اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے لانگ مارچ کے موقع پرپاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں اورراستوں کی بندش سے حوالے سے دائر کی گئی.
اسلام آبادہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی 26مئی کی سماعت کا فیصلہ جاری کر تے ہوئے درخواست کو غیر موثر ہونے کی بناء پر نمٹا دیا ہے جبکہ اسی حوالے سے عدالتی حکم نامہ کی خلاف ورزی کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے آئی ایس آئی،آئی بی اور دیگر حکومتی اداروں سے ایک ہفتہ کے اندر اندر رپورٹ طلب کرلی ہے.
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ بتایا کہ عمران خان نے کتنے بجے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا،کب، کہاں، کسطرح رکاوٹیں عبور کیں، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پرامن احتجاج بنیادی حق، مگر ریاست کی اجازت سے مشروط ہے، اجازت نہ دینے کیلئے معقول قانونی بنیاد ہونا لازمی ہے.
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ 25 مئی کا حکم فریقین کے درمیان بہتر فضا قائم کرنے کی کوشش تھی، اس کا احترام نہ کئے جانے پر رنج ہے، سوالوں کے جواب ملنے پر،ثبوتوں کے جائزے کے بعد کارروائی کا فیصلہ کرینگے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں قراردیاہے کہ عمران خان نے بادی النظر میں عدالتی احکامات کو نہیں مانا ہے اسلئے انہیں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے۔
فاضل عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں قرار دیاہے کہ حقائق کی بنیادپر اس امر کی تصدیق کی ضرورت ہے کہ آیا کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں؟
عدالت کو دیکھناہوگا کہ خلاف ورزیوں پرکس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے ،14صفحات پر مشتمل فیصلہ / حکمنامہ چیف جسٹس، عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جس میں 2صفحات پر مشتمل جسٹس یحیٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست پر چار ایک کی اکثریت سے جاری فیصلے میں عدالت نے قراردیا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی صورتحال ختم ہوگئی ہے ، سڑکیں کھل گئی ہیںاور یہ درخواست غیر موثرہوگئی.
لہذا یہ درخواست نمٹا ئی جاتی ہے،اسی معاملہ سے متعلق دیگر درخواستوں سے متعلق تحریری حکمنامہ میں عدالت نے قراردیاہے کہ ہمیں مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا ہے.
عدالت کی کارروائی کا مقصد دونوں فریقین کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا، یہ عدالتی حکم نامہ فریقین کی موجودگی میں جاری کیا گیا تھا ، اس کیس میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ اخلاقی اقدار میں کمی واقع ہوئی ہے .
سیاسی جماعتوں کے اقدام سے عوامی حقوق اور املاک کو نقصان پہنچاہے ،اکثریتی فیصلہ میں متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے جواب طلب کیا گیا ہے۔
عدالت نے سوالات میں پوچھا ہے کہ عمران خان نے کتنے بجے پارٹی ورکرز کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی تھی ؟ کب،کہاں اورکس طرح مظاہرین نے ممنوعہ جگہ پر داخلے کیلئے بیرئیرپارکیا تھا؟آیا کہ ریڈ زون میں گھسنے والامجمع منظم تھا؟ کسی کی نگرانی میں تھا یا اچانک داخل ہوگیا تھا؟عدالت نے پوچھا ہے کہ کیا کوئی اشتعال انگیزی ہوئی تھی یا حکومت کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی تھی ؟ کیا پولیس نے مظاہرین کیخلاف غیرمتوازن کارروائی کی ہے؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے؟
اگر ریڈزون کی سکیورٹی کے انتظامات تھے تو کیا حکام نے نرمی کی تھی؟ کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئر کو توڑکر عدالتی عہد نامہ کی خلاف ورزی کی تھی؟عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا مظاہرین میں سے کوئی لیڈر یا پارٹی ورکر جی نائن یا ایچ نائن گرائونڈ میں پہنچا تھا؟
پولیس تصادم سے کتنے سویلین زخمی یا ہلاک ہوئے؟ اسپتال پہنچے یا گرفتار کیے گئے ہیں؟ عدالت نے حکم دیا ہے کہ ان سوالات کے جوابات پر مبنی رپورٹ ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کرائی جائے ،جس کا فاضل ججز ان چیمبر جائزہ لینگے اور تمام ثبوتوں کا جائزہ لیکر فیصلہ کیا جائیگا کہ کیا عدالتی حکم کی تعمیل ہوئی یا نہیں؟عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حقائق کی بنیادپر تصدیق کی ضرورت ہے کہ عدالت کی دی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں۔