• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعیم احمد

ڈاک،‘ 'ڈاکیا،‘ 'ڈاک خانہ‘ اور 'خط،‘ ان سے جڑی ماضی کی کتنی ہی خوش رنگ یادیں وابستہ ہیں۔ خط لکھنے اور پڑھنے کا لطف وہی جانتے ہیں جو خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تھے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھاجب لوگ اپنے پیاروں کے خطوط کا انتظار کرتے تھے، پردیس جانے والے اپنے والدین بہن بھائیوں اور دوستوں کو خطوط لکھتے تھے۔ دوسرے ممالک سے خطوط کئی کئی مہینے بعد آیا کرتے تھے۔ ڈاک خانوں پر رش ہوتا تھا۔ گلیوں اور محلوں میں اڈاکیہ آواز لگایا کرتا تھا، جس کے لوگ منتظر ہوتے تھے۔ 

ناخواندہ لوگ پڑھے لکھے لوگوں یا ڈاک خانے کے باہر بیٹھے منشیوں سے خطوط لکھوایا کرتے تھے۔ عید کےموقع پر دوست احباب اور رشتہ داروں کو عید کارڈ بھیجتے تھے، جس میں ایک دسرے سے بڑھ چڑھ کر اور سبقت لینے کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی کے آخری چند برسوں میں ہماری تیسری جماعت کی اردو کی نصابی کتاب میں ’دیکھو ڈاکیا آیا ہے‘ کے عنوان سے ایک نظم ہوتی تھی، جسے ہم بچے لہک لہک کر پڑھتے تھے۔

دیکھو ڈاکیا آیا ہے، ساتھ اپنے خط لایا ہے

گرمی ہے یا سردی ہے، اس کی ایک ہی وردی ہے

بچپن میں ایسے بہت سارے لوگ دیکھے جو روزانہ اس امید کے ساتھ ڈاکیے کا انتظار کرتے تھے کہ آنے والی ڈاک میں ان کے نام کا بھی کوئی نہ کوئی خط ضرور موجود ہو گا۔ اگر کسی کا خط آتا تو وہ اسے بار بار پڑھتا اور کچھ دن گزرنے کے بعد پھر دوبارہ پڑھتا۔ شاید اسی لیے یہ کہا جاتا تھا کہ ’’ خط سے آدھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘۔ خط لکھنا جتنا اہم تھا اس کا جواب دینا اس بھی زیادہ ضروری سمجھا جاتا تھا،خط مزاج شناسی اور فکر آشنائی کا ایسا پیمانہ بن گئے تھے کہ ان کے طفیل لفافہ دیکھ کر مضمون کو بھانپ لینے کا گویا فن ایجاد ہوگیا تھا۔

اہل علم و دانش اور ادباءو شعراء بھی اسی ذریعے سے ایک دوسرے کی آراء سے آگاہ ہوتے اور صلاح مشورہ کرتے تھے،احترام و محبت اور عقیدت کا خراج بھی پیش ہوتا تھا، تعریف و تقریظ کے پھول بھی برستے اور اختلاف و تنقید کے نشتر بھی چلتے تھے۔ لیکن آج کےنوجوان خطوط نویسی کی چاشنی سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔ زمانہ ترقی کرتے کرتے بہت دور نکل گیا۔ اتنا دور کہ تہذیب وثقافت، رکھ رکھاؤ اور میل جول کے سارے طریقے بہت پیچھے رہ گئے۔ تہذیبی و ثقافتی روایت تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو کر رہ گئی ہے۔ 

جبکہ لیٹر بکس عہد رفتہ کی بھول بھلیوں میں گم، ڈاک خانے ویران، جدیدیت کی ماری اور سوشل میڈیا کو پیاری نئی نسل خطوط نویسی سے وابستہ سرشاریوں، بے قراریوں اور وارفتگیوں سے ناآشنا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اور دو سو سالہ بوڑھے محکمہ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اب کسی ڈاکیے کے بغیر، ہمیں روزانہ سیکڑوں ای میلز موصول تو ہوتی ہیں، مگر ان میں وہ چاشنی نہیں ہوتی جو کاغذ پر لکھے دنوںاور ہفتوں بعد پہنچنے والے خط کے الفاظ میں ہوتی تھی۔کچھ لوگوں نے اب تک وہ خط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جو کئی برس پہلے ان کے دوستوں رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں نے انہیں لکھے تھے اور انہیں ان خطوط سے اب بھی گزرے ہوئے وقت کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔

آج جہاں ہماری روایات اورقیمتی سرمایہ جدیدیت کے سیلاب کی نذر ہو رہا ہے وہیں پڑھنے کی رسم بھی اسی طوفان کی لہروں میں بہہ رہی ہے،بلکہ بہہ گئی ہےٹیلی فون نے پڑھنے کے معمول کو متاثر نہیں کیا تھا لیکن جب یہ موبائل کی صورت میں ایک وباء بن کر آیا اس کا سب سے منفی اثر مکتوب نویسی پر پڑا، اب خیر خیریت جاننے کے لئے خط لکھنے اس کے لئے لفافہ اور ڈاک ٹکٹ خریدنے کا تردد کون کرے، ہزاروں میل سے ایک دو منٹ میں سب حال احوال بیان ہو جاتے ہیں، ادبیت کی چاشنی،فصاحت و بلاغت کی لذت زبان و بیان کی حلاوت خطوط نویسی کے رحجان کے خاتمے کے ساتھ بھی ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے۔

ہماری نسل نولکھنے لکھانے سے بہت حد تک ویسے ہی بیگانہ ہے، اس پرستم یہ کہ سوشل میڈیا نے تقریر کو تحریر پر مقدم کر دیا ہے۔ خطوط نویسی جو پہلے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ سکھائی اور پڑھائی جاتی تھی، اب تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ موبائل فون نے نہ صرف باہمی گفتگو میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں بلکہ باہمی خط و کتابت تک کو بھی انتہائی محدود کر دیا ہے۔ گویا ایک نئی طرز کا ابلاغی کلچر وجود میں آگیا ہے۔ اب فیس بک، ای میل، واٹس ایپ، انسٹا گرام کا دور ہے۔

نوجوان چند منٹ میں جواب ٹائپ کر کے ایک اخلاقی تقاضا آسانی سے پورا کردیتے ہیں۔ جدید دور کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے لیکن لکھنے، لکھانے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ نصاب میں دوبارہ خطوط نویسی کو شامل کیا جائے تاکہ نسلِ نو خطوط نویسی کی ختم ہوتی روایات کو زندہ رکھ سکے۔ تعلیمی اداروں میں اس کی افادیت کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔