• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

زندگی جہد مسلسل کا نام ہے لیکن آج کی نسل نو جذباتی اور فوری نتائج چاہتی ہے۔ وہ منٹوں میں وہ سب کچھ حاصل کرلینا چاہتی ہے۔ لگژری اور پر آسائش زندگی کو اپنا مقصد حیات سمجھ بیٹھی ہے۔ غریب یا متوسط طبقے کے نوجوان امیر زادوں کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر احساس ِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی ایسی زندگی گزاریں کیوں کہ اچھی زندگی گزارن اُن کا بھی حق ہے اس چکر میں وہ شارٹ کٹ راستہ اختیار کرتے ہیں، جس کے باعث بعض جرائم کی دنیا میں میں پھنس جاتے ہیں کچھ نوجوان آنکھوں میں امیر بنے کے خواب سجائے دوسرے ممالک پرواز کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں ۔ بہت سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن دیارِ غیر میں کیاہوتا ہے اس کا اندازہ انہیں وہاں جانے کے بعد ہوتا ہے بہت کم نوجوان اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس کا اندازہ زیرِ نظر مضمون پڑھ کر بہ خوبی ہوجائے گا۔

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا کا دور جہاں نوجوانوں پر مثبت اثرات مرتب کر رہا ہے وہیں منفی اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس کے ذریعے کاروبار کرنے اور گھر بیٹھے پراجییکٹس ملنے کی صورت میں بے روزگار نوجوانوں کو ایک نئی سمت ملی ہے۔ دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ بات دل دہلا کر رکھ دیتی ہے کہ یہ میڈیا نوجوانوں کی طبیعت میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے اور اس کےبے جا استعمال انہیں ذہنی طور پر مفلوج کر رہا ہے۔ 

تحقیقی میدان سے ہماری نوجوان نسل دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ پڑھائی میں چاہے کتنےکمزور ہوں لیکن موبائل چلانا، نیٹ کی تمام سائیڈ اورایپس کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ عہدِ جوانی جو بہت قیمتی دور ہوتا ہے اسے تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام کو پُر اثر اور جدیدیت سے معمور کیا جائے تاکہ نسلِ نو تعلیم میں دل چسپی لے، اس سے جان نہ چھڑائے۔اُنہیں ایسی صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے کہ بے راہ رو ہونے کا موقع نہ ملے۔

سستی شہرت ، تباہی کا سفر

آج کل نوجوانوں میںٹک ٹاک کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ اس ایپ نے نوجوان نسل کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وہ عجیب و غریب حرکات و سکنات کر کے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ اس کے ذریعے شہرت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہیں، کبھی جنگلات میں آگ لگا کر ملک کے املاک کو نقصان پہنچا کر تو کبھی چلتی ٹرین سے کود کر اپنی جان سے کھیل جاتےہیں۔ یہ کیسی شہرت ہے جس میں نوجوان پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ کیا یہ ان کا مستقبل ہے؟۔ یقیناََ نہیں۔ مصطفیٰ خان شیفتہ کا ایک مشہور زمانہ شعر جو ضرب المثل کی صورت اختیار چکا ہےکہ

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

سوچنے کا وقت ہے کہ اس طرح کے اخلاق باختہ ویڈیوز کے پھیلاؤ کے بعد قوم کا اخلاقی مستقبل کس نہج پر ہوگا؟۔یہ اہم مسئلہ ہے جس پر سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے۔ والدین بچوں کو مناسب وقت دیں اور ایسا ربط قائم کریں،جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ کاش ٹک ٹاکر نوجوان اپنا قیمتی وقت تعلیم، ریسرچ یا ایجادات کی دنیا میں صرف کریں۔

عدم برداشت

عدم برداشت کی فضا میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کا جارحانہ مزاج سے معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہورہےہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں۔والدین اور اساتذہ کے ادب و احترام کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے معیاری تعلیم اور تربیت کا خوبصورت امتزاج ایک بچے کو اس قابل بناتا ہے کہ جب وہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھے تو ہر طرح کے مسائل اور صورتحال کو عقلی بنیادوں پر جانچ کر ان سے نبرد آزما ہو سکے اور ان کا حل تلاش کر سکے۔فی زمانہ دی جانے والی تعلیم اور تربیت کا فقدان معاشرے کو بیمار کر رہا ہے۔ عدم برداشت کے جو مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ شا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اس پر قابو پانے اور اس کے خلاف آگہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔

قوانین کی خلاف ورزی

یوں تو ہر کوئی ملکی نظام پر لعن طعن کرتا نظر آتا ہے لیکن غور و فکر سے کام لیا جائے تو خاندان فرد سے، اور معاشرہ خاندان سے بنتا ہے کوئی بھی فرد قوانین کی خلاف ورزی کرے تو معاشرے میں بگاڑ کا ذمے دار ہوتا ہے۔ لیکن آج کا نوجوان قوانین کی خلاف ورزی کرنے کو اپنی شان سمجھتا ہے ۔سگنل پر رکنا ہو یا غلط سمت کی طرف گاڑی دوڑانا ہو، ون ویلنگ ہو یا بغیر ہیلمٹ کے بائیک چلانا ہو، نوجوان ان سب میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ امتحانات میں نقل کرنے کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں یہی ساری برائیاں معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ یاد رکھیں ملک بغیر قوانین کی پاس داری کےکبھی ترقی نہیں کرسکتا۔

والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ نوجوانون کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ صحیح معنوں میں ملک و قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں۔ ان کی تربیت اسلاف کی سیرتوں کے طریق پر کریں۔ اُنہیں بتائیں کہ قوانین کی پاسداری کرنا ایک مسلمان کی شان ہے۔

آج ہم جس پاکستان میں سانس لے رہے ہیں وہ اقبال کا خواب نہیں تھا ۔وہ تو چاہتے تھے کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے علمی و عملی تجربہ گاہ ثابت ہو جہاں وہ اسلامی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائیں جہاں کا نوجوان اپنی خودی سے روشناس ہو اور اپنے ہونے کے مقصد کو پہچانے۔ ریاست امن و سکون کا گہوارہ ہو، جرائم سے پاک ہو۔ جہاں سے پھر سے بو علی سینا جیسے ماہر فلکیات پیدا ہوں ،جہاں ابن الہیثم جیسے ریاضی دان پیدا ہوں، جو صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالاروں سے مزین ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب نوجوان اپنے مقام کو سمجھیں، اپنی اہمیت کو جانیں۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ معاشرے کی ناہمواریوں کو دور کر کے نوجوانوں کو ان کا مقام دلایا جائے۔ انہیں یہ باور کروایا جائے کہ اپنے اپنے شعبوں میں ایمان داری، دیانت داری سے اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ صرف نعروں سے تبدیلی ممکن نہیں بلکہ ہمیں عملی طور پرجدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سالمیت کے لیے اور ترقی کے لیے ۔ پاکستان کا ہر نوجوان اپنی اہمیت اور حیثیت کو سمجھ لے تو ملک کو ترقی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔