• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی پیمانے پر کئی طرح کے لوگ اپنے گھر چھوڑ کر پناہ گزین بنتے ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی جنگ وجدل کے باعث اپنے ملکوں میں رہ نہیں پاتے دوسرے وہ جو اپنے ملک میں رہ سکتے ہیں پھر بھی اپنی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے ترقی یافتہ ممالک منتقل ہونا چاہتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے قانونی سے زیادہ غیر قانونی راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس وقت افغانستان سے لے کر شام اور عراق تک مسلم ممالک ایسے حالات کا شکار ہیں جن میں مقامی افراد ہجرت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف بھارت, بنگلادیش اور پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں آبادی کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ ملازمت کے مواقع کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ایسے میں بہت سے جوان افراد دانستہ طور پر بہت بڑی رقوم خرچ کر کے دلالوں کے زریعے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تیسری طرف افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک ہیں جہاں غربت اور بے روزگاری کے حالات کم و بیش پاکستان اور بھارت جیسے ہی ہیں وہاں سے بھی لوگ ہجرت کرتے ہیں۔

اگر جنوبی امریکا کے پناہ گزین زیادہ تر شمالی امریکا کی طرف سفر کرتے ہیں تو ایشیا اور افریقہ کے مہاجرین کا ٹھکانہ یورپ براستہ ترکی اور یونان ہوتا ہے۔ اس سفر میں کئی افراد اغوا کاروں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں دو پاکستانی مغوی افراد کی تفصیل سامنے آئی ہے جو ایران کی حدود میں اغوا ہوگئے اور پھر اغوا کاروں کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ ان لڑکوں کے اہل خانہ کو ان پر تشدد کی ویڈیو فون پر بھیجی جاتی رہیں اور مغوی ان ویڈیوز میں اپنے گھر والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اغوا کاروں کو مزید پیسے بھجوائیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا۔

اس سارے مسئلے کے ذمہ دار بھی کئی عوامل ہیں۔ ایک تو وہ یورپی ممالک اور امریکا جو نیٹو کے زریعے مختلف ممالک پر حملے اور قبضے کررہے ہیں جس کے نتيجے ميں افغانستان سے شام اور عراق تک حالات خراب ہوگئے ہیں۔ لاکھوں لوگ مارے گئے اور جو بچ گئے وہ شدید مالی بدحالی کا شکار ہیں اب اس فہرست میں روس بھی شامل ہوگیا ہے جس نے پہلے 1979 میں افغانستان پر حملہ اور قبضہ کیا۔ دس سال کی جنگ کے بعد سوویت رہ نما گوربا چوف نے افواج کا انخلاء کیا لیکن جب تک پچاس ساٹھ لاکھ افغان دیگر ملکوں میں پناہ گزین بن چکے تھے۔ اب روس نے یہ ہی عمل یوکرائن میں کیا ہے جہاں پر حملے کے بعد مزید لاکھوں افراد مغربی یورپ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اس کی ایک اور ذمہ داری ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اپنے ملکوں میں ہی اگر محنت کریں تو کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں مگر اچھے سے بہتر کی تلاش میں یہ لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے پاکستان جیسے ممالک سے نکل کر دربدر ہوتے ہیں جیسا کہ اغوا ہونے والے جوانوں نے کیا۔ یہ لوگ اپنے گھر والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ انہیں پیسے جمع کرکے دیں تاکہ وہ انسانی اسمگلروں کو ادا کرکے راہی یورپ ہوجائیں۔ 

پاکستان سے ایسا کرنے والے تمام صوبوں میں پائے جاتے ہیں لیکن یہ اغوا ہونے والے گوجرانوالہ کے قریب رہتے تھے جہاں سے کچھ لوگ یورپ منتقل ہوئے تو اُن کے گھروں میں خوش حالی نظر آنے لگی جس کو دیکھ کر دیگر لوگوں کو بھی یورپ میں سب سرسبز و شاداب نظر آنے لگا۔ اس طرح بہت سے ممالک کے نوجوان مستقبل سنوارنے خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی اغوا ہونے والے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے لیکن جلد امیر بننے کے چکر میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر یورپ جانے پر تل گئے۔

ایسا کرنے والے سب سے پہلے اس ایجنٹ یا دلال کے رابطے میں آجاتے ہیں جو انہیں سبز باغ دیکھاتے ہیں چوں کہ ایسی مثالیں موجود ہوتی ہیں جن ميں اُن کے جاننے والے تھوڑی مشکلات کے بعد یورپ جانے میں کام یاب ہوئے اس لیے دلال کی باتوں پر یقین کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ بھی جلد ٹھاٹ باٹ سے رہنے لگیں گے۔

پاکستان میں اس وقت یورپ پہنچانے کے لئے دلال پانچ سے دس لاکھ کی رقم وصول کرتے ہیں جو قسطوں میں ہوتی ہے یعنی دوچار لاکھ پہلے دے دیں مزید دوچار لاکھ ایران کی سرحد عبورکرنے پر گھر والوں کو ادا کرنے ہوتے ہیں پھر مزید ترکی یا یونان پہنچ کر۔لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا اکثر سرحد عبور کرنے کی کوشش ناکام بھی ہوجاتی ہیں اور پھر بار بار کوشش کرنا پڑتی ہے جس چکر میں گرفتاری یا اغوا کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

پہلے تو سرحد پر متعین اہل کار بڑی رقوم وصول کرتے ہیں پھر اگر رقم نہ ملے تو پناہ گزینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر جیل اور اغوا کاروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس دوران میں بہت سے نقل مکانی کے شوقین افراد تھک جاتے ہیں یا ڈر جاتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں واپس ان کے ملک پہنچایا جائے مگر اب کہانی بہت آگے نکل چکی ہوتی ہے۔

واپسی کے لیے بھی مزید رقوم طلب کی جاتی ہیں مگر غریب گھر والے جو اب وہاں سے مدد کے خواست گار ہوتے ہیں مزید رقوم بھیجنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس پر دلال ان لوگوں کو اغوا کاروں کے ہاتھ فروخت کرکے مزید پیسے بنا لیتے ہیں۔

اب اغوا کار تشدد شروع کرتے ہیں تاکہ گھر والے ویڈیو دیکھ کر کچھ نہ کچھ کریں اور مزید رقوم ادا کریں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ حکومتیں بھی بڑی حد تک بے بس ہوتی ہیں کیوں کہ اکثر اوقات رقم نہ ملنے پر مغوی افراد کو قتل بھی کردیا جاتا ہے اور پھر اُن کے جسد خاکی کا گھر پہنچنا بھی تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے اور گھر والے مسلسل اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ پھر قانونی ڈھیل کے باعث دلال گرفتار ہوکر رہا بھی ہوجاتے ہیں کیوں کہ جرم ثابت کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ گرفتار ہونے والے دلال ضمانت پر رہا ہوکر پھر وہی کام شروع کردیتے ہیں کیوں کہ مختلف شہروں میں نئے شکار پھانسنا آسان ہوتا ہے۔

اب اگر افغانستان کے پناہ گزینوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد اُن سب لوگوں کو نہیں نکالا گیا جو نیٹو ممالک کے ساتھ کام کرتے تھے۔ گو کہ اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ اتحادی افواج کے لیے مختلف کام کریں گے تو انہیں اور ان کے خاندان کو یورپ اور امریکا منتقل کیا جائے گا۔

گزشتہ موسم گرما میں برطانیہ نے تقریباً اٹھارہ ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا مگر پھر بھی بڑی تعداد رہ گئی۔ طالبان کے قبضے سے پہلے کئی نیٹو ممالک نے اپنے منصوبے بنائے تھے کہ اُن کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو یورپ اور امریکا آباد کیا جائے جن کو پہلے پانچ سال کا رہائشی ویزا دیا جانا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق ایسے افغان شہریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں مگر بہ مشکل پانچ سے دس فیصد افراد منتقل ہو سکے اور دیگر لوگ غیر قانونی طریقوں سے افغانستان سے نکل کر ترکی اور یونان پہنچ جاتے ہیں۔جو لوگ یورپ پہنچ جاتے ہیں اُن کے لیے بھی زندگی کچھ آسان نہیں ہوتی کیوں کہ مقامی آبادی میں پناہ گزینوں کے خلاف جذبات اُبھر آتے ہیں۔

پھر برطانیہ جیسے ملکوں نے یہ بھی شروع کردیا ہے کہ افریقہ میں روانڈا جیسے ملکوں کو رقوم دے کر ان پناہ گزینوں کو وہاں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں کے حالات اور بھی خراب ہوتے ہیں۔ اب تصور کیجیے کہ گوجرانوالہ سے کوئی روانڈا چلا جائے تو کیا وہ وہاں بھینس پالے گا اور گوالے کا کام کرے گا اور اگر کر بھی لے تو جس ٹھاٹ باٹ کے خواب لے کر گھر سے نکلے تھے وہ تو چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ اگر خوش قسمت ہوں تو لٹے پٹے مقروض گھروں کو واپس آنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ خراب میں گزارے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق سے طالبان قبضے کے بعد جرمنی اور اٹلی نے پانچ پانچ ہزار افغان اور کینڈا اور فرانس نے صرف تین تین ہزار افغان پناہ گزین نکالے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ پناہ گزین نسل پرستی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور کئی نسلیں گزار کر بھی نئے ملکوں میں اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں مزدوروں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا جہاں پر لاکھوں نہیں کروڑوں مزدور کام کرتے ہیں جو زیادہ تر ایشیا اور افریقہ سے آتے ہیں۔ یہ لوگ کم از کم رقوم تو اپنے ملکوں کو واپس بھیج سکتے ہیں۔لیکن اس مسئلے کو اب حل کرنے کی ضرورت ہے۔