• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ملتان جلسہ: تحریک انصاف میں گروپ بندی کی دراڑیں

ملتان میں تحریک انصاف کا جلسہ قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہوا اور اسے عوامی شرکت کے لحاظ سے ملتان کے بڑے جلسوں میں شمار کیا جاسکتا ہے، تاہم اس جلسہ کے منتظمین نے آخر وقت تک ملتان میں تحریک انصاف کے اندر موجود گروپ بندی کو برقرار رکھا اور سٹیج پر نمائندگی دینے کے لئے بھی صرف شاہ محمود قریشی گروپ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کو اہمیت دی گئی۔ 

حالت یہ تھی کہ جنوبی پنجاب کے سینئر ترین سیاسی رہنما جو کئی بار وفاقی وزیر و اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہے، سید فخرامام کو سٹیج کی پچھلی قطار میں بڑی مشکل سے جگہ ملی ،جبکہ پہلی قطار میں ان سے بہت جونیئر ارکان اسمبلی اور پارٹی کے سیاسی منتظمین موجود تھے ،خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے بھی امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور غیر نمائندہ خواتین کو سٹیج پر آنے کے پاسز جاری کئے گئے، جس پر پی ٹی آئی خواتین ونگ کی نائب صدر قربان فاطمہ نے شدید احتجاج بھی کیا ،ان کا کہنا تھا کہ سٹیج پر خواتین کو سینیٹر عون عباس بپی کی اجازت سے بلایا جاتا رہا ،جس پر خواتین عہدے داروں نے اعتراضات بھی کئے، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا ونگ بھی عون عباس بپی کو سنبھال لینا چاہیے۔ 

ملتان کا جلسہ کئی حوالوں سے اپنی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گیا ہے ، اسی جلسہ میں عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران مریم نواز کے بارے میں نازیبا جملے کہے، جس پر پورے ملک میں شدید ردعمل آیا اور ان کی باتوں کو معیار سے گرا ہوا قراردیا گیا اس جلسہ میں عمران خان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان بھی کیا تھا ،مگروہ ایسا نہ کرسکے اور انہوں نے تاریخی جلسہ کو اس حوالے سے تشنگی کا شکار چھوڑ کر پشاور کی راہ لی، اگر وہ دو روز کے بعد اپنے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے کی بجائے ملتان کے جلسہ میں اس کا اعلان کردیتے ،تو عوام میں زیادہ جوش وخروش پید ا ہوسکتاتھا ،ملتان کے جلسہ میں تحریک انصاف کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی نے کچھ ایسی باتیں کیں ،جن پر سیاسی قوم پرست تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ 

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ بنا کر ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے ،مگر وہ یہ بھول گئے کہ چارسال پہلے جب وہ انتخابات میں جانے کی تیاری کررہے تھے ،تو تحریک انصاف نے حکومت بنانے کی صورت میں 100دن کے اندر صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ،مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا اور چارسال بعد ملتان کے جلسہ میں شاہ محمود قریشی وہی پرانا وعدہ لے کر عوام کو نئے خواب دکھانے لگے ہیں، سرائیکی تنظیموں کے عہدے دارون کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبہ کو چورن اب مزید نہ بیچے ، دوتہائی اکثریت ملنے کی شرط لگا کر وہ علیحدہ صوبہ کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے ، حالانکہ حکومت میں ہونے کے دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے یقین دلایا تھا کہ وہ علیحدہ صوبہ کا بل ایوان میں لائے ،تو وہ اس کی حمایت کریں گے ،پاکستان میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں کسی ایک جماعت کو دوتہائی اکثریت ملنا ایک ناقابل عمل بات نظر آتی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں سابق وزیر اعظم اور پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چئیرمین یوسف رضا گیلانی پر بھی تنقید کی اور انہیں جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنانے کا ذمہ دار قراردیا ،سیاسی حلقوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ سید یوسف رضا کو اقتدار سے نکلے دس سال ہونے کو آئے ہیں، ان پر وہ ذمہ داری ڈالنے کی بجائے شاہ محمود قریشی کو عمران خان پر صوبہ نہ بنانے کی ذمہ داری ڈالنی چاہئے تھی کیونکہ حالیہ چار برسوں میں وہ ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ 

ملتان کے جلسہ میں اگرچہ یہاں کے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدے داروں کو تقریریں کرنے کا موقع دیا گیا ،مگر ان سب نے ملتان کے مسائل پر ایک جملہ تک نہیں کہا اور سب اس بیانیہ کو لے کر تقریر کے نشتر جھاڑتے رہے، جو عمران خان نے امریکی سازش کے حوالے سے دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ملتان سے ایک بے مثال فتح سے ہمکنار کیا تھا، جس کا ذکر شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں بھی کیا ،مگر اس کے بعد ملتان کے ساتھ کیا ہوا، اسے تحریک انصاف نے بری طرح نظرانداز کردیا ، جلسے کے دور وز بعد شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ علیحدہ صوبہ نہ بننے کی ذمہ داری عثمان بزدار اور ان کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید پر عائد ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے یہ بات اس وقت کیوں نہیں کی ،جب وہ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ تھے ،اس وقت انہوںنے وزیراعظم کے ذریعے عثمان بزدار کو ملتان میں مداخلت سے منع کردیا تھا اور اس کے تمام معاملات وہ ایک منی وزیراعلیٰ کے طور پر چلارہے تھے ،یہاں نہ کسی افسر کی پوسٹنگ ہوسکتی تھی اور نہ سرکاری اداروں میں پارٹی کے عہدے داروں کی تقرریاں شاہ محمود قریشی کی مرضی کے بغیر ہوسکتی تھیں ،صرف ان کے گروپ سے تعلق رکھنے والوں کو اداروں میں کھپایا گیا ، دیگر کو نظرانداز کیا جاتا رہا ، شاہ محمود قریشی اس بات کا بھی جواب نہیں دے سکے کہ ملتان سے پارٹی کے اراکین منحرف کیو ں ہوئے ، حالانکہ اس کا کھرا بھی ان کی طرف جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے پارٹی کے اندر گروپ بندی کے ذریعے پی ٹی آئی اراکین کو مفلوج کئے رکھا۔

ان کے چھوٹے چھوٹے کام بھی نہیں ہوتے تھے، ان کے حلقوں میں سرکاری فنڈز نہیں دیئے جاتے تھے اور نہ ہی ان کی حکومتی حلقوں میں شنوائی ہوتی تھی، یہ بات تو اس پردے میں چھپ گئی ہے جو غیرملکی سازش کے بیانیہ پر مبنی ہے، بہرحال تحریک انصاف کی صفوں میں ابھی تک یک جہتی موجود نہیں ہے اورگروپ بندی کی دراڑیں واضح طورپر دیکھی جاسکتی ہیں ،جو ملتان کے جلسے میں بھی دیکھنے میں آئیں اورجن کی وجہ سے کئی سیاسی کارکن اور رہنما پارٹی کی مقامی قیادت کے خلاف شکوہ کرتے نظر آئے ،خاص طور پر دیرینہ کارکنوں اور خواتین عہدے داروں کے اندر ایک اضطراب موجود ہے ،خواتین عہدے دار خواتین ونگ میں عون عباس بپی سمیت مردوں کی مداخلت کو خواتین کے حقوق کے خلا ف سمجھتی ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید