وطن عزیز کی سیاست کے ماحول میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ڈالر کی پرواز اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کی صورتحال کے علاوہ آئی ایم ایف سے معاہدے اور پھر اس کی خلاف ورزی کے اثرات نے نئی حکومت کے کارپردازان کے احساس کی دھڑکنوں کو پل صراط کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کی غلطیوں اور ناسازگار بین الاقوامی حالات نے قومی معیشت کی کشتی کو ایسے خطرناک بھنور میں پھنسا دیا ہے کہ لامتناعی خدشات کے اندیشے ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں۔
گو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ مسلم لیگ (ن)کے صدر میاں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت نے سنبھال لی ہے لیکن یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس کے ذمہ داروں کو اندازہ نہیں تھا کہ ماضی کے حکمرانوں کی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے ملک کو جس معاشی بحران یں مبتلا کر دیا ہے اس سے نمٹنا کس قدر دشوار گزار ہو گا۔حکومت کی تبدیلی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے شدید ردعمل نے سیاسی محاذ آرائی میں کشیدگی کی صورتحال برپا کر دی ہے۔
ان کے قانونی مشیروں نے نئی حکومت کے لئے قدم قدم پر اپنی مرضی کی آئینی تشریحات کے ذریعے نہ صرف رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز کر دیا بلکہ ایوان صدر کو اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنا کر امور مملکت کے اہم معاملات کو بھی دشواریوں کے مراحل میں مبتلا کر دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھجوائی جانے والی آئینی اور کلیدی عہدوں کی سمریوں کو بھی طرح طرح کے اعتراضات اور تحفظات سے روک کر تاخیری حربوں کو استعمال کیا اور’’کپتان‘‘ کی آشیرباد سے ہر معاملہ میں ’’آئینی بحران‘‘ پیدا کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو گی کہ وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر صدر علوی نے بیماری کا عذرپیش کر دیا اور چیئرمین سینٹ کو یہ حلف لینا پڑا۔
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کپتان اور اس کی کابینہ کے بیشتر وزراء جان بوجھ کر سیاسی محاذ آرائی کی فضاء کو بڑھانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ جمہوری اور آئینی طریقہ سے تبدیل ہونے و الی اپنی حکومت کو امریکہ کی سازش قرار دینے کے علاوہ نفرت کی سیاست کو فروغ دیتے ہوئے قومی سلامتی کے اداروں کو دانستہ طور پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک بھر میں جلسوں کے دوران حکومت سے محرومی کے بعد اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ اپنے ’’قتل کی سازش‘‘ کا انکشاف کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک ویڈیو ریکارڈ کرکے محفوظ مقام پر رکھ دی ہے اور اس ویڈیو میں ان تمام کرداروں کو بے نقاب کر دیا ہے جنہوں نے نہ صرف انہیں اقتدار سے نکالا ہے بلکہ ان کی زندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور پارٹی کی روح رواں مریم نواز شریف نے بھی کوٹلہ ارب علی خاں گجرات کے بڑے جلسہ عام میں ’’کپتان‘‘ کی اس شاطرانہ سیاست کو آڑے ہاتھوں لیا اور واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ عمران خان اپنے قتل کی سازش کا ڈرامہ اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کو وزارت عظمیٰ والا پروٹوکول اور فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے۔ انہوں نے پارٹی قائد میاں نواز شریف کے بلندحوصلہ ظرف کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ آپ کو وزیراعظم شہباز شریف جیسی سیکورٹی دینے کا بندوبست کروا دیں گے حالانکہ آپ اپنے دور حکومت میں شریف فیملی کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ روا رکھتے رہے ہیں وہ جھوٹے مقدمات اور قیدوبند کی صعوبتوں کی صورت میں سب کو یاد ہیں۔ مریم نواز اس وقت بہت پراعتماد ہیں جلوسوں میں لوگوں کی بھرپور شرکت اور عوامی حمایت کو دیکھتے ہوئے وہ آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے بہت پرامید ہیں ۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف نے ’’کپتان‘‘ اور اس کے ہمنوائوں کی ہٹ دھرمی اور عصبیت کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی غیر آئینی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی وجہ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب وزیراعلیٰ کے بغیر چلتا رہا اور ابھی تک ’’کپتان‘‘ کے تعصب کی بھینٹ صوبے کے کئی اہم معاملات رکے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی سیاسی حلقوں میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے قانونی مشیروں نے ابھی تک گورنر پنجاب کی نامزدگی کے معاملہ کو ’’آئینی موشگافیوں‘‘ کے تذبذب میں مبتلا کر رکھا ہے تحریک انصاف اور ان کے اتحادی اس امید میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس بار بار ملتوی کر رہے ہیں کہ اس عرصے کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے بارے میں الیکشن کمیشن سے ان کی نااہلی کا فیصلہ آنے کا امکان ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی قوت ایوان صدر کے ذریعے تاخیری حربوں کو اپنی سیاست کا محور بنائے ہوئے ہے اور آئینی مہلت اور گنجائش کا سہارا لیکر روڑے اٹکانے کے درپے دکھائی دے رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے وزراء نے لندن میں ہونے والے پارٹی اجلاسوں میں تمام حالات پارٹی قائدمیاں نواز شریف کے سامنے رکھے ہیں اور حکومتی معاملات میں درپیش مشکلات کو دور کرنے کے سلسلہ میں ان سے ’’گائیڈلائن‘‘ کی روشنی میں پی ڈی ایم کی قیادت کی مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے پارٹی قائد میاں نواز شریف کے روبرو ایک بار پھر سرتسلیم خم کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ آپ کی خوشنودی کے بغیر ایک لمحہ کے لئے بھی قبول نہ ہے یہ بات ایک بار پھر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا محور صرف میاں نواز شریف ہیں اور شریف خاندان کے سیاسی مخالفین کو ایک دفعہ پھر یہ سیاسی جھٹکا لگا ہے کہ شریف برادران کے درمیان کسی بھی مرحلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔