• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت ایسے بدلے گا یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ ادب و احترام ایسے ختم ہوگا اس تو تصور بھی نہیں تھا۔ اس کا اندازہ زیرِ نظر واقعہ سے بہ خوبی ہوجائے گا جو 67 سالہ ایک بزرگ کےساتھ پیش آیا انہوں نے فیس بک پر شیئر کیا۔ ’’میری عمر 67 سال ہے اور سر کے بال سفید ہوگئے ہیں۔ شکل و صورت سے بھی سینیر سٹیزن لگتا ہوں۔ پہلے وقتوں میں بزرگ نظر آنے کا فائدہ ہوتا تھا، مگر بزرگی اب معاشرے میں کمزور ہونے کی نشانی بن گئی ہے۔ کچھ دنوں قبل ڈیفینس کریک کلب میں ایک کام تھا۔ 

میں خود ہی گاڑی چلا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ خیابانِ اتحاد پر آیا تو دیکھا کہ اکثر لوگ سگنل کا خیال نہیں کررہے۔ سگنل کی سرخ بتی جلنے کے باوجود جہاں موقعہ ملا تیزی سے نکل گئے۔ خیابان بحریہ کراسنگ پر سگنل توڑ کر میرے بیٹے کی عمر کا ایک لڑکا ویگو گاڑی میں میری جیپ کے سامنے آگیا۔ میں نے پورا زور لگا کر بریک لگایا اور اسے اشارہ کیا کہ آپ کی طرف کا سگنل تو بند ہے، پھر گاڑی کیوں نہیں روکی۔ برخوردار بیچ سڑک پر گاڑی کھڑی کرکے اترا۔ اُس نےکوئی لوہے کی چیز ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ، غصے سے میری طرف آیا ۔ پتہ نہیں مجھےکیا گالی دی جو شیشے بند ہونے کی وجہ سے میں سن نہ سکا۔

گاڑی کے شیشے پر ہاتھ مارا تو میں نے تھوڑا سا شیشہ کھول کر کہا کہ بیٹا !سگنل دیکھیے وہ بند ہےآپ غلط آرہے ہیں آپ کو رُکناچاہیے تھا ۔ کہنے لگا، ’’میں جلدی میں ہوں تم اپنی بکواس بند کرو ورنہ ونڈ اسکرین توڑ دونگا‘‘۔ میں نے دونوں ہاتھ معافی مانگنے کے انداز میں جوڑے اور کہا کہ آئندہ سگنل کھلا بھی ہوا تو خیال کروں گا۔ آج معاف کردو ۔ ‘‘

وہ فاتحانہ انداز سے ہنسا اور انگریزی میں کہا،’’بڈھے یو آر ویری سمارٹ مین۔ آج ہاتھ جوڑ کر مجھ سے بچ گئے ہو، اب تجھ سے کیا لڑوں ۔‘‘ ہر طرف ہارن بچ رہے تھے اور میں اسی طرح ہاتھ جوڑے اسے دیکھ رہا تھا۔ پتہ نہیں کس ماں باپ نے اسے تکبر، بدتمیزی اور بدزبانی کی مٹی سے گوند گوند کر تربیت دی ہوگی ۔ گاڑی کے ٹائر پرلات مار کر وہ مجھے زیر کرکے چلا گیا۔

میں نے سگنل کراس کرکے چند سیکنڈز کے لیے سائیڈ میں گاڑی روکی کچھ دم لیا اور خود کو خود ہی شاباش دی کہ میں نے کس طرح سب برداشت کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اس لڑکے کے لیے خصوصی دعا مانگی کہ نہ جانے وہ اس تکبر اور بدمعاشی کا بار لیے کتنے دن اور جیے گا۔ کیا پتہ اگلے سگنل پر اس کو اس سے بھی کسی بڑے جنونی نوجوان سے پالا پڑ جائے۔ اپنے لیے بھی دعا کی کہ پرودگار کیسا بھی طوفان آ جائے مجھے غصے کی لعنت سے بچائے رکھنا۔

اب جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں بہت ڈر لگتا ہے۔ کیا پتہ کب کس وقت اسی طرح کا نوجوان گلے پڑ جائے کہ شہر کا شہر مرنے مارنے کو نکلا ہوتا ہے اور اس بے مہار ریوڑ کو ورغلانے میں ہمارے تمام قائدین اپنے جلسوں میں اپنی تقریروں میں روز نیا ایندھن ڈال کر سوتے ہیں۔

اب بہت ڈر لگتا ہے، لڑنے والے ناسمجھ افراد سے کم، لڑانے والے نام نہاد قائدین سے زیادہ کیونکہ یہی وہ رہبر ہیں جو اس قوم کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں اور لوگ بنا سوچے سمجھے اندھا دھند ان کی تقلید میں ان ہی کے مفادکےلیے کام آ رہے ہیں ، پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ کس سے کہیں، کسے بتائیں سب ایک ہی راہ کے مسافر ہیں۔