عربش فاطمہ
چند سال قبل ہمارے ایک دوست کی شادی ہوئی۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسرے علاقے میں شفٹ ہوگیا، مگر اس کا سسرال اسی علاقے میں تھا۔ وہ اکثر سسرال آتا رہتا تھا یوں ہم سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ ایک دن وہ سسرال سے کھانا کھانے کے بعد ہم دوستوں سے ملنے آیا تو کہنے لگا، آج سسرال میں دال چاول کھائے لیکن مزہ نہیں آیا۔ میں نے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ بھائی جب تم ہر دوسرے دن بھابھی کو لے کر کھانا کھانے سسرال آئو گے تو دال چاول ہی ملیں گے۔
اس نے سگریٹ کا لمبا کش لیتے ہوئے کہا دوست تمہیں ایک بات بتائوں میری ایک ہی بہن ہے۔ وہ بابا کی بہت لاڈلی تھی کہ بابا اس کو سا تھ بٹھائے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس کے سسرال والے بہت سخت تھے۔ مہینے دو مہینے میں بعد اس کو میکے آنے کی اجازت دیتے تھے۔میں نے جیسے بابا کو اس سے ملنے کے لیے تڑپتے اور روتے ہوئے دیکھا ہے ، وہ بیان نہیں کرسکتا۔ بابا جب بہت زیادہ بیمار تھے تو ہم بھائیوں سے کہتے کہ جائو چند گھنٹوں کے لیے ہی اپنی بہن کو لے آئو۔ ہم جاتے ،گھنٹوں بیٹھنے کے بعد کبھی اس کا شوہر اجازت دے دیتا اور کبھی نہیں دیتا اور جب ہم اکیلے واپس آتے تو بابا ہچکیاں لے لے کر روتے۔
میرے دوست میری بیوی مجھ سے کبھی نہیں کہتی ،میں ہر روز اس سے کہتا ہوں چلو! تمہیں تمہاری امی سے ملوالائوں ،کیوں کہ میں نہیں چاہتا جس طرح میرا باپ بیٹی کا انتظار کرتا تھا، اُس سے ملنے کے لیے تڑپتا تھا ،میرے سسر بھی تڑپیں۔ تو یاد رکھیں آپ کسی کے جگر کا ٹکڑالائے ہیں۔ آپ کی ’’حاکمیت ‘‘ کی بنیاد بیوی کو اس کے میکے سے کانٹے پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔
کوشش کیجئے آپ کی بیوی کو خود نا کہنا پڑے ،آپ اس سے خود پو چھیں کہ اپنے ماں ،باپ کو مس کررہی ہو تو چلو، تمہیں گھر والوں سے ملوا لاؤں یا ایک دو دن کے لیے رہنے بھیج دیں۔ شادی میں باہمی محبت کا یہ پہلا زینہ ہے اور پھر یاد رکھیں کہ کل آپ کی بیٹی نے بھی تو سسرال جانا ہے اور یہ تڑپ بہت ظالم ہوتی ہے۔