اسلام آباد(جنگ نیوز/نمائندہ جنگ)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن، دہشت گردی، ٹیکس اور قرض نادہندہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے.
وزرا کیخلاف کارروائی چلتی رہنی چاہئے، دیکھنا ہوگا کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رولز میں تبدیلی کی جبکہ عدالت کا کہنا تھا کہ فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کالعدم قرار نہیں دے رہے.
نمائندہ جنگ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ’’تفتیش اور استغاثہ کے اداروں میں بعض اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مبینہ مداخلت‘‘ کے خدشہ کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پچھلی سماعت پر ہائی پروفائل مقدمات کو عدالتوں سے واپس لینے.
ان کی تفتیش اور استغاثہ پر مامور افسران کے تبادلوں کے خلاف جاری کئے گئے حکم امتناع کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء (آپریشن) عثمان گوندل کو ذاتی حیثیت میں حاضر ہونے کا حکم جاری کیا ہے.
عدالت نے آبزرویشن دی کہ فی الحال ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قواعد وضوابط میں ترمیم سے متعلق حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے لیکن قانون پر عملدرآمد کے لئے کچھ ضوابط ضروری ہیں.
عدالت نے ای سی ایل سے وزراء کے نام نکالنے پر سوالات اٹھائے اور نکالے گئے کابینہ اراکین کی فہرست طلب کرتے ہوئے قواعد میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کو مقدمات کا ریکارڈ محفوظ ہونے سے متعلق یقین دہانی سے متعلق تحریری سرٹیفکیٹ بھی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر کسی بھی ہائی پروفائل مقدمہ کے ریکارڈ میں کمی بیشی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہونگے.
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، لیکن ریاست کے خلاف کارروائیوں پر کارروائی کی جائے گی.
انہوں نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)2010 کی دفعہ2 کے مطابق بدعنوانی، دہشت گردی، ٹیکس نادہندگی اور قرض کی نادہندگی کے مقدمات کے ملزمان ملک سے باہر نہیں جاسکتے، عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ کابینہ نے کس کے کہنے پر بدعنوانی اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ نے قواعد کی منظوری دی ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون کی عملداری ہو، ہم ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرینگے، لیکن ایسا کوئی شخص جس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہو، ملک سے باہر نہیں جائیگا؟
حالات جوں کے توں رکھنے سے متعلق عدالت کے احکامات برقرار رہیں گے، ہم دیکھیں گے کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق174 افراد کے نام نکالنے سے قبل ادارے سے مشاورت نہیں کی گئی ہے جبکہ ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی ہے.
آئین کا آرٹیکل248 وزراء کو فوجداری مقدمات کی صورت میں کارروائی سے کسی بھی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں دیتا، جرائم میں نامزد ہونے کی صورت میں وفاقی وزراء کے خلاف بھی فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہئے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہئے.
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا 120 دن بعد نام ای سی ایل سے خود بخود نکل جائے گا؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال اٹھایا کہ کابینہ کے اراکین تو خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے ہیں، کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کے لئے قواعد میں ترمیم کیسے کرسکتے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وفاقی وزراء پر ابھی صرف الزامات ہی ہیں، لیکن کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ اگر کوئی وزیر کسی مقدمہ میں ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہیں جائے گی؟ ملزم وزراء کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہئے، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا اپنے فائدے کے لئے کوئی ملزم رولز میں ترمیم کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اورجسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے جمعہ کے روز کیس کی سماعت کی.
دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے ای سی ایل کے قواعد میں کی گئی ترمیم کی وضاحت کی تو جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جا سکتی ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ای سی ایل قواعد میں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا ہے، کیا ای سی ایل قواعد میں کابینہ کی ترمیم مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے؟جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ اعظم نذیر تارڑ وزیر بننے سے قبل جس ملزم کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی ہے؟
فاضل جج نے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے ہیں، عدالت کو دیکھنا ہوگا کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی ہے؟
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ نئی اتحادی حکومت آنے کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے مقدمات میں کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا وزیراعظم پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی ہے.
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ضابطہ اخلاق موجود ہے کہ اگر کوئی وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہیں جائے گی؟ ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال وفاقی وزراء پر صرف الزامات ہی ہیں، تاہم ملزم وزراء کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہئے.
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا بھی رولز تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکرائو ہے، عدالت کو تفصیلات فراہم کریں کہ کابینہ میں شامل کن کن اراکین کو فائدہ پہنچا ہے.
الزام کا سامنا کرنے والا کابینہ میں شامل وزیر خود کو اجلاس سے الگ کرسکتا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد نظر ثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا ہے.
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ سے تاثر ملتا ہے کہ بہت سے معاملات کو غیرسنجیدہ اقدامات کے ذریعے ڈھانپا گیا ہے، وزارت قانون نے13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے کے پراسکیوٹرز کومعطل کیا.
بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا، انوسٹی گیشن آفیسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا حالانکہ وہ تبدیل ہونے کے مہینہ بعد بیمار ہوا تھا جبکہ پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لئے بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا.
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کی تبدیلی کا ریکارڈ بھی مانگا تھا، کیا ایف آئی اے مقدمات کا ریکارڈ محفوظ ہے؟ جس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ڈی جی کی جانب سے ریکارڈ محفوظ ہونے سے متعلق تحریری سرٹیفکیٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی اور آبزرویشن دی کہ اگر ریکارڈ میں کوئی کمی بیشی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہونگے.
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے کے پاس ریکارڈ کی سافٹ کاپی بھی ہوتی ہے؟ ،دوران سماعت وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے عرفان قادرایڈوکیٹ پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ قانون اور ضمیر دونوں کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کریں گے.
اس وقت ملک میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے اور ان دونوں کی کشیدگی کے درمیان عدالت ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ سیاسی شخصیات کے حوالے سے تفصیلات میں نہیں جائیں گے.
اگر آپ نے کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دے دیں، جس پر عرفان قادرایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر یہ عدالت اپنے سوالات لکھ دے تو میں بہتر انداز میں عدالت کی معاونت کر سکوں گا، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معاونت کی ضرورت نہیں ہے.
عدالت کسی انفرادی کیس کو نہیں بلکہ سسٹم کو دیکھ رہی ہے، بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا احکامات جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ دنوں کے لئے ملتوی کردی۔