’’امّی! آپ کو نانی کی یاد آتی ہے؟‘‘ ویسے تو ہم یہ سوال بارہا اپنی والدہ سے پوچھ چُکے ہیں، لیکن کچھ روز قبل اُن کی گود میں سَر رکھ کےدوبارہ پوچھاکہ شاید اس بار کوئی اور جواب مل جائے۔ ’’نہیں، جنہیں دیکھا نہیں، جن کا لمس تک یاد نہیں، اُن کی یاد بھلا کیسے آئے گی…‘‘ امّی نے جواب دیا۔ ’’امّی! کیا آپ کو نانا جان یاد آتے ہیں؟‘‘ہم نے اگلا سوال داغ دیا۔ ’’ہاں، بہت یاد آتے ہیں۔ مَیں اپنے ابّامیاں کی بے حد لاڈلی تھی، حالاں کہ وہ غصّے کے بہت تیز تھے کہ کشمیری ویسے بھی تھوڑے سخت مزاج ہوتے ہیں اور بہن بھائی کیا، پورا خاندان، محلّے والے تک اُن سے ڈرتے تھے، لیکن مجھے اپنی ایسی کوئی خواہش،فرمائش یاد نہیں، جو انہوں نے پوری نہ کی ہو۔جب مَیں سوجاتی، تو وہ میرے ارد گرد بہت سارے تکیے رکھ دیتے کہ بے بی کی کسی صُورت نیند خراب نہ ہو۔
بیمار ہوتی، توسخت پریشان ہوجاتے۔ شیر سی گرج دار آواز والے میرے ابّا میاں کو حلق کا کینسر ہوگیا تھا، لیکن بسترِ مرگ پر بھی جب ان کی آواز تک نہیں نکل رہی تھی، انہیں بس میری ہی فکر تھی ، جب ہی انہوں نے بھائی سے کہا کہ مجھے اپنے دستخط کے ساتھ لکھ کر دو کہ میرے بعد بے بی کا خیال رکھو گے، اس کی ذمّےداری اُٹھاؤ گے۔ ابّا میاں کےہوتے مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، ایسا لگتا تھا ، جیسے کسی گھنے شجر کی چھاؤں میں ہوں۔ اور… اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سب کا ساتھ میسّر ہونے کے باوجودایسا محسوس ہوا، جیسے یک دَم ہی میرا بچپن، میری بے فکری کا زمانہ ختم ہوگیا ہو۔ ‘‘ ہمارے نانا جان کی اولادتین بیٹوں اور تین بیٹیوں پر مشتمل تھی۔
نانی کو ٹی بی ہوگئی تھی، جو جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ جوانی میں انتقال کر گئیں۔ یوں گھر اور بچّوں کی تمام تر ذمّے داری نا نا جان پہ آگئی، جو انہوں نے تا حیات بخوبی نبھائی۔ آٹا گوندھنے سے لے کر کپڑے دھونے تک اپنی بیٹیوں کو ہر کام انہوں نے خود سکھایا۔ گھر میں ایک ملازم بھی رکھا ہوا تھا، لیکن باورچی خانے کے کام دونوں بڑی بیٹیوں ہی سے کرواتے ، تاکہ وہ گھر داری سیکھ سکیں۔ پیشے کے اعتبار سے صحافی تھے، تو رات میں اخباری اُمور میں مصروف رہتے اور دِن بَھر گھر داری کرتے۔ اُن سے کئی لوگوں نے کہا کہ دوسری شادی کرلیں، لیکن وہ اپنے بچّوں کی ذمّے داری خود اُٹھانا چاہتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد کسی اور کے لیے بوجھ بنے۔
پاکستان سمیت دُنیا کے کئی مُمالک میں ہرسال ماہِ جون کا تیسرا اتوار’’عالمی یومِ والد‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، تو ہم نے سوچا کہ اس بارکیوں نہ ان باپوں کی قربانیوں، محنتوں، مشقّتوں اور عظمتوں کی بات کی جائے،جنہوں نے تنِ تنہا اپنی اولاد کی پرورش کی یا کر رہے ہیں، جو اپنے بچّوں کے لیے بطور باپ ایک گھنا سایہ دار درخت ہی نہیں، اُن کی ممتا سے لب ریز ماں بھی ہیں۔
شرجیل احمد خان کی شریکِ حیات کا انتقال گزشتہ برس ہی ہوا ہے، اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’شادی کے بعد انسان کی زندگی یک سر بدل جاتی ہے اور پھر اولاد اس بندھن کو ایک نیا موڑ دے دیتی ہے۔ ہماری زندگی بھی بے حد خوش گوار تھی۔ اگرچہ ہماری پسند کی شادی نہیں تھی، لیکن اہلیہ کے ساتھ میرا تعلق بہت گہرا اور مضبوط تھا ۔ ہمیں دیکھ کر لوگوں کو یہی گمان ہوتا تھا کہ شاید ہماری لَومیرج ہے۔
زندگی اس قدر خُوب صُورت، حسین تھی کہ کیا بتاؤں، پھر بچّوں کی آمد نے اسے کچھ اور بھی خوش رنگ بنادیا ، ہمارے تین بچّے (دو بیٹیاں، ایک بیٹا) ہیں۔ لیکن پھر اُس تاریک دِن کا سورج طلوع ہوا، جس نے میری زندگی اندھیروں سے بھردی۔ 25 اگست 2021ء، کہنے کو ایک معمول کا دِن تھا۔ صُبح اُٹھے، ساتھ ناشتا کیا، پھر ہم (مَیں اور اہلیہ) گھر کا سودا سلف لینے قریبی ڈیپارٹمینٹل اسٹور چلے گئے۔
دوپہر کے دو بجے مَیں نے اُسے گھر چھوڑا اور خود کام پہ چلا گیا۔ شام سات بجے کے قریب بیگم سے میری بات ہوئی ، اُس نے پوچھا کہ ’’آپ کتنے بجے تک آئیں گے؟‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’مجھے دیر ہوجائے گی، پریشان نہیں ہونا۔‘‘ پھر اس نے کہا کہ ’’اب میری آن لائن قرآن کلاس شروع ہونے والی ہے، تو بعد میں بات کرتے ہیں۔‘‘ میری اہلیہ ذیابطیس اور ہائپرتھائی رائیڈ کی مریضہ تھیں، تو دورانِ کلاس ہی انہیں ہائپر گلیسیمیا (Hyperglycemia )کا اٹیک ہوا، اس میں مریض کے جسم میں شوگر کی سطح بہت تیزی سے کم ہونے سےہاتھ، پاؤں مُڑنے لگتے ہیں۔بد قسمتی سے اُس وقت گھر پہ بیوی، بچّے اکیلے تھے، تو اُسے فوری طبّی امداد نہ مل سکی۔
خیر، ماں کی ایسی حالت دیکھ کر، میری سب سے بڑی بیٹی نے، جو اُس وقت سات سال کی تھی،فوراً فون کیا، تو مجھے پہنچنے میں دس، پندرہ منٹ لگے۔ مَیں نے ایمبولینس بلائی اور رستے ہی سے اپنے ایک سالے کو بھی کال کردی۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے اُسے ہارٹ اٹیک بھی ہوا اور وہ جاں بَر نہ ہو سکی…اس طرح فقط کچھ لمحوں میں میری خوش حال، خوشیوں، محبّتوں کے رنگوں سے سجی زندگی، اُداسیوں، خالی پَن کے تاریک بادلوں میں گِھر گئی۔ وہ گھر، جو ایک، ڈیڑھ گھنٹے قبل تک بچّوں کی معصوم شرارتوں، بیوی کی خُوب صُورت ہنسی، قہقہوں سے گل و گلزار تھا، یک دَم ہی جنگل بیابان ساہوگیا۔ اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ مَیں تو بس سکتے کی سی کیفیت میں آگیا۔
دو، تین روز تو جیسے کسی چیز کا کوئی ہوش ہی نہ تھا، بچّوں کو میری بہن اپنے گھر لے گئی تھیں، لیکن پھر مَیں نے سوچا کہ جب میرا یہ حال ہے، تو میرے معصوم بچّوں پر کیا گزر رہی ہوگی کہ ان کے ہاتھ سے تو ماں کا آنچل ہی چُھوٹ گیاہے۔ تب مجھے اپنا غم، تکلیف بہت کم معلوم ہوئی، اپنے بچّوں کے لیے ہمّت کی اور پورے حوصلے کے ساتھ انہیں سنبھالا، سہارا دیا اور اب مَیں ہی ان کا باپ بھی ہوں اور ماں بھی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ سفر میرے لیے اس لیے بھی آسان ہوگیا کہ ہر ہر قدم پر مجھے گھر والوں کا ساتھ میسّر ہے۔
البتہ، یہ ضرور ہے کہ جب باپ کو ماں کی جگہ لینی پڑے، تو مزاج، رویّے میں بھی کئی طرح کی تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔ بچّوں کے مُوڈ سوئنگز تحمّل سے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ وہ اکثر پوچھتے ہیں کہ ’’ہماری ماما کہاں چلی گئیں، ہماری ہی ماما کیوں گئیں…؟‘‘ تو انہیں سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج صُبح ہی کی بات ہے، سو کر اُٹھا، تو دیکھا، بڑی بیٹی بچّی اپنی ماما کی تصویر ہاتھ میں لیے رو رہی تھی۔ مَیں نے سمجھایا تو بولی’’ماما بہت یاد آرہی ہیں‘‘۔مَیں نے اُسے تسلی دی کہ ’’ماما جنّت میں خوش ہیں، وہ تمہیں روتا دیکھیں گی،تو اُداس ہو جائیں گی۔‘‘ اسی طرح میرا تین سالہ بیٹا، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتا ہے کہ بابا پاس ہی ہیں یا نہیں، ماں کے جانے سے بچّوں کی صحت پر بھی بُرا اثر پڑا۔
بیٹا اور منجھلی بیٹی بہت بیمار رہنے لگےتھے۔ لیکن اب الحمدُللہ! آہستہ آہستہ چیزیں معمول پر آرہی ہیں۔ جہاں تک بات ہےمیرے معمولاتِ زندگی کی، تو پہلے مَیں خاصا سوشل تھا، لیکن اب میری زندگی صرف میرے بچّوں ہی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اُن کے اسکول سے آنے کے بعد دفتر جاتا ہوں(چوں کہ اپنا بزنس ہے) کہ اگر وہ مجھے نہ دیکھیں تو پریشان ہوجاتے ہیں ۔ پہلے بیگم ان کی ہر پسند، نا پسند کا خیال رکھتی تھیں، اب یہ دھیان مَیں رکھتا ہوں اور اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ بچّوں کی پسند ہی کا کھانا پکے، چاہے دفتر جانے کی کتنی ہی جلدی کیوں نہ ہو، انہیں کھانا کِھلائے ، اُن سے ملے بغیر نہیں جاتا۔
حالاں کہ بیگم کے انتقال کے بعد میرے بہن بھائیوں نے ہمیں اپنے ساتھ رہنے کو کہا، لیکن مَیں نے سوچا کہ ایک تو ماں کے جانے سے بچّے پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں، اگر گھر بھی بدل دوں گا، تو ان کی ذہنی صحت، شخصیت متاثر ہوگی۔سو، یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس قدر محبّت مَیں اپنی بیوی سے کرتا تھا،ہمارا تعلق جتنا مضبوط تھا، تو اگر یہ بچّے نہ ہوتے، تو مَیں شاید زندہ ہی نہ رہ پاتا۔‘‘
ایک اور تنہا باپ، نیاز احمد خان کا کہنا ہے کہ ’’ ہم سفر چلا جائے، تو زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہےکہ بچّے جتنے قریب ماں سے ہوتے ہیں، باپ سے نہیں ہوتے۔ پھر بھی مَیں نے کوشش کی کہ ان کی ماں کی کمی پوری کرسکوں، جس میں کچھ حد تک کام یاب بھی رہا، مگر یہ حقیقت ہے کہ مَیں ان کی ماں نہیں بن سکتا۔ یوں بھی بچّوں کی اکیلے پرورش کرنا قطعاً آسان کام نہیں۔ میرے ماشاءاللہ ، چار بچّے( دو بیٹے اور دو بیٹیاں) ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ مشکل بچّوں کے رشتے طے کرتے وقت پیش آئی۔
خاتونِ خانہ کی عدم موجودگی میں بچّوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ یوں بھی عورت جیسے گھر کا نظام چلاتی ہے ، مَرد کے لیے چلانا ممکن نہیں۔ اہلیہ کے انتقال کےوقت مجھے تو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ گھر میں کتنا سوداسلف آتا ہے۔ لیکن پھر گھر کا نظام چلانے میں میری بیٹیوں نے میرا بَھرپور ساتھ دیا۔ بیگم کی وفات کے بعد پہلا خیال یہ آتا تھا کہ بچّوں سے اپنا رعب و دبدبہ کیسے ختم کروں گا، پھر مَیں نے اُن کی والدہ کا طریقہ اپناتے ہوئے شام کی چائے گارڈن میں پینے اور رات کا کھانا سب کے ساتھ کھانے کی روایت بحال کی، جس سےفاصلے مٹانے میں بہت مدد ملی۔
جب بچّے، بالخصوص لڑکے باہر جاتے تھے،تو ان کی خبر رکھتاکہ کسی غلط عادت میں مبتلا نہ ہو جائیں اور ان سب چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے میں خاصی مشکلات پیش آئیں۔ لیکن اب مَیں بہت حد تک اپنے بچّوں کی ’’ماں‘‘ بھی بن چُکا ہوں۔ مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ’’مَرد،خواتین کی طرح ملٹی ٹاسکنگ نہیں ہوتے ۔ ملازمت کے ساتھ گھر سنبھالنا دُنیا کا ایک مشکل ترین کام ہے، جو خواتین ہی بخوبی کرسکتی ہیں۔‘‘ ’’اپنےوالد کی محنتوں، قربانیوں سے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے؟‘‘
ہم نے پوچھا، تو نیاز احمد کے بچّے کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’یہ ٹھیک ہے کہ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، لیکن ہمارے والد بھی اُتنے ہی عظیم ہیں، جتنی والدہ تھیں۔ ہر والدین کی طرح ہمارے والدین کا بھی خواب تھا کہ ہم اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کریں ، لیکن یہ مشن ابّو نے اکیلے پورا کیا۔ آج ہم چاروں بہن، بھائی نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اعلیٰ عُہدوں پر بھی فائز ہیں۔ بہن ثمرین فاطمہ متّحدہ عرب امارات یونی ورسٹی میں، نوید الرّحمٰن ، ہم درد یونی وَرسٹی میں لیکچرار ہیں، تو ایک بہن عائشہ فاطمہ انڈسٹریل مینو فیکچرنگ انجینئر اور سب سے چھوٹا بھائی، محمّد الرحمٰن ایس اے پی کنسلٹنٹ ہے۔ سچ کہیں، تو در حقیقت یہ کام یابیاں ہماری نہیں، ہمارے والدین، خاص طور پر والد کی مرہونِ منّت ہیں۔‘‘
ایس ایم کالج کے سابق وائس پرنسپل، کئی کتابوں کےمصنّف ، سیّد شرافت علی کی ہم سفر، بیگم نجمہ عین جوانی میں مختصر علالت کے بعد پانچ کم سِن بچّوں(چار بیٹے، ایک بیٹی) کو باپ کے حوالے کرکے دارِ فانی سے کُوچ کر گئیں۔ شرافت علی نے اپنے سفرِ زندگی سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ’’میری اہلیہ کا انتقال 1975ء میں ہوا۔ اُس وقت ہم لوگ دستگیر میں قائم ایس ایم کالج کی’’ ٹیچرز ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ میں رہتے تھے۔ جب بیگم کا انتقال ہوا، تو ہمارے بچّے بہت چھوٹے تھے، جنہیں دیکھ دیکھ کر مَیں سوچتا کہ مَیں تو دن بھر کالج میں ہوتا ہوں، تو ان کی پرورش، بہترین تربیت کیسے کرپاؤں گا، لیکن یقین جانیے مجھے اہلِ محلّہ سے بہت سہارا ملا۔
کہنے کو تو ہم محلّے دار تھے، لیکن لگتا ایسے تھا، جیسے ایک خاندان ہوں۔ مَیں صبح سویرے بچّوں کو ناشتا وغیرہ کرواکے، اسکول بھیج کر خود کالج چلا جاتا اور شام تک لَوٹتا ، لیکن اس دوران بچّوں کے کھانے، پینے کا سارا خیال محلّے والے ہی رکھتے تھے۔ وہ جیسے اپنے بچّوں کی دیکھ بھال کرتے، ویسے ہی میرے بچّوں کا بھی دھیان رکھتے۔ پھر میرے بچّے بھی اس قدر سمجھ دار تھے کہ انہوں نے کبھی مجھے پڑھائی سے لے کر کسی بھی حوالے سے تنگ نہیں کیا۔ جس وقت ان کی ماں اس دنیا سے رخصت ہوئی، یہ بہت چھوٹے تھے۔ انہیں ماں کی کمی یقیناً بہت محسوس ہوتی ہوگی، لیکن انہوں نے کبھی مجھے اس بات کا احساس نہیں دلایا۔
مَیں نے پوری کوشش کی کہ بچّوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کوتاہی نہ ہو، اس لیے کبھی ماں کی طرح دُلار سے، تو کبھی باپ کی سختی سے سمجھایا۔مجھے ہر قدم پر اپنی بیوی کی ضرورت، شدید کمی محسوس ہوتی تھی، لیکن مَیں گھبرایا نہیں، ورنہ بچّوں کو اکیلے پالنا بہت مشکل ہوجاتا۔ ہاں، مَیں اس ضمن میں اہلِ محلّہ کا حددرجہ ممنون ہوں۔ اب مَیں گزشتہ کئی برس سے اپنے بچّوں کے ساتھ امریکا میں مقیم ہوں۔ یہاں بھی سنگل فادرز دیکھتا ہوں، لیکن جس طرح کی پریشانیاں اِنہیں فیس کرنا پڑتی ہیں، الحمدللہ مجھے کبھی اُن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ‘‘ ’’آپ کے والد ، ماں کی کمی پوری کرنے میں کس حد تک کام یاب رہے؟‘‘
ہم نے پوچھا، تو شرافت علی کے بیٹے ،ظفر شرافت نےکہا ’’میرے خیال میں والدین ایسی عظیم نعمت ہیں، جن کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ لیکن، جب وقت پڑتا ہے ناں تو باپ، ماں اور ماں، باپ بھی بن جاتی ہے۔ یہ والدین ہی ہوتے ہیں، جو اپنی اولاد کے لیے ہر مشکل ہنستے مُسکراتے برداشت کر لیتےہیں۔ ہم سب بہن بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، امریکا میں مستحکم زندگیاں گزار رہے ہیں اور ایسا صرف ابّا کی وجہ سے ممکن ہوپایا۔
ہم آج جس بھی مقام پر ہیں، انہی کی بدولت ہیں۔ ویسے تو انہوں نے ہمارے لیے اَن گنت قربانیاں دیں، لیکن سب سے بڑی قربانی دوسری شادی نہ کرنا تھی۔ جس وقت امّاں کا انتقال ہوا، وہ جوان تھے، چاہتے تو شادی کر سکتے تھے، لیکن ہمارے بہتر مستقبل، ذہنی سُکون کی خاطر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم بچپن میں اپنی والدہ کے سائے سے ضرور محروم ہوگئے تھے، لیکن اُن کے حصّے کا سارلاڈ پیار ہمیں ابّا سے مل گیا۔‘‘
بزنس مین محمّد طالب احمد دو بچّوں کے والد ہیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بولے ’’3 فروری 2022ءوہ دِن تھا، جب میری بیوی نے آغا خان اسپتال میں آخری سانس لی۔ وہ ایک صحت مند، زندہ دِل اور بے حد محبّت کرنے والی عورت تھی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ’’موت کا ایک وقت معیّن ہے اور ہم جانے والوں کو نہیں روک سکتے‘‘ تو مَیں بھی لاکھ کوششوں کے باجود اپنی ہم سفر، اپنے بچّوں کی ماں کو نہ روک سکا۔ ایک دِل کا دَورہ رمشہ کو ہم سے دُور، بہت دُور لے گیا، مَیں اپنے بچّوں (5 سال کی بیٹی اور 6 سال کے بیٹے)کے ساتھ تنِ تنہا رہ گیا۔
ابتدا میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ بچّوں کی خاطر خود کو سنبھالا کہ اگر مَیں ہی کم زور پڑ گیا تو ان معصوموں کا کیا ہوگا۔ پھر مَیں نے ’’قصص الانبیا ؑ‘‘پڑھے، غور و فکر کیا کہ اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ بندوں کو کیسے کیسے آزمایا اور انہوں نے کس طرح صبر و استقامت سے کام لیا، تو میری زندگی میں بھی ٹھہراؤ آگیا۔ اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کی سکت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، تو بس میرے لیے بھی راستے آسان ہوتے چلےگئے۔
ویسے تو بچّوں کی اکیلے پرورش میں لاکھ دشواریوں، کٹھنائیوں کا سامنا ہے کہ ابھی وہ بہت چھوٹے ہیں، ماں کا جانا، اس کی غیر موجودگی کی وجہ سمجھ نہیں پارہے، لیکن ساس سُسر اور والدین کی وجہ سے بہت سہارا ہے۔ ہاں، مگر وہ وقت بہت مشکل ہوتا ہے، جب بچّے اپنی ماں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اکثر تو مَیں کہہ دیتا ہوں کہ ’’ماما حج پر گئی ہیں۔‘‘ جس پر وہ وقتی طور پر تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں، لیکن اُن کی آنکھوں میں چھپے سوالات میرا دِل چھلنی کرتے رہتے ہیں۔
ایک بات بتاؤں، اکثر باپ، جن میں پہلے مَیں بھی شامل تھا، یہی سوچتے ہیں کہ ہمارا کام بس بچّوں کو آسائشیں فراہم کرنا ہے، یقیناً ایسا بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ بچّوں پر توجّہ دینا، ان کی پرورش میں بیویوں کا ہاتھ بٹانا بھی ہمارا فرض ہے اور اس بات کا احساس مجھے اب ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگ میرے بچّوں کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ’’بے چاروں کی ماں چلی گئی‘‘ لیکن مَیں یہ سوچ کر خود کو تسلّی دیتا ہوں کہ کتنے خوش قسمت ہیں میرے بچّے، جنہیں کم از کم باپ کی محبّت، شفقت، دُلار تو میسّر ہے۔
مَیں اللہ کا شُکر ادا کرنا سیکھ گیا ہوں، ہر روز اُس سے یہی دُعا کرتا ہوں کہ میرے مالک! مجھے اس امتحان میں سُرخ رُو کرنا، شُکر ہے کہ تُو نے مجھے اپنے بچّوں کی پرورش، تعلیم و تربیت کے قابل بنایا۔ جہاں تک بات ہے معمولاتِ زندگی کی، تو پہلے مَیں زیادہ سے زیادہ چار، پانچ گھنٹے ہی ان کے ساتھ گزارپاتا تھا، لیکن اب کم از کم دس، بارہ گھنٹے گزارتا ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں رَمشہ کی کمی کبھی پوری نہیں کرپاؤں گا، لیکن میری پوری کوشش یہی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، بہرطور اس کمی کا ازالہ کر وں۔‘‘
عمّان میں مقیم ایک سیلز مین نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’میری شادی 2001ء میں ہوئی تھی اور مَیں سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ میرے اور شبانہ (اہلیہ)کے دو بچّے ہیں۔ شادی کے قریباً چھے، سات سال بعد ایک بار وہ اپنے والدین سے ملنے پاکستان گئی ،تو اُسے سینے میں درد اُٹھا، ڈاکٹر کے پاس لےجایا گیا، تو انہوں نے کچھ ٹیسٹس وغیرہ لکھ دئیے، جن کی رپورٹ ٹھیک نہیں آئی اور یوں ہمیں پتا چلا کہ اُسے بریسٹ کینسر ہے۔پاکستان ہی میں فی الفور علاج شروع ہوا، کیموتھراپی ، ریڈی ایشنز وغیرہ ہوئیں، قریباً ڈیڑھ سال تک علاج چلتا رہا، لیکن وہ کہتے ہیں ناں ’’موت کی کوئی دوا نہیں ہوتی‘‘تو علاج معالجے کی سخت تکلیف اُٹھانے کے باوجود وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔
انتقال کے وقت ہمارابیٹا پانچ سال کا اور بیٹی ڈھائی سال کی تھی۔ میرے لیے سعودی عرب میں بچّوں کو اکیلے پالنا ممکن نہ تھا، سو مَیں استعفیٰ دے کر ہمیشہ کے لیے پاکستان چلا گیا اور وہیں چھوٹے موٹے کام شروع کیے، لیکن کام یاب نہ ہوسکا۔ مگر اپنے کم سِن بچّوں کو اپنے والدین یا دیگر رشتے داروں کے سپرد کرکے دیارِ غیر جانابھی میرے ضمیر نے گوارہ نہ کیا، لہٰذا مَیں نے اپنی تمام تر توجّہ بچّوں پر مرکوز کرلی، انہیں اسکول لے کر جانا، کھانے پینے کا خیال رکھنا، کپڑے دھوناسب مَیں خود ہی کرتا تھا۔ البتہ کھانا وغیرہ میری امّی پکاتی تھیں۔
پھر جب بچّے تھوڑے بڑے ہوگئے، اتنے بڑے کہ خود کو سنبھال سکیں، تو مَیں نےایک بار پھر دیارِ غیر کا رُخ کیا اور عمّان آگیا۔ گوکہ میری ساری جمع پونجی بیوی کے علاج، بعد ازاں بچّوں کی تعلیم وغیرہ پر خرچ ہو چُکی ہے، لیکن میرا دِل مطمئن ہے کہ میرا جو بھی تھا، وہ اپنوں پر خرچ ہوا۔ اب ماشاء اللہ !میری بیٹی فرسٹ ایئر اور بیٹا یونی وَرسٹی میں ہے۔ بیٹا کہتا ہے’’بابا نے ہمارے لیے بہت محنت کی ہے، اب مَیں اُنہیں سُکھ دوں گا۔‘‘ تو بیٹی کو بھی میری صحت کی فکر رہتی ہے۔ شبانہ کے انتقال کے بعد گھر والوں، بالخصوص والدہ نے میری دوسری شادی کروانے کی بہت کوشش کی، اب تک رشتے بتاتے رہتے ہیں، لیکن مجھے یہ منظور نہیں۔ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی سوتیلی ماں، میرے بچّوں کی زندگی میں زہر گھولے۔ ویسے تو پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور ہر سوتیلی ماں بھی بُری نہیں ہوتی، لیکن مَیں اپنے بچّوں کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔‘‘
ایک اور بہت باہمّت باپ، ندیم جعفر تھانوی نے بھی بیوی سے علیحدگی کے بعد اپنی دو بیٹیوں کی اکیلے پرورش کی ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’جس وقت ہماری علیحدگی ہوئی، اُس وقت میری بڑی بیٹی، ناصحہ ساڑھے پانچ سال کی اور اُجالا چار برس کی تھی۔سچ کہوں تو وہ میرے لیے انتہائی مشکل وقت تھاکہ بچیاں اسکول بھی جاتی تھیں۔ اُنہیں صُبح اُٹھانا، تیار کرنا، بال بنانا، ناشتا کروانا، اسکول بھیجنا قطعاً آسان امر نہ تھا۔ مَیں نے اپنی بچّیوں کے لیے کھانا پکانا سیکھا ، تاکہ انہیں صحت بخش غذا کھلا سکوں، کوشش کرتا تھا کہ روز ہی لنچ میں کوئی ایسی چیز بناؤں، جو ان کی مَن پسند ہو،کیوں کہ مَیں جانتا تھا کہ پسندیدہ چیز نہ ملنے پر بچّے جنک فوڈز کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح کئی مرتبہ ان کے کپڑے بھی دھوئے کہ ماسی وغیرہ یونی فارم رگڑ کر نہیں دھوتیں، تو مَیں نہیں چاہتا تھا کہ ماں کے نہ ہونے سے میرے بچیاں اسکول میں احساسِ کم تری کا شکار ہوں۔ ایک مَرد کے لیے، کاروبار کے ساتھ پوری طرح گھرداری بھی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس طرح کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے، لیکن مَیں نے اپنی تمام تر توجّہ صرف اپنی بچّیوں پر مرکوز رکھی۔
یہاں ایک بات کا ذکر انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب بچّوں کی ٹیچرز کو ہماری علیحدگی کا علم ہوا، تو کچھ ٹیچرز نے یہ سوچ کر کہ اسکول کے معاملات تو مائیں ہی دیکھتی ہیں اور ان کی ماں تو اب ہے نہیں، کئی باتیں بنائیں اور ان پر توجّہ دینی بھی کم کردی، تو پھر مَیں اسکول گیا اور بات کی کہ ’’یہ نہ سمجھیں کہ بچیوں کا کوئی والی، وارث نہیں۔
آپ کا کام انہیں تعلیم دینا ہے، تو اس میں کوتاہی مَت برتیں۔‘‘ اسی طرح جب محلّے کے بچّے آپس میں کھیلتے اور کوئی لڑائی ہو جاتی، تو سب بچّوں کی مائیں بات کرنے آتیں، مگر اپنی بچیوں کے لیے مَیں جاتا، جس پر دوسری ماؤں کو اعتراض ہوتا اور اُن کے شوہر آجاتے کہ آپ نے ہماری بیویوں سے ایسے بات کی، تو مَیں سمجھاتا کہ بھئی، جیسے آپ کے گھروں سے آپ کی بیویاں بات کرنے آتی ہیں، تو اپنی بچیوں کی طرف سے مَیں آؤں گا۔ اسی طرح جب بچیاں بڑی ہونے لگیں اور ان کے ملبوسات اور دیگر ضروریات کی چیزیں خریدنے جاتا، تب بھی بالخصوص خواتین مجھے حیرت زدہ ہوکر دیکھتیں، لیکن مَیں نے لوگوں کے منفی رویّوں کا خود اثرلیا، نہ اپنی بیٹیوں پر ہونے دیا۔
مَیں نے اپنی اُجالا اور ناصحہ کو باپ بن کر ہی نہیں، ماں اور دوست بن کر بھی پالا ہے۔ بس، میری ایک ہی خواہش تھی کہ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواؤں، ان کی بہترین تربیت کروں، تاکہ معاشرے کو دو ذمّے دار انسان دے سکوں اور الحمدُللہ میری یہ خواہش پوری ہو ئی۔ آج ماشاء اللہ میری دونوں بیٹیاں شادی شُدہ ہیں اور اپنے گھروں میں خوش و خرّم زندگیاں گزار رہی ہیں، تو انہیں ہنستابستا،خوش حال، کام یاب دیکھ کر اکثر دِل میں خیال آتا ہے کہ مَیں کام یاب ہوگیا۔‘‘
اسد نسیم، بلوچستان کے معروف شاعر و ادیب نسیم احمد نسیم کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے والد کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تین بھائی ہیں، جب امّاں کا انتقال ہوا تو مَیں صرف تین برس کا تھا۔ ابّا چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے، لیکن ہم سوتیلی ماں کے ہاتھوں رُل نہ جائیں یا دوسری شادی کے بعد وہ ہم پر توجّہ نہ دے سکے تو ہمارا کیا ہوگا، یہ سوچ کر انہوں نے شادی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیں ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا ۔ ابّا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نظم و ضبط کے پابند تھے، یہی اوصاف انہوں نے ہم بھائیوں کی شخصیات میں بھی شامل کیے۔
محدود وسائل کے باوجود دوجگہ ملازمت، دِن رات محنت کی، تاکہ ہم کوئٹہ کے معیاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ آج ہم تینوں جس مقام پر بھی ہیں، ابّا ہی کی بدولت ہیں۔ مجھے آج بھی ان کے معمولات از بر ہیں، وہ ریلوے میں ملازم تھے ، تو علی الصباح ہی ڈیوٹی پر چلے جاتے ، ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھر آتے، تو گھر کےکام کاج نمٹاتے اور ہمارا ہوم ورک چیک کرتے۔پھر رات میں اخبار کے دفتر چلے جاتے ،جہاں وہ جزوقتی ملازمت کرتے تھے۔پیسا بچانے کے لیےکبھی سائیکل، تو کبھی پیدل ہی دفتر چلےجاتے۔ اخبار کے دفتر سے فراغت کے بعد گھر آ کر مطالعہ کرتے، نمازِتہجّد ادا کرتے اور سو جاتے، پھر فجر میں اُٹھتے۔
لیکن اس قدر مصروفیات کے با وجود وہ نہ صرف ہمیں بھرپور وقت دیتے، بلکہ تمام گھریلو اُمور بھی بخوبی نمٹاتے۔ صرف ہماری تعلیم کے لیے انہوں نے محکمہ ٔریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نجی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی، جو کماتے، سب ہم پر خرچ کر دیتے۔ اُنھیں اپنے لیے کبھی کچھ لینے کا خیال آیا، نہ لیا۔ ابّا کو ہم سے بچھڑے تین برس سے زائد کاعرصہ گزر چُکا ہے، لیکن کوئی پَل ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں ان کی یاد نہ آتی ہو۔ وہ اس قدر خود دار انسان تھے کہ مرتے دَم تک ہم پر بوجھ نہیں بنے، آخر وقت تک اپنی پینشن پر گزارہ کرتے رہے۔‘‘
اُمّ ورا نے اپنے باہمّت والد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’’جب امّی کا انتقال ہوا، تو وہ وقت ہم لوگوں سے زیادہ ابّو کے لیے مشکل اور کڑا تھا کہ ہم پانچ بہن، بھائی تھے اور سب ہی چھوٹے تھے۔ ہم دونوں بہنیں، بھائیوں سے چھوٹی تھیں، تو ابّو شروع ہی سے بھائیوں کو امّی کا ہاتھ بٹانے کی ہدایت دیتے، تو بھائیوں کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کی عادت تھی۔ اس طرح امّی کے بعد بھائی ہمارا اور ابّو کا بھی سہارا بنے۔ امّی کے انتقال کے بعد ابّو نے ہم بیٹیوں سے دوستانہ سا تعلق استوار کرلیا، تاکہ ہم ان سے قریب رہیں، جب کہ بھائیوں میں ابّو جیسی سختی آگئی۔
یعنی ہم نے ابّو میں ماں کی نرمی اور بھائیوں میں باپ کی سخت مزاجی محسوس کی۔ نیز، ہمیں اسکول، ٹیوشن سینٹر لانے، لےجانے کی ذمّے داری ابّو نے خود لے لی تھی کہ بیٹیوں پرکبھی کوئی آنچ نہ آئے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کے ساتھ گھر کی ساری ذمّےداری جس احسن طریقے سے نبھائی اور اب بھی نبھا رہے ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے۔
پھر میٹرک کے امتحان کے بعد اچانک ایک دِن میری جڑواں بہن کو تیز بخار ہوا اور وہ انتقال کر گئی۔ پہلے بیوی، پھر بیٹی کا جانا کسی باپ کے لیے اذیّت سے کم نہیں ہوتا، لیکن ابّو نے اپنی تمام تر تکلیفیں پسِ پشت ڈال کر ہمیں سنبھالا۔ یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ میرے سب سے بڑے بھائی اسپیشل چائلڈ ہیں، اپنا کوئی کام خود نہیں کر سکتے، تو کھانا کھلانے سے لے کر نہلانے دُھلانے تک اُن کے تمام کام آج تک ابّو ہی کرتے آئےہیں۔‘‘