60ء کی دہائی میں پاکستان کی فلمی صنعت ترقی اور تجربات کے کئی مراحل طے کرکے اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ 1969ء میں بچوں کے پسندیدہ ایڈونچر کردار’’ٹارزن‘‘ کے موضوع پر پہلی بار فلم ’’دارا‘‘ بنائی گئی، جب کہ بھارت میں اس موضوع پر کئی فلمیں بن چکی تھیں، پاکستان میں اس موضوع کو پہلی بار فلمانے کے لیے ایم ایچ پکچرز نے قدم بڑھایا۔ اس مشکل اور مہنگے موضوع کو فلم ساز میاں مشتاق نے شروع کیا۔ اپنے دور کے نامور فوٹو گرافر اسلم ڈار کو پہلی بار بہ طور ڈائریکٹر اس فلم کے لیے منتخب کیا گیا۔ اسلم ڈار کو جب بہ طور ہدایت کار اس فلم کے لیے منتخب کیا گیا، تو انہوں نے میاں مشتاق سے کہا کہ فلم کا موضوع وہ خود منتخب کریں گے۔
موضوع کو سوچتے ہوئے ڈار صاحب نے کچھ دن لے لیے پھر ایک روز ان کے ذہن میں جنگل ایڈونچر ٹارزن کاموضوع آیا، کیوں کہ یہی وہ موضوع تھا، جو اس فلم سے قبل نہیں فلمایا گیا۔ ٹارزن کاموضوع آنے کے بعد انہوں نے ٹارزن کے کردار کے لیے جب اس وقت کے ہیروز پر نظر ڈالی، تو کوئی بھی اس کردار کے لیے نظر نہ آیا اور پھر انہوں نے مختلف باڈی بلڈرز سے ملاقاتیں کیں۔ ایسی ہی ملاقاتوں میں ان کی ملاقات گوال منڈی کے ایک نوجوان نصراللہ بٹ سے ہوئی، جوان دنوں مسٹر لاہور کا اعزاز رکھتے تھے۔
ان کی شکل میں ڈار صاحب کو ان کا مطلوبہ کردار ٹارزن مل گیا ، مگر ایک مشکل یہ تھی کہ ان کا ٹارزن، اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی میں بے حد ماٹھا تھا۔ پنجابی لب و لہجے میں ان کی اردو کی و جہ سے ڈار بے حد پریشان ہوئے۔ انہوں نے اپنی کہانی میں حادثاتی طور پر یہ فلم کے ہیرو ٹارزن کو گونگا دکھایا۔ نصراللہ بٹ کو انہوں نے ’’دارا‘‘ بنایا اور ان کے مکالمے پوری فلم میں بہت ہی کم رکھے، بلکہ صرف چند لفظ اس نے ادا کیے۔ اس فلم کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کے لیے پاکستان اورسابقہ مشرقی پاکستان کے خطرناک جنگلات میں کی گئی۔ فلم کے ایک گانے میں ہاتھیوں کا ایک جھنڈ دکھانے کے لیے سابقہ مشرقی پاکستان کے جنگل سرندر بند میں اس فلم کا یونٹ دو ہفتوں تک قیام پذیر رہا۔
اس ایڈونچر جنگل کے موضوع پر بننے والی فلم میں جن اداکاروں نے کردار نگاری کی ان کا ذکر کرتے ہیں۔ اداکارہ رانی نے اس فلم میں ہیروئن کا کردارکیا، یہ شہر کی ایک ماڈرن تعلیم یافتہ لڑکی سیما کا تھا، جسے سیاحت اور مہم جوئی کا شوق تھا۔ نصراللہ بٹ نے جنگل میں پل کر جانوروں کے درمیان جوان ہونے والے ایک طاقت ور شخص کا کردار ادا کیا، جسے سارا جنگل ’’دارا‘‘ کے نام سے جانتا ہے۔ سمندری طوفان کے ایک حادثے میں اپنی ماں کے ساتھ ایک خطرناک جنگل میں تقدیر اسے لے آتی ہے، مسافر جہاز کے سارے لوگ مر جاتے ہیں، صرف دارا اور اس کی ماں بچتے ہیں، جو سمندرکی موجوں سے ایک جنگل کے جزرے میں اپنے آپ کو پاتے ہیں۔
جزیرے میں رہنے والے خونخوار آدم خور جنگل معصوم دارا کی ماں کو قتل کردیتے ہیں۔ اس حادثے سے دارا کی آواز چلی جاتی ہے۔ جوان ہونے کے بعد وہ جنگل قبیلے کا دشمن ہوجاتا ہے ،جنگلی دارا کی طاقت سے خوف کھاتے ہیں۔ اداکارہ عالیہ نے ایک جنگلی دوشیزہ، جو دارا کو پیار کرتی ہے اور جنگل میں اپنے بھائی منگو کے ساتھ رہتی ہے۔ ساقی نے سیما کا باپ سیٹھ خلیل، جسے خطرناک جنگلات میں شکار اور مہم جوئی کا شوق ہوتا ہے، خلیل کا بھائی مرتے وقت اسے جنگل میں چھپے ہوئےخزانہ کا نقشہ دیتاہے، خلیل اس قیمتی خزانے کی تلاش کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل کا رخ کرتا ہے۔
ادیب، آثار قدیمہ کا ماہر شکاری ’’مراد‘‘، جو سیٹھ خلیل کی مہم میں اس کی خوب صورت بیٹی سیما کی وجہ سے جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ نذر، سیٹھ خلیل کا مسخرہ ملازم عبداللہ جوبہت سی زبان پر عبور رکھتا ہے۔طاہرہ، سیما کی سہیلی ’’نازی‘‘، جسے عبداللہ چاہتا ہے، نازی بھی سیما کے کہنے پر خزانے کی تلاش میں جنگل جانے کے لیے راضی ہوجاتی ہے۔ ترانہ، جنگلی قبیلے زونل کی حسین اور مغرور ملکہ، جو دارا کی جوانی اور طاقت کی دیوانی ہوتی ہے، مگر دارا اسے جنگلی قبیلے کی ملکہ سمجھ کرنفرت کرتا ہے۔
ہدایت کار اسلم ڈار کی بہ طور ہدایت کار یہ پہلی فلم تھی، جس میں وہ بے حد کام یاب ہوئے اور پہلی بار پاکستانی اسکرین پر ایک ایسی مکمل تفریح سے بھرپور ایڈونچر فلم بنائی ، جسے بچے، بوڑھے سبھی نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی، نہ صرف اپنے پہلے رن پر کام یاب رہی، بلکہ جب بھی فلم سیکنڈ اور تھرڈ رن میں یا بعد میں ریلیز ہوئی، تو ہر بار کئی کئی ہفتے سنیما ہائوسز پر لگی رہی۔ ٹارزن کا چیلنجز سبجیکٹ جوایک خواب تھا، سالم ڈار نے اپنی صلاحیتوں اور ذہانت سے زندہ تعبیر کردیا۔ فوٹو گرافی کے شعبے میں سعید ڈار نے بے حد اعلی کام کیا۔
یہ اسلم ڈار کے چھوٹے بھائی اور شاگر تھے، زیادہ تر فلم آئوٹ ڈور فلمائی گئی، جس میں ان کی لائٹنگ اور ایکسپورٹنگز دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان ڈور شوٹنگ میں بھی انہوں نے کمال کردیا۔ فلم کی کہانی ایک خاتون طاہرہ سروش نے لکھی جو زمانہ قدیم سے بچوں میں مقبول تھی۔ یہ فلم لاہور کے ایم اے اسٹوڈیو میں بنائی گئی، جو فلم ساز ہدایت کار اسلم ڈار کی ہمیشہ سے پہلی ترجیح رہا۔ انہوں نے زیادہ تر فلمیں اسی اسٹوڈیو میں مکمل کیں۔
آرٹ ڈائریکٹر سرور غوری نے فلم کی کہانی کے مطابق تمام سیٹ بہت ہی خوب صورتی سے لگائے۔ اب بات کرتے ہیں فلم کی موسیقی، نغمات، ڈانسنگ اور فلم بندی کی تو فلم کے موسیقار ماسٹر رفیق علی تھے۔ انہوں نے تمام دھنیں فلم کے سبجیکٹ کے مطابق بنائیں۔ نغمہ نگار مشیر کاظمی نے ان کے سنگیت پر بہت عمدہ گیت تحریر کیے، جب کہ ڈانسز جو اس فلم ایک ہائی لائٹ ثابت ہوئے، ان کی کوریو گرافی اکبر سمراٹ نے بہت ہی چلبلے اور دل کو موہ لینے والے انداز میں کی۔ ان ڈانسز پر رانی اور عالیہ نے اپنے بہترین رقوص پیش کرتے ہوئے فلم بینوں کو خوب لطف دیا۔ یہ دونوں اداکارائیں اس شعبے میں اپنا ایک خاص تعارف رکھتی تھیں۔ فلم ’’دارا‘‘ ان کے بہترین رقوص کی اعلی مثال ہے۔