• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی بحران سے نکلے بغیر ’’معاشی بحران‘‘ سے نکلنا ناممکن

اتحادی جماعتوں کی حکومت جو چند دن ہفتے قبل تک ملک کی مضبوط اپوزیشن کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھی آج اقتدار حاصل کرنے کے بعد اسی جماعت سے اپنے قتدار کے دفاع میں مصروف ہے فرق اتنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کو بھیجنے کیلئے آئینی ،قانونی اور پارلیمانی طریقہ کار استعمال کیا تھا اور اس کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے ان کی حکومت کو رخصت کیا تھا جو پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ ملک کے کسی وزیراعظم کے خلاف پیش کی جانے عدم اعتماد کو کامیابی ملی ہو اور ووٹوں کے ذریعے اسے اقتدار سے باہر کر دیا ہو لیکن اقتدار کے دوبارہ حصول کیلئے اپنے مطالبات تسلیم کرانے وہی جماعت اب شاہراہوں ،چوراہوں اور گلی محلوں میں طاقت کے ذریعے ہنگامہ آرائی میں مصروف ہے اور حکومت ان سے نمٹنے میں کیلئے اقدامات میں۔جو کامیابی اتحادی جماعتوں نے پارلیمانی ایوانوں میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے حاصل کی تھی اسے چھیننے کیلئے اپوزیشن اب ہجوم کی طاقت کو استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔

آج پورے پاکستان کا میڈیا ملکی سیاست بھی اس ہنگامہ خیز کشمکش کے مناظر کو پیش کر رہا ہے۔ واقعات، مناظر، الزامات، دعوے اور موقف اتنی شدت کیساتھ تبدیل ہو رہے اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ انہیں بصری گرفت میں لینا ہی مشکل ہو رہا ہے لیکن یہ پہلو ہمارے میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل ہے کہ ایک طرف تو اس صورتحال نے پورے ملک کی گرتی پڑتی معیشت کو مزید دھچکا دیا ہے۔ ڈالر نے پاکستان کی کرنسی کی کمر توڑدی ہے ۔اشیائے خوردونوش سے لیکر ضروریات زندگی کے تما م ۔۔۔۔کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

بے یقینی کی فضا میں اب خوف اور عدم تحفظ کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں آئے دن ایسی صورتحال پیدا ہونے پر خوش ہونے والے پڑوسی ملک بھارت جہاں دوماہ قبل جاپان کے وزیراعظم نے اپنے دورے میں پانچ ٹریلین یعنی تقریباً 3.20لاکھ کروڑ جو پاکستانی کرنسی میں کھربوں روپے بنتی ہے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک بین الاقوامی فورم میں شرکت کیلئے جاپان بھی عالمی راہنمائوں کے ساتھ چین کیخلاف کیے جانے والے اقدامات میں مرکز نگاہ بنے ہوئے یہ محض ایک مثال ہے۔ اور اب آجائیں دوسری طرف جہاں اسلام آباد ایک بار پھر کینٹینرز کا دارالحکومت بنا ہوا ہے۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان کی یہ حکمت عملی پہلے بھی وضع کر لی گئی تھی کہ اسلام آباد میں احتجاج کا اصل مقام ریڈ زون ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاجی پڑائو دھرنے یا 2014 میں کئے جانے والے 126 دنوں جیسا ’’سیاسی منورنجن‘‘ کا پروگرام نہیں تھا بلکہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ لوگوں کی تعداد اور صورتحال کے پیش نظر ایک ہفتے کے اندر اندر بلکہ دو سے تین دنوں کے دوران ہی لانگ مارچ کے شرکاء طے شدہ مقام جس کی اجازت دی گئی تھی وہاں سے اسلام آباد کے ’’ریڈ زون‘‘ کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے بعض اہم عمارتوں کی طرف بڑھیں گے اور ان عمارتوں کے محاصرے میں اپنے مطالبات اسمبلیاں تحلیل کئے جانے اور ملک میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کریں گے اور یہ فیصلہ اعلیٰ سطحی قیادت کے صرف پانچ یا چھ لوگوں کے علم میں تھا۔ 

اس سمت مزید پیشرفت کیا ہونی تھی اس کی تفصیلات کا تو علم نہیں ہوسکا لیکن اس حکمت عملی کی وجہ دوسری عوامل کے علاوہ یہ بھی تھی کہ لانگ مارچ کے منتظمین کو اس حولے سے زمینی حقائق کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حکومت نے لانگ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے جو موثر اور سخت اقدامات کی منصوبہ بندی کی ہے اس کے پیش نظر دوسرے شہروں تو دور کی بات خود راولپنڈی ۔ اسلام آباد کے لوگ بھی آزادانہ طور پر دھرنے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ 

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ میں جن لوگوں کو شرکت کی دعوت اور ہدایت کی ہے ان لوگوں کے ذہن میں 2014 والے دھرنے  کے مناظر میں جن میں ’’اعضا کی شاعری‘‘ پر پکنک کا سماں ہوا کرتا تھا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد فرصت کی شامیں گزارنے کیلئے یہاں جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب صورتحال خاصی مختلف ہے، جلسوں میں لوگوں کی حاضری چند گھنٹوں کیلئے ہوتی ہے اس لئے اس میں شرکاء کی بڑی تعداد سے کوئی اندازے قائم کرنے درست نہیں لیکن ایسی تحریک کیلئے جس کا کوئی دورانیہ طے نہ ہو۔ نتائج کے بارے میں کوئی یقین نہ ہو اس میں لوگوں کی شرکت ویسے ہی یقینی نہیں ہوتی۔ 

اسلام آباد مارچ کے مخالف حلقے جو اپوزیشن کی اس سرگرمی کو ملک کی موجودہ صورتحال مین ایک ملک دشمن احتجاج قرار دے رہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف یہ مارچ بری طرح ناکام ہوگا بلکہ تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے مطالبات کے حصول میں بھی پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ وہ کئی حوالوں سے حکومت کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں اور دھرنے کے وہ شرکاء زیادہ وقت اسلام آباد میں قیام نہیں کرسکیں گے جو کسی طریقے سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو۔ 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور میں جس پریس کانفرنس میں عمران خان نے مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا تھا اس کے آغاز پر شاہ محمود قریشی کو جو فون کال موصول ہوئی تھی کال کرنے والے کی شناخت انہوں نے عمران خان کو بھی دکھائی تھی جس پر دونوں مسکرائے تاہم شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں ہم ٹریپ کریں گے اور لگتا ہے کہ وہ کال اتنی اہم تھی کہ عمران خان واقعی ٹریپ ہوگئے۔  

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد مارچ کی تاریخ کے اعلان سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت نے اسمبلیاں توڑنے اور نئے الیکشن کی تیاریاں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا گوکہ حکومت میں شامل دو اہم اتحادی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر رہے تھے لیکن ان دونوں شخصیات نے ہی سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے راستے میں مزاحم ہونے اور مقابلہ کرنے کیلئے اپنے موقف اور اتحاد کے زور پر مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو نئی حکمت عملی وضع کرنے پر آمادہ کر لیا۔ 

اس حوالے سے خواجہ محمد آصف نے اپنے انٹرویو میں یہ بات تسلیم کی تھی کہ مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیاں توڑنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کا صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ معاشی بحران کی دلدل میں پھنسی صورتحال کے پیش نظر اتحادیوں کی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ یا تو حکومت کو معاشی صورتحال پر قابو پانے کیلئے اسے آئینی مدت مکمل کرنے کی ضمانت دے (ڈیڑھ سال ہے) تاکہ اس عرصے میں حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر پٹرولیم مصنوعات میں قیمتوں میں اضافے دیگر اقدامات کرسکے بصورت دیگر وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے پر تیار ہیں کیونکہ مشکل فیصلوں کے فوری بعد الیکشن میں جانا ان کیلئے کسی طور بھی موزوں نہیں لیکن ایک طرف تو حکومت کو کو اس ضمن میں کوئی واضح یقین نہیں مل رہی تھی اور دوسری طرف بیرون ممالک سے کچھ معاشی ماہرین کو بھی بلانے کی باتیں ہو رہی تھیں جس کا مطلب ملک میں نگران حکومت کا قیام ایسے موقعہ پر ’’ کام آنے والے‘‘ حفیظ شیخ تو اسلام آباد پہنچ بھی گئے اور اطلاعات کے مطابق نگران وزیراعظم کیلئے ان کا انٹرویو بھی ہوگیا تھا۔(شیخ صاحب ابھی اسلام آباد میں ہی موجود ہیں) لیکن اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری نے اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد یکسر صورتحال تبدیل ہوگئی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید