایک مرتبہ ۱۵شعبان کواُم عبیدہ میں آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو اُس دن وہاں تقریباً ایک لاکھ افراد جمع تھے اور سب کے قیام و طعام کا انتظام آپؒ ہی کی جانب سے تھا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ انتقال کے وقت آپؒ کے خلفاء کی تعداد ایک لاکھ سے زاید تھی اور عراق کی شاید ہی کوئی ایسی بستی ہو، جہاں آپؒ کا کوئی مرید نہ ہو۔خلفاء اور مریدین باقی علاقوں میں بھی پھیل گئے، جس سے آپؒ کے رفاعی سلسلے کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی یہ وہاں کا ایک مقبول سلسلہ ہے۔

سُنّتِ نبویﷺ کی پابندی

آپؒ کی زندگی اور تعلیمات کا ایک نمایاں وصف نبی کریم ﷺ کی سُنتِ مبارکہ کی پیروی ہے۔فرمایا کرتے تھے،’’ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اِس سے زیادہ سہل اور قریب ترین کوئی راستہ نہیں کہ اُس کی خاطر عاجزی اِختیار کی جائے، خلقِ خدا کے ساتھ لُطف ونرمی سے پیش آیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنّت کی پیروی میں زندگی کا سفرطے کیا جائے۔‘‘ فرماتے ہیں ”شیخ وہ ہے ،جو تجھے قرآن و حدیث کے راستے پر لگائے، نئی باتوں اور بدعات سے الگ کرے۔“ اپنے سلسلے کی خُوبی بیان کرتے ہوئے فرمایا،’’ ہمارا طریقہ اِخلاص پر مبنی اور بالکل صاف و شفّاف ہے، جس کے عمل سے ریاونمود اور فسق و فجورکی بُوآنے لگے، اُس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔

میرا طریقہ یہ ہے کہ دین میں بدعت کی آمیزش نہ ہو۔ ہمّت، سُستی پر غالب ہو۔ عمل ،ریا سے پاک ہو، قلب ،دیگر مشغولیات سے آزاد ہو اور نفس، شہوت کے بکھیڑوں سے دُور ہو۔‘‘ایک موقعے پر فرمایا،’’ صحابہ کرامؓ سے محبّت رکھو۔ اُن کے تذکرے سے برکت حاصل کرو اوراُن جیسے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔اپنے دِلوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کی محبّت سے بھی روشن کرو کہ یہ نفوسِ قدسیہ سعادت کے آفتاب ہیں۔‘‘ علّامہ اقبال نے’’ رموزِ بے خودی‘‘ میں شیخ احمد کبیرؒ کی تعلیمات کے حوالے سے یوں اظہارِ خیال کیا ہے’’شیخ احمد سیّد گردوں جناب…کاسبِ نور از ضمیر آفتاب…بامریدے گفت اے جانِ پدر…از خیالاتِ عجم باید حذر…زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گُذشت…از حدِ دینِ نبی بیروں گُذشت…اے برادر ایں نصیحت گوش کُن…پند آں آقائے ملّت گوش کُن…قلب را زیں حرفِ حق گرداں قوی…با عرب در ساز تا مُسلم شوی۔‘‘ 

یعنی’’ شیخ احمد رفاعیؒ بلند پایہ سیّد ہیں، سورج بھی اُن کے ضمیر سے نور حاصل کرتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ایک مرید سے کہا ”اے بیٹا! تجھے عجم کے خیالات (غیر اسلامی افکار) سے دُور رہنا چاہیے۔ اگر چہ عجم کے خیالات آسمان سے بھی آگے چلے گئے ہیں، لیکن وہ نبی کریم ﷺ کے دین کی حدود میں نہیں رہے۔ اے بھائی! تُو اِس نصیحت پر دھیان دے اور ملّتِ اسلامیہ کے آقا ﷺ کی نصیحت کو ہرگز نہ بھول۔ تُو اپنے دل کو اِس سچّی بات سے مضبوط بنا اور صحیح مسلمان ہونے کے لیے عرب(نبی کریم ﷺ، صحابۂ کرامؓ) سے موافقت اختیار کر۔‘‘ آپؒ مریدین کو ہدایت کرتے کہ’’ شریعت کی پابندی لازم پکڑلو۔ ظاہری احکام میں بھی اور باطنی احکام میں بھی اور اپنے دل کو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی چیزوں سے بچاؤ۔ 

درویشوں اور غریبوں کی خدمت کو لازم جانو، نیک کاموں میں ہمیشہ جلدی کرو۔ سستی اور کاہلی سے بچو۔ خود کو رات میں عبادت کا عادی بناؤ۔ ریاکاری سے دُور بھاگو۔ خلوت اور جلوت ہرجگہ اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔ علما ء کی مجالس میں بیٹھا کرو۔ اُن سے علم حاصل کرو اور یہ مت کہو کہ فلاں عالم بے عمل ہے۔ تم اُن سے علم کی باتیں لے لو اور اُن پر عمل کرو اور اُن کو اوراُن کے عمل کو اللہ کے حوالے کردو۔جو اپنے اوپر غیر ضروری باتوں کو لازم کرتا ہے، وہ ضروری باتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے۔

جو اللہ پر توکّل کرتا ہے، اللہ اُس کے دل میں حکمت داخل فرماتا ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اُس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ دو چیزیں دین میں ترقّی دِلاتی ہیں۔ ایک تنہائی میں ذکر کرنا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شُکر ادا کرنا۔ اللہ کا خوف دوسروں کی طرف سے بے خوف کر دیتا ہے۔ صوفی وہ ہے، جس کے نفس کا آئینہ ایسا صاف ہو گیا ہو کہ اُسے دوسروں پر اپنی فضیلت نظر نہ آئے۔ کام کیے جاو،ٔ اِس لیے کہ ہر شخص کو اُسی چیز کی توفیق دی گئی ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔قرآن مجید تمام حکمتوں کا سمندر ہے، مگر ایسا کان کہاں جو سُنے۔‘‘

اللہ کی مخلوق کی خدمت

سیّد احمد کبیر رفاعیؒ کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں خدمتِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بَھرا ہوا تھا۔ کسی بیمار کا سُن لیتے، تو طویل فاصلہ طے کرکے بھی اُس کی عیادت کو جاتے۔ اندھوں کا ہاتھ پکڑ کر اُنھیں منزل تک پہنچاتے۔کسی ضعیف شخص کو دیکھتے، تو اُس کی مدد کرتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ’’ جس نے کسی بوڑھے مسلمان کی خدمت وتکریم کی،اللہ تعالیٰ اُس کے بڑھاپے میں کسی کو اُس کا سہارا بنا دے گا۔‘‘ جنگل سے لکڑیاں چُن کر بیواؤں اور دیگر ضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچاتے، اُن کے گھروں میں پانی بھی بَھر دیتے۔سلام میں پہل کرتے،یہاں تک کہ جانوروں کو بھی دیکھتے تو فرماتے،’’ تمہاری صبح اچھی ہو۔‘‘

کسی نے اِس عمل سے متعلق سوال کیا، تو فرمایا،’’ مَیں اپنے نفس کو اچھے کاموں کا عادی بناتا ہوں۔‘‘ ایک بار ایک خارش زدہ کتّا دیکھا، جسے لوگوں نے گاؤں سے باہر نکال دیا تھا۔آپؒ کئی دنوں تک جنگل میں جاکر اُسے تیل لگاتے رہے اور اُس کے کھانے پینے کا انتظام کیا،یہاں تک کہ وہ صحت مند ہوگیا۔اپنے جوتے خود مرمّت کرلیتے، عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ علماء اور فقہاء کی بے حد تعظیم کرتے۔ قناعت کا یہ حال تھا کہ اُن کے پاس کبھی کپڑے کے دو جوڑے جمع نہیں ہوئے، حالاں کہ مال و دولت کی کمی نہیں تھی، مگر جو آتا، عوام پر لُٹا دیتے، اپنے لیے کچھ جمع نہ کرتے۔چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ پھیلی رہتی۔ بہت خوش مزاج تھے۔لوگوں کی باتوں پر صبر کرتے، اُن کے ساتھ تواضع سے پیش آتے ، لڑائی جھگڑوں کو سخت ناپسند کرتے۔

تصنیف و تالیف

تذکرہ نگاروں نے آپؒ کی کتب کی تعداد چھے سو کے قریب بتائی ہے، جن میں سے بیش تر تاتاریوں کے حملوں کی نذر ہوگئیں۔ البتہ، بعض کتب شایع بھی ہو چُکی ہیں اور اُن کے اردو تراجم بھی دست یاب ہیں، جن میں’’حکم رفاعیہ‘‘ خاصی مشہور ہے۔واضح رہے، آپؒ سے منسوب کتب آپؒ کی باقاعدہ تصانیف نہیں ہیں، بلکہ آپؒ کے خطابات اور مریدین کو کی گئی نصائح پر مشتمل ہیں۔

وفات، تدفین، پس ماندگان

زندگی کے آخری ایّام میں ایک ماہ تک پیٹ کے ایک مرض میں مبتلا رہ کر 66سال کی عُمر میں 12جمادی الاولیٰ 578 ہجری میں انتقال کرگئے۔ آبائی گاؤں، اُم عبیدہ میں سپردِ خاک کیے گئے، جہاں آپؒ کا مزار مُرجّعِ خلائق ہے۔دہشت گرد تنظیم داعش نے2014 ء میں مزار کی بے حرمتی کی تھی۔مِصر میں بھی آپؒ سے منسوب ایک مزار ہے، لیکن وہ محض منسوب ہی ہے۔مختلف کتب میں آپؒ کی دو شادیوں کا ذکر ملتا ہے کہ پہلی بیوی کے انتقال پر سالی سے دوسرا عقد کیا تھا، تاہم، اولاد کی تعداد پر اختلاف ہے۔ کسی نے بارہ بیٹوں، دو بیٹیوں اور کسی نے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کا ذکر کیا ہے۔بعض کا خیال ہے کہ آپؒ کے چار بیٹوں سے نسل پھیلی، مگر جن کے مطابق آپؒ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا، اُن کا کہنا ہے کہ وہ بیٹا سترہ برس کی عُمر میں انتقال کرگیا تھا، اِس لیے آپؒ کی نسل بیٹیوں کے ذریعے آگے بڑھی۔

راتبِ رفاعیہ

رفاعی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا ایک خاص طریقہ مقرّر ہے، جس کے تحت مریدین دائرے یا صف کی صُورت دَف کے ساتھ ذکر کرتے اور قصائد پڑھتے ہیں۔اِسی دوران بعض افراد اپنے جسم پر چُھریوں یا آہنی سلاخوں سے ضرب لگاتے ہیں، دہکتے انگاروں پر برہنہ پا چلتے ہیں۔ جسم کے مختلف حصّوں، جیسے زبان یا گالوں وغیرہ میں گرم سلاخیں داخل کرتے ہیں۔ اسے’’ راتبِ رفاعیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں اِس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ اِس حوالے سے مختلف آرا ملتی ہیں۔ 

ایک رائے یہ ہے کہ ذکر کے حلقوں میں شامل کوئی شخص جذب و مستی کے عالم میں ایسی حرکتیں کر گزرتا تھا، جس سے اُسے نقصان بھی نہیں ہوتا تھا، بعدازاں یہ ایک رسم بن گئی۔ ایک خیال یہ ہے کہ رفاعی سلسلے کے متعلقین نے تاتاریوں کے حملوں کے خلاف بطور احتجاج یہ طریقہ شروع کیا تھا، جب کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرت سیّد احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں دف کے ساتھ تو ذکر ہوتا تھا، مگر اب’’ راتبِ رفاعیہ‘‘ کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے، اُس سے اُن کا کوئی تعلق نہیں اور اِس رسم کو بعد میں فروغ دیا گیا۔ بہرحال، بات خواہ کچھ بھی ہو، یہ معاملہ اہلِ علم میں نزاع کا باعث ہے اور اِس پر بہت سے فتاویٰ بھی جاری ہوچُکے ہیں، جو حمایت اور مخالفت میں دیے گئے دلائل پر مشتمل ہیں۔