• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانے میں پاکستان میں ایک کام یاب فلم انڈسٹری وجود رکھتی تھی، کیا آج ایسا ہے؟ موجودہ دور و حالات میں کوئی فلم بنائے، تو کیوں؟ کمانے کے لیے، شوق کی خاطر یا پھر اقوام عالم میں ملک اور قوم کا نام بلند کرنے کے لیے....؟ جواب کوئی بھی ہو سکتا ہے اور ہر جواب کے ساتھ منطق بھی مل سکتی ہے ، لیکن ایک سچائی بہرحال سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ دُنیا بھر میں صنعتی ترقی کو کمائی یعنی آمدنی سے جوڑا جاتا ہے، جس کام میں جتنا جائز و قانونی مالی فائدہ، اُسی قدر اُس کے پھلنے پُھولنے کے امکانات اور 90 کی دہائی تک کی پاکستانی فلمی صنعت جس طرح سے بھی وجود رکھتی تھی، وہاں تسلسل سے کام ہوتا تھا تو اس لیے کہ جو فلم چلتی تھی، وہ خُوب کماتی تھی، جیسا کہ منڈا بگڑا جائے، جیوا، چوڑیاں، مجاجن، گھر کب آؤ گے وغیرہ.... لیٹ 90 تک زوال پذیری کے ساتھ یہ انڈسٹری قائم و دائم رہی، جب کہ اس سے قبل ساٹھ ستر کی دہائی میں ترقی در ترقی کرنے والی فلمی صنعت ڈاؤن سائیڈ پر آئی تو کیوں؟

یہ ایک لمبی داستان ہے، جس کا نقطہ آغاز ضیاءالحق کے مارشل لا کو قرار دیا جاسکتا ہے، جب کئی شہرہ آفاق شاہ کار تیار کرنے فلمی صنعت اور اس سے وابستہ لوگوں کو معاشرتی سطح پر کم مائیگی کے احساس سے دوچار کردیا گیا تھا اور تب یہ پھلتی پُھولتی فلمی صنعت روبہ زوال ہوئی تھی....سوال یہ کہ 2007ء میں جب شعیب منصور نے ایک الگ طرح کی مووی ’’خدا کے لیے‘‘ بنا کر ری وائیول آف سنیما کا پرچار شروع کیا اور جیو فلمز نے اس مہم کو عوامی بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا، تب واقعی ایک اچھی شروعات تھی، لیکن آج چودہ پندرہ سال بیت جانے پر بھی ری وائیول آف سنیما کی کہانی پہلے اسٹیپ سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے تو کیوں؟ 

اس دہائی میں بیش تر کام یاب فلمیں پیش ہوئیں، کئی ادارے، ہدایت کار، اداکار اور میوزک سے وابستہ لوگ باکس آفس سپوٹرز کہلائے، لیکن مقابلے کی فضا بننے کی بہ جائے گروپ بندیاں اسٹرانگ ہونے لگیں اور کام یاب فلموں سے وابستہ لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر طے کرلیا کہ ہمیں بس ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ہرگز نہیں، یعنی اسٹارڈم کے پہلے اسٹیپ پر ہی ایسا کڑوا کسیلا فیصلہ ، جس نے فلمی صنعت کی بڑھوتری کے امکانات ختم نہیں تو کم ضرورکر دیے... 

اس دہائی میں نئی پاکستانی فلمی صنعت کو شعیب منصور (خدا کے لیے)، ندیم بیگ (جوانی پھر نہیں آنی)، نبیل قریشی (نامعلوم افراد)، بلال لاشاری (وار)،احسن رحیم (طیفا اِن ٹربل)،اظفر جعفری (جانان)، عاصم رضا (ہو من جہاں)، عمران ملک (آزادی)، حسیب حسن (پرواز ہے جنون)، عزیز جندانی (دا ڈونکی کنگ)، کمال خان (لال کبوتر)، ثاقب ملک (باجی) تقریباً ایک درجن نئے ڈائریکٹرز نے ہٹ، بلکہ سپر ہٹ فلمیں دیں، ان کی فلموں نے باکس آفس پر خُوب مال کمایا ، گویا کھڑکی توڑ آمدنی، لیکن پھر بھی تسلسل قائم نہ ہو سکا اور ان درجن بھر عہد ساز کام یاب اُبھرتے ڈائریکٹرز میں سے چند ہی نے ایک سے زیادہ فلمیں بنائیں، مگر نہ برانڈ نیم کے طور پر مستحکم ہو سکے، نہ ہی ان کی مارکیٹ ویلیو مارک ہوئی اور نہ ہی باکس آفس کے لحاظ سے فلمی کاروبار کو مجموعی و راست وسعت مل سکی...

گزشتہ عید الفطر پر ریلیز ہونے والی A گریڈ فلموں کا باکس آفس پر جو حال ہوا، اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کاروبار کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہیں، فلمی صنعت کے مجموعی مفاد اور مکمل بحالی کی بہ جائے انہیں اپنے اپنے کاروبار سے مطلب ہے، ایسے میں بحالی کا یہ سفر جو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے میں پہلے کے بعد دوسرے اسٹیپ پر نہیں آ سکا، یہاں مزید تاریکی دکھائی پڑتی ہے... فلم Passion ہے یا پروفیشن؟ 

کیا آج کے فلم میکرز یہ طے کر پائے ہیں... گولڈن پیریڈ کی فلم انڈسٹری میں شباب گروپ، حَسن طارق، نذراُلاسلام، جاوید فاضل، شمیم آرا، پرویز ملک، سیدنور، سنگیتا، اقبال کاشمیری، ایس سلیمان وغیرہ تسلسُل سے فلمیں بناتے تھے اور مستحکم کاروبار کی ایک صورت دکھائی پڑتی تھی، دو درجن سے زائد فلم میکرز کے ذریعے پُورے سال فلمی صنعت رواں رہتی اور سینما گھر آباد ہوا کرتے تھے ، مگر اب ایسا نہیں، تو اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن اگر کام یاب فلمیں دینے والے بھی آگے ہمت نہیں کر پا رہے، تو آخر کس لیے؟ کیوں تین کام یاب یا قابل ذکر فلمیں دینے کے بعد شعیب منصور فلمی محاذ پر خاموش ہیں، تو ڈائریکٹوریل آغاز میں ہی چھکا لگانے والے ثاقب ملک، کمال خان، عزیز جندانی اور احسن رحیم، اب تک بس ایک ہی فلم دے پائے ہیں تو کیوں؟ 

بلال لاشاری نے پہلی ہی فلم وار کے ذریعے دنیا بھر میں نام کمایا، مگر ان کی دوسری فلم مولاجٹ 6سال بعد بھی ابھی ریلیز ٹریک تک نہیں پہنچ پائی ہے، ایسے میں ہٹ فلم میکرز کے ذریعے کام یابی اور دُھن کی تلاش کیسے پُوری ہو سکتی ہے؟ ری وائیول کا مطلب تو یہ ہے کہ فلمیں لگاتار بنتی رہیں، نئے لوگ آتے رہیں، پُرانے اگر ناکام ہوں تو تھوڑا وقت لگا کر پھر کوشش کریں اور جنہیں کام یابی ملے، وہ بڑھ چڑھ کر تسلسُل کی آب یاری کریں ، تبھی ری وائیول کا مطلب و مقصد پورا ہوگا ، مگر یہاں ایسا نہیں... پاکستان کی نئی نویلی فلم انڈسٹری اب تک سمجھنے کی نہ سمجھانے کی حالت میں ہے، ابھی تک رئیل فلم، ٹیلی فلم اور ڈراما ٹائپ فلم نے بنانے والوں کو کنفیوز اور شائقین کو مایوس کر رکھا ہے اور ایسے میں اگر کبھی کوئی ماسٹر پیس آجاتا ہے، تو اُس کے بنانے والے بھی بہ مشکل ہی اگلی بار کے لیے ہمت کر پاتے ہیں....

یہ تو ایک کھرا سچ ہے کہ اسٹیج اور ٹی وی سے فلم ورلڈ میں آنے والے بیش تر لوگ، اپنے اپنے تجربات اور فارن فلم سے متاثر ہونے کی بِنا پر پاکستانی فلم کی روح تک نہیں پہنچ پائے اور سینما کی خاصیت بھی اُن کی فراست میں نہیں سما سکی،جہاں ٹی وی کی چھوٹی اسکرین پر سبجیکٹ یعنی شخصیت کو فوکس کیا جاتا ہے، چہرے کے تاثرات و اتارچڑھاؤ سے بات بنائی جاتی ہے، وہاں سنیما کی بڑی اسکرین پر مخصوص لوازمات ضروری ہو جاتے ہیں اور اوبجیکٹ (ارد گرد) پر زور دینا اکثر لازم ہوتا ہے، اسی سے اسکرین سجتی اور فلم کی feel آتی ہے، پھر بیک گراؤنڈ میوزک کا فرق بھی ہونا چاہیے... سینما لارجر دین لائف، تھوڑا لاؤڈ، ایکشن اورینٹڈ ہوتا ہے، جب کہ ٹی وی پر اس کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ 

بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر پھر کبھی بات کریں گے، یہاں اختصار سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے چند کام یاب فلم میکرز، فلمی صنعت کو تسلسُل دینے اور ری وائیول کے اس کام میں اپنا حصہ ڈالنے میں سُست یا پیچھے کیوں ہیں.... شعیب منصور: خدا کے لیے کے بعد بول نے بھی چونکایا، دونوں فلمز موضوعات کے لحاظ سے منفرد و مختلف، بیش تر ناقدین نے ان دونوں فلموں کو بڑے اسکرین کے ڈرامے کہا ، لیکن سچ یہ ہے کہ اپنے فن میں یکتا، شعیب منصور سے روٹین ورک کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے تھی... خدا کے لیے اور بول، ان دونوں فلموں نے بھارت میں ریلیز ہو کر پاکستانی فلموں کا اعتبار قائم کیا اور شعیب منصور فلمی صنعت کے کام یاب فلم میکر بن گئے، پھر تیسری فلم ’’ورنہ‘‘ تھوڑی تاخیر سے آئی تاہم ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ کی طرح ’’ورنہ‘‘ کو بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی، اس کے باوجود شعیب منصور کا نام اپنی جگہ کھرا ہے، لہٰذا ان کی ڈیمانڈ میں کوئی کمی نہیں آئی، ایسے میں اگر وہ کسی چوتھی فلم پر کام نہیں کر رہے ہیں، تو یہ ری وائیول آف سینما کا اعلان کرنے والی فلم خدا کے لیے کے میکر کے حوالے سے نئی فلمی صنعت کی بدقسمتی ہی ہے.

بلال لاشاری: وار، معیار کے اعتبار سے انتہائی غیرمعمولی فلم جس کے لیے بھارت کے ایک بڑے فلم میکر رام گوپال ورما نے کہا تھا کہ پہلی بار کے ڈائریکٹر بلال کا کام دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھے بلال سے فلم میکنگ سیکھنا ہوگی... ویل میڈ فلم جس نے پاکستانی باکس آفس پر 25 کروڑ کما کر حیران کر دیا،راتوں رات بلال کی ڈیمانڈ بن گئی، لیکن اس بندے نے صرف ایک پروجیکٹ مولاجٹ میں ہاتھ ڈالا، یہ فلم بھی وار کی ریلیز کے کوئی دو سال بعد شروع ہوئی اور 22ء تک ریلیز کے مرحلے سے دور ہے... ایک ایسی فلم وسینما انڈسٹری، جہاں ہر ہفتے نئی فلم چاہیے، وہاں بلال جیسا کام یاب اور حیران کر دینے والا ٹیلنٹ ایک کے بعد دوسری فلم نہ دے پائے ، تو سنیما ری وائیول چہ معنی دارد...

احسن رحیم: ایڈ فلمز کے مقبول عام میکر نے علی ظفر کے ساتھ ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کو الیکشن 2018ء سے چند دنوں پہلے ریلیز کیا، تو اپنے آپ میں یہ ایک بڑی ہمت کی بات تھی... کام پر بھروسا رنگ لایا اور ملک بھر میں الیکشن کی فضا کے باوجود احسن کی پہلی فلم کام یاب ٹھہری، ہر طرف سے واہ وا ہی ملی، کہا گیا یہ ہے کام اور علی ظفر و احسن جانتے ہیں، باکس آفس کی کیا ڈیمانڈز ہیں... تبدیلی سرکار کے قائم ہونے سے پہلے ریلیز ہونے والی فلم کے میکرز نے تبدیلی سرکار کے ساڑھے تین سال پُورے کر کے برخاست ہونے کے بعد بھی اب تک دوسرے پروجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈالا... ایسی فلم کے بنانے والے جس نے دنیا بھر میں بزنس کیا، اگر فلمی صنعت کی بحالی میں مصروف عمل نہ ہوں، تو اس پر سوال ضرور اُٹھتا ہے...

عزیز جندانی: اینی میٹڈ فلم ’’دا ڈونکی کنگ‘‘ نے دنیا کے کئی ملکوں میں اچھا بزنس کیا، صرف پاکستان سے 25 کروڑ کے لگ بھگ کمائی ، پاکستانی اینی میٹڈ فلم کے لیے بڑی بات ہے... اس حیرت انگیز کام یابی کے بعد خبر تھی کہ جندانی مزید فلمز بنائیں گے، مگر پاکستان سے کوریا تک فلم ریلیز کرتے کرتے کئی دن گزار دیے گئے اور عزیز کے کسی اگلے پروجیکٹ کے شروع ہونے کی فی الحال کوئی خبر نہیں...

ثاقب ملک: ایڈ فلمز سے ایک اور میکر ثاقب نے پاکستانی سینما و فلمز سے اپنی دل چسپی کا اظہار ہمیشہ اور ہر پلیٹ فارم پر کیا... اجنبی کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا، مگر کسی وجہ سے وہ پروجیکٹ آگے نہ بڑھ سکا ، تو اچھے دِنوں میں اداکارہ میرا کو لے کرفلم باجی بنائی اور بلاشبہ تمام تر فلمی لوازمات سے سجی اس فلم نے دیکھنے والوں کو محظوظ کیا... ثاقب نے ثابت کیا کہ وہ پاکستانی فلموں کے ٹرو ڈائریکٹر ہیں، جو خود فلمی شائق سے ہدایت کار بنے اور دکھا دیا کہ فلمیں دیکھنے والا شوقین، عام فلم بینوں کی نفسیات کے مطابق باکس آفس کا شاہ کار تخلیق کر سکتا ہے.. باجی کو کام یابی ملی اور ملک و بیرون ملک سے کئی ایوارڈز بھی، ثاقب نے فخر و مسرت کا اظہار کیا اور یُوں لگا کہ گولڈن ایرا کے ایک ریگولر فلم میکر کی طرح نئے عہد کی پاکستانی فلم انڈسٹری کو مسلسل فلمیں بنانے والا ایک جنونی فلم میکر مل گیا ہے، مگر افسوس کہ ثاقب جیسے فلم لور کے پاس سے بھی ’’باجی‘‘ کے بعد اب تک اگلے کسی پروجیکٹ کی نیوز نہیں آئی ہے...

کمال خان: اپنے نام کے اعتبار سے اس نئے فلم میکر نے ’’لال کبوتر‘‘ میں واقعی کمال کر دکھایا... کراچی کی اتنی منفرد اور مختلف عکاسی و نمائندگی اس سے پہلے کسی فلم میں شاید ہی نظر آئی ہو... ایک مضبوط فلم جو اتنی مربوط ہے کہ دیکھنے والا بیچ میں سے چھوڑ کر جا نہیں سکتا... ری وائیول آف پاکستانی سینما کی چند منفرد اور کام یاب پیش کشوں میں سے ایک، اتنی زبردست اور کم بجٹ کی ہونے کے باعث مالی طور پر بھی منافع بخش، ایسی فلم بنانے والے کمال خان کی طرف سے اگلے کسی پروجیکٹ کا شروع نہ ہونا پریشان کُن تو ہے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید