• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مختصر وقت میں ایک اور عدم اعتماد کی تیاریاں

وفاق میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد گزشتہ ہفتہ بلوچستان میں بھی وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی گئی ، جس کے بعد صوبے کا سیاسی درجہ حرارت اچانک بڑھ گیا ہے ، موجودہ بلوچستان اسمبلی میں صرف چھ ماہ کی مختصر مدت میں یہ عدم اعتماد کی دوسری تحریک ہے جو پیش کی گئی ہے اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف 20 اکتوبر 2021 کو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس پر 25 اکتوبر 2021 رائے شماری ہونی تھی لیکن رائے شماری سے ایک روز قبل 24 اکتوبر 2021 کو وزیراعلی جام کمال نے استعفٰی دے دیا تھا۔ 

اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ خان زہری کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی تاہم انہوں نے بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل وزرات اعلیٰ سے استعفیٰ دیدیا تھا جبکہ ماضی میں سردار اختر مینگل بھی اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل مستعفی ہوئے تھے ، اس بار وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف 18 مئی کو 14 ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے 7 ارکان سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان ، میر ظہور بلیدی ، نوابزادہ طارق مگسی ، میر عارف جان محمد حسنی ، میر سلیم کھوسہ ، مٹھا خان کاکڑ، سردار سرفراز ڈومکی سمیت پاکستان تحریک انصاف کے 4 ارکان سردار یار محمد رند ، میر نعمت اللہ زہری ، مبین خلجی ، بی بی فریدہ رند ، عوامی نیشنل پارٹی کے تین ارکان اصغر خان اچکزئی ، ملک نعیم بازئی اور شاہینہ کاکڑ شامل ہیں۔ 

یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والوں میں 2 صوبائی وزرا ء بی اے پی کے سینئر صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی ، پی ٹی آئی کے مبین خلجی ، ایک مشیر پی ٹی آئی کے میر نعمت اللہ زہری اور دو پارلیمانی سیکرٹری ائے این پی کے ملک نعیم بازئی اورشاہینہ کاکڑ شامل ہیں ، یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف بھی14 ارکان بلوچستان اسمبلی کے دستخطوں سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی تھی جس میں ارکان کی اکثریت کا تعلق ان کی اپنی جماعت بی ائے پی سے تھا جبکہ اس بار میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف جمع کرائی جانے والی تحریک اعتماد پر 14 میں سے نصف یعنی 7 ارکان کا تعلق بھی حکمران جماعت بی ائے پی سے ہے ، وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے قبل سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور سنیئر سیاستدان سردار یار محمد رند کافی متحرک رہے اور عدم اعتماد کی تحریک لانے میں بھی دونوں پارلیمنٹیرینز کا کردار نمایاں ہے۔ 

یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ پہلے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدلقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کی اپنی ہی جماعت کے ارکان بھی شامل ہیں ، تحریک عدم اعتماد جمع کیے جانے کے بعد پہلے 21 مئی کو جام کمال خان نے پارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے دن ایوان میں موجود رہنے اور تحریک کے حق میں ووٹ دینے کے نوٹسز بھجوائے ، ان کی جانب سے پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کو بھجوائے گئے نوٹسز میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیا ہے۔ 

لہذا پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے دن ایوان میں موجود رہیں اور پارٹی کے فیصلے کے مطابق اپنا ووٹ تحریک کی حمایت میں دیں ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کاروائی ہوگی جس کے فوری بعد یعنی اگلے ہی روز 22 مئی کو وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے بطور وزیراعلیٰ و پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بی ائے پی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں صوبائی اسمبلی میں بی اے پی کے کل 24 میں سے وزیراعلیٰ سمیت 17 ارکان نے شرکت کی صوبائی وزیر سردار عبدالرحمٰن کھیتران ، سردار مسعود لونی ، بشری رند اور ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے شہر سے باہر ہونے کے باعث بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔

اس کے اگلے ہی روز بلوچستان عوامی پارٹی کے پار لیمانی لیڈر وزیر اعلیٰ میر عبد القدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے پارٹی کے سات ارکان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ، نوابزادہ طارق مگسی ، میر ظہور احمد بلیدی ، سر دار سر فراز ڈومکی ، میر سلیم کھوسہ ، میر عارف جان محمد حسنی اور مٹھا خان کاکڑ کو نوٹسز جاری کردیئےنوٹس میں پاٹی کے پارلیمانی ارکان کو ہدیات کی گئی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع نوٹس فوری طور پر واپس لیں بصورت دیگر آپ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 ائے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی، اس تمام تر صورتحال میں جہاں حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے وہاں اپوزیشن کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ 

اس وقت65 ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علما اسلام کے11 ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے10 ، پشتونخوامیپ کا ایک رکن ہے جبکہ ایک آزاد امیدوار نواب محمد اسلم رئیسانی کی حمایت بھی اپوزیشن کو حاصل ہے جبکہ جمعیت علما اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ پی ڈیم ایم میں اتحادی ہیں ، جمعیت علما اسلام کی قیادت سے پہلے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان و سنیئر سیاستدان سردار یار محمد رند نے ملاقاتیں کیں بعد ازاں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ایک سے زائد ملاقاتیں کیں اس ہی دوران جمعیت علماء اسلام کی مجلس عاملہ اور پارلیمانی پارٹی کا دو روزہ اجلاس ہوا۔ 

جس پر متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ جمعیت کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے رابطہ کرکے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر انکی رائے لینے کے ساتھ اتحادی جماعتوں سے مشاورت کریں گے وہ جمعیت کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن سے بھی مشاورت کریں گے جبکہ تحریک عدم اعتماد پر پارٹی کی جانب سے حتمی فیصلے کا اختیار مولانا عبدالواسع کو دئےدیا گیا ہے ، سنجیدہ سیاسی حلقے آئندہ چند روز کو بلوچستان کی سیاست میں اہم قرار دئے رہے ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کے اتحادی ایک ایسے موقع پر جب آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیے جانے کا اہم مرحلہ بھی انہیں درپیش ہے ایسے میں تحریک عدم اعتماد کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید