• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم گر ما کی بڑھتی ہوئی حدت کے ساتھ ساتھ سیا سی در جہ حرارت بھی بڑھ ر ہا ہے بلکہ ملک سیا سی محاذ آرائی اورتصادم کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔عمران خان جب سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہوئے ہیں تب سے مسلسل عوامی رابطہ مہم ہر ہیں۔ وہ شہر شہر عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر الیکشن کرائے جا ئیں۔ عمران خان کی تقاریر میں تلخی بھی ہے اور دھمکی بھی۔ وہ مسلسل دبائو بڑھارہے ہیں اور تقاریر میں ان کا ہدف شریف برادران ‘ آصف زرداری اور مو لانا فضل الرحمنٰ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ بھی ہے۔انہوں نے حکومت کو ڈیڈ لائن دی ہوئی ہے کہ 20مئی تک نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جا ئے ورنہ وہ اسلام آ باد مارچ کی کال دیں گے۔

25لاکھ لوگ اسلام آباد لائیں گے اور اس وقت تک نہیں جا ئیں گے جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ حکومت کا مسلہ یہ ہے کہ یہ ایک مخلوط حکومت ہے۔ وسیع البنیاد اتحاد ہے اسلئے فیصلے کا اختیار کسی ایک جماعت کے پاس نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن میں دو رائے پائی جا تی ہیں۔ نواز شریف او ر مریم نواز فوری الیکشن کے حق میں ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ پیپلزپارٹی کا واضح پالیسی ہے کہ پہلے اصلاحات پھر انتخابات۔

پیپلز پارٹی حکمران اتحاد میں ڈر ائیونگ سیٹ پر نظر آتی ہے۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کا میاب بنا نے میں چونکہ کلیدی کردار آصف علی زرداری کا تھا اسلئے وہ مستقبل کے سیا سی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جونہی نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سمیت سینئر لیگی قیادت کو لندن بلا یا تو آصف زرداری نے فوراً نواز شریف سے رابطہ کرکے انہیں قائل کیا کہ فوری الیکشن کا مطالبہ تسلیم نہ کیا جا ئے بلکہ پہلے نیب ایکٹ اور انتخابی قوانین میں اصلاحات کو یقینی بنایا جا ئے۔ چیئر مین نیب اور الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کی جا ئے۔

سواسال میں اچھی کا کردگی دکھا کر عوام کے پاس ووٹ کیلئے جائیں۔ مسلم لیگ ن مشکل صورتحال میں پھنس گئی ہے کہ وزیر اعظم شہبا ز شریف ہیں اور حکومت کی کا میابی یا ناکامی کا کریڈٹ ان کو جا ئے گا۔ با دی النظر میں جو ملکی حالات ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ معیشت دبائو کا شکار ہے۔ زر مبادلہ کے ذ خائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔ ڈالر کی اڑان پریشان کن ہے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی ڈالر کی قیمت چند روپے نیچے آئی تھی مگر یہ عارضی فیز تھا۔ اس کے بعد ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں یکم مئی کے بعد کمی آئی تھی لیکن اب دو بارہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ 

مہنگائی کا جن بھی قابو میں نہیں آرہا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی اور بڑھ جا ئے گی ۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونے جا ر ہے ہیں ۔آئی ایم یف کی شرائط پوری کرنے کیلئے سب سڈیز کو کم یا ختم کرنا پڑے گا۔ یہ مشکل فیصلہ حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔ اس میں تو کئی دوسری رائے ہی نہیں ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال نہایت خراب ہے اور حکومت عوام کو زیادہ ریلیف دینے کی پو زیشن میں نہیں ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی سیا سی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ 

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جب اپو زیشن میں تھے تو ان کا سب سے بڑا سلوگن ہی مہنگائی تھا۔ اب یہ سلوگن پی ٹی آئی کے پاس آ جا ئے گا۔ عمران خان ابھی تک امریکی سازش کے بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں لیکن اگر مہنگائی ہوئی تو انہیں ایک نیا ایشو مل جائے گا۔ پا کستانی عوام کی قوت خرید بھی جواب دے کی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی معیشت کا یہ حال موجودہ حکومت نے ایک ماہ میں نہیں کیا۔ یہ عمران خان کی حکومت انہیں ورثہ میں دے گئی ہے لیکن بہر حال یہ فیصلہ حکمران اتحاد کا اپنا ہے کہ انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک لا کر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا اور خود حکومت سنبھالی۔

 انہیں حکومت سنبھالنے سے پہلے ملک کی معاشی صورتحال کا بخوبی علم تھا۔ انہوں نے عمران خان کی نا کامیوں کا بوجھ اپنی مرضی سے حکومت کے شوق میں اپنے کندھوں پر ڈالا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکمران اتحاد کو بیک وقت دو چیلنجز ہیں۔ ایک مشکل معاشی صورتحال سے نمٹنا دوسرے عمران خان سے نمٹنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدم اعتماد ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے۔ آئین میں پانچ سال کی مدت اسمبلی کی ہے حکومت کی نہیں۔ اگر حکومت نے پانچ سال ہی رہنا ہے تو عدم اعتماد کی شق آئین سے نکال دیں۔ 

عمران خان نے ابتدا میں تحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم کیا تھا۔ شیخ رشید احمد کہتے تھے کہ ان کا بڑا بھی 172ووٹ پورے نہیں کرسکتا۔ فواد چہودری اپو زیشن کو للکارتے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیں لاتے ۔ جب اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا تو انہیں شاک لگا اور پھر انہوں نے عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیدیا۔ اب وہ حکومت جانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر بھی لگا رہے ہیں کہ ۔یوں لگتا ہے کہ عمران خان دانستہ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھا رہے ہیں ۔ عمران خان نے بڑا محاذ کھول لیا ہے۔ 

وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور چیف الیکشن کمشنر کو بھی ٹارگٹ کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر امریکہ کو۔ شاید امریکہ پر تنقید کا مقصد بھی امریکی حکومت کو دبائو میں لانا ہے کہ ان کی اقتدار میں واپسی کیلئے راہ ہموار کی جا ئے۔عمران خان کی چیف الیکشن کمشنر پر تنقید اسلئے بلا جواز ہے کہ یہ ان کا اپنا انتخاب ہیں جس کی سفارش ان کے قابل اعتماد وزیر شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ راجہ سکندر سلطان کی بطور بیوروکریٹ بہت اچھی شہرت رہی ہے۔ دراصل عمران خان چیئر مین الیکشن کمشنر پر الزام تراشی بھی انہیں فارن فنڈنگ کیس کے فیصلہ سے قبل دباؤ میں لانے کیلئے کر رہے ہیں۔

عمران خان کی سیا ست تضاد کا شکار ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن تحر یری طور پر سپریم کورٹ کو آ گاہ کرچکا ہے کہ نئے انتخابات سات ماہ سے پہلے ممکن نہیں ہیں ۔عمران خان جانتے ہیں کہ فوری الیکشن ممکن نہیں ہیں اس کے باوجود احتجاجی سیا ست وہ صرف ا سلئے کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت سے لوگ بھاگ نہ جائیں ۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مزید ارکان بھی پی ٹی آئی کو چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ عمران خان اگر فوری الیکشن کرانے میں سیر یس ہیں تو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرادیں ۔ پنجاب َ سندھ َ بلوچستان اسمبلی سے اپنے ممبران کے استعفے دلوادیں۔

یہ اتنا بڑا بحران ہوگا کہ جس کے سامنے نئی حکومت نہیں ٹہر سکے گی لیکن عمران خان یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ وہ جلسہ جلسہ کھیلیں گے اور وقت گزاریں گے۔ یہ حکومت شہباز شریف کیلئے پھولوں کی سیج کی بجائے کانٹوں کا بستر معلوم ہوتی ہے۔ شہباز شریف بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں ۔ دن رات محنت کرتے ہیں ۔ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں لیکن زمینی حقائق اپنی جگہ پر ہیں کہ ملکی معیشت دبائو میں  ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے۔ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شہری بلبلا رہے ہیں۔ سرکلر ڈیٹ منہ چڑا رہا ہے۔ اوپر سے عمران خان بوتل سے نکلے ہوئے بے قابو جن کی طرح حکومتی اعصاب پر سوار ہے۔

ایک تجویز یہ ہے کہ عمران خان کو نظر بند کردیا جا ئے یا گرفتار کرلیا جا ئے ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی جانب سے جو ردعمل آئے گا کیا حکومت اس سے نمٹ پائے گی۔ یہ تو طے ہے کہ اگر عمران خان کو سیا سی طور پر کائونٹر نہ کیا گیا تو وہ ملک میں افرا تفری اور عدم استحکام کی فضا پیدا کردیں گے جو معیشت کیلئے تباہ کن ہوگی۔ حکومت کو سیا سی َ معاشی ‘ پا رلیمانی اور انتظامی محاذ پرفوری اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے جن کے نتائج یہ طے کریں گے کہ نہ صرف عمران خان خود حکمران اتحاد کا سیا سی مستقبل کیا ہو گا۔ عمران خان اس وقت مایوسی کا شکار ہیں۔ 

اقتدار سے محرومی کے بعد وہ جس ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں اس میں وہ کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھا سکتے ہیں ۔ سابق اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے جو مثال قائم کی وہ بہت افسوسناک ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اسپیکر چوہدری پرویزالٰہی اور سیکرٹری کا رویہ غیر جمہوری رہا۔ صدر مملکت اور سابق گورنر پنجاب نے آئین کی بجا ئے پارٹی مفاد کو ترجیح دے کر قابل تقلید مثال قائم نہیں کی۔ سیا سی قیادت نے اب تک جس کردار کا مظاہرہ کیا ہے وہ سیا سی بلوغت اور بصیرت کا مظہر ہر گز نہیں ہے۔ حالات اگر تصادم کی جانب بڑھے تو پھر جمہوری نظام کی بساط لپٹ بھی سکتی ہے۔ پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید