ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ’چار آدمی‘ دراصل چار درویش صفت انسانوں کی کہانی ہے۔ اخوت کا جو کام آج سے سو سال پہلے سر گنگا رام نے شروع کیا تھا وہ ڈاکٹر رشید چوہدری، معراج خالد سے ہوتا ہوا امجد صاحب کے ذریعہ آج بھی جاری ہے یعنی ’بلا سود ‘قرضے اور ایک سو ارب دے کر بھی اس کی سو فیصد واپسی ،دیکھا جائے تو یہیں اصل میں ’’میثاق معیشت‘‘ ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر مجھے کچھ امید سی بندھی کے ابھی سب ختم نہیں ہوا آج بھی بے لوث خدمت کرنے والے موجود ہیں اور وہ بھی کسی نام و نمود کے بغیر، یہ خدمت کا وہ تصور ہے جو ناانصافیوں کے باعث پسے ہوئے طبقات کو خودداری کے ساتھ اوپر لا سکتے ہیں۔
آرٹس کونسل کراچی جہاں یہ تقریب منعقد ہوئی اس وقت پاکستان کے کلچر کی صحیح معنوں میں پہچان بن چکا ہے جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس کا سو فیصد کریڈٹ اس کے صدر احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔
اس دن بہت عرصے یکے بعد دیگر دو اہم کتابوں کی رونمائی ہوئی ’چار آدمی‘ اور 80کی دہائی کا کمیونسٹ لیڈر، جام ساقی کیس، کی مکمل روداد پر مشتمل کتاب جو نوجوان اسلم خواجہ کے پانچ سال کی محنت کے بعد مکمل کی۔
لہٰذا’چار آدمی‘ ایک نشست میں ختم نہیں کی کیونکہ احمد شاہ نے میرا نام مقرروں میں شامل کر کے مجھ پر غیر ضروری بوجھ ڈال دیا۔ اس سلسلے میں نوٹس لینے بھی ضروری تھے۔ بہرحال پڑھ کے بے انتہا خوشی بھی ہوئی اور حوصلہ بھی بڑھا۔
چاروں افراد کی اپنی اپنی کہانیاں اور قصہ ہیں مگر سب کے سب ایک غریب یا متوسط طبقہ سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ زندگی اور خوشی کا عنوان ان چاروں کی بحث کا بنیادی نکتہ ہے۔ چاروں نے اپنے اپنے انداز میں اپنی تربیت اور والدین کی شفقت کا بھی ذکر کیا ہے خاص طور پر ’’ماں‘ کے ذکر کے بغیر کوئی کہانی مکمل نہیں۔
دوستو…زیادہ نہیں آج کے معاشرہ کی ایک تصویر آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں جو دل رکھنے والوں کے دل دہلانے کیلئے کافی ہے یہ ایک پرانے۔
سی ایس پی افسر کی اہلیہ کی کہانی ہے جن سے ہمارے خاندان کا برسوں پرانا حیدر آباد سے تعلق رہا ہے۔ کوئی ایک ماہ پہلے کراچی کے ایک اولڈ ایج ہوم سے خبر آئی کہ ایک انتہائی پڑھے لکھے گھرانے کی ایک خاتون کا انتقال ہو گیا ہے۔ کسی جانے والےکے انتقال کی اطلاع ملنے پر افسوس تو ہوتا ہی ہے مگر دکھ اس بات کا زیادہ شدت سے ہوا کے پیغام ان کے بیٹے کی طرف سے ملا جو چند سال پہلے ماہ انہیں اسی ہوم میں چھوڑ گیا تھا ان کے رخصت کی خبر ملی تو میت لینے آ گیا وہ بہت پڑھی لکھی خاتون تھیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے چند سال پہلے درخواست کی کے ساری زندگی ’’ڈان‘‘ اخبار پڑھتے ہوئے گزاری ہے اب خرید نہیں سکتی۔ پھر انہیں اخبار ملنے لگا آخری دن تک چار آدمی میں فائونٹین ہائوس کا پڑھا تو مجھے ان کا خیال آگیا۔ خاندان، ختم ہو جائے تو معاشرہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
اب سرگنگا رام کو ہی لے لیں، ’ہندو بیوہ گھر، بنایا تو اپنے نام کی تختی نہیں لگوائی۔ کتاب میں اس عمارت پر نصب کتبہ کا عکس بھی نظر آئے گا۔ اس کا افتتاح 1921میں اس وقت کے وائس رائے نے کیا تھا۔ یہاں تو بھائی لوگ صرف سڑک کو کارپٹنگ کرواتے ہیں تو کتبہ نصب کر دیتے ہیں حالانکہ سڑک انہیں کی بنوائی ہوتی ہے۔ مہیاری سڑکیں بنواتے تو اس کی ضرورت ہی پیش نا آتی۔ چند سال پہلے ایک خاتون صوبائی وزیر نے اپنے گھر کے سامنے کی سڑک بنوائی تو اپنے نام کی تین تختیاں لگوایں۔ بقول جون بھائی؎
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
مگر وہ گنگا رام تھا جب اس سے سوال ہوا کے اپنا نام کیوں نہیں لکھوایا تو بولے نام میں کیا رکھا ہے۔ اصل خدمت وہی ہے جو نام و نمود کے بغیر ہو بعد میں لوگ نام خود رکھ لیتے ہیں ایسے لوگوں کے حوالے سے۔ یہاں تو تخت بدلتے ہیں تو تختیاں تک بدل جاتی ہیں جس کا مذاق اپنے انداز میں عمر شریف مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا ’’بھائی اس کے ٹھیکیدار نے مال بنایا ہے تو میرا ٹھیکیدار نا بنائے۔ اب ہم بھی یہ سڑک کو دیں گے اور پھر بنایں گے‘‘۔ کتاب کا اندازہ بیان اور تعارف بڑا مختلف ہے۔
آپ پڑھیں گے تو کسی اعلیٰ معیار کے ڈرامہ کا اسکرپٹ نظر آئے گا۔ ڈاکٹر امجد فاونٹین ہاؤس میں داخل ہوتے ہیں اور سامنے گنگا رام، رشید چوھدری اور معراج خالد کو دیکھ کر کہتے ہیں میں بیٹھ سکتا ہو ں تینوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے اور گفتگو شروع ہوتی ہے اور تینوں باری باری اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ موضوع سے ’’زندگی کیا ہے، خوشی کسے کہتے ہیں۔ کامیابی کیسے ملتی ہے‘‘۔
گنگا رام رشید چوھدری سے کہتے ہیں۔ ’’تم میرے دوست ہو مگر یہاں پچاس سال پہلے مجھ سے پوچھے بغیر آگئے اور اس عمارت کو فاونٹین ہائوس بنا دیا۔ اس لیے پہلی کہانی کا آغاز تم سے ہو گا۔ ‘‘ انہوں نے حامی اس شرط پر بھری کے ان کے بعد معراج خالد اپنی کہانی سنائے گا۔ گنگا رام نے حقے اور معراج خالد نے سگریٹ کا کش لیا اور چوھدری نے گفتگو کا آغاز کیا۔
چوھدری نے اپنی کہانی کا آغاز ماں کے ذکر سے کیا۔’’ میری زندگی کو سنوارنے میں ان کا بڑا کردار ہے‘‘۔ پھر وہ اسے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ میں جب یہ پڑھ دیا تھا تو مجھے وہ ماں یاد آگئی جو اولڈ ایج ہوم میں تھی۔ مری تو بیٹا میت لینے آگیا۔
اس کتاب کے چاروں کردار میں ایک مشترکہ صفت ان کا کردار سے ۔ چوھدری صاحب نے بتایا کہ ان کا تعلق کاشت کار گھرانے سے ہے۔ وہ امیر ہو یا غریب اس کی ساری زندگی زمین کے گرد گھومتی ہے۔ ان کے بقول جن کے بچے پڑھ لکھ جائیں ان کی سوچ بھی پٹواری اور تحصیل دار سے آگے نہیں بڑھتی۔ جس کا بیٹا پٹواری ہو جائے وہ یہ سمجھتا ہے کہ گویا گھر میں بادشاہت آگئی۔
رشید چوھدری جن کا انتقال 2014 میں ہوا تقسیم کے بارے میں لکھتے ہیں ’’کتنا مشکل ہے تیرے شہر سے ہجرت کرنا‘‘۔ انہوں نے منقسم خاندانوں کی پوری داستان بیان کر ڈالی۔ ’’یادوں کے یہ نشان اس نسل کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ آنے والی نسلیں ہجرت کی اس کہانی کو فراموش کر دیں گی۔ جو جہاں ہے وہ وہیں کا ہو جائے گا۔ نیا گھر، نئی کہانی،آبائو اجداد کے چند زخم، چند نشان باقی رہ جائیں گے۔
ان نشانوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے تاکہ ایسا سانحہ دوبارہ جنم نا لے۔ زندگی معاف کر دینے میں ہے اور معافی سے بہتر راستہ کوئی نہیں۔ انتقام لینے والی کی بڑی سے بڑی جیت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ بدلہ لینے میں کامیاب ہو جائے۔ وہ انتقام لے سکتا ہے جیت نہیں سکتا۔
ڈاکٹر رشید چوھدری نے ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا‘‘ ہے کا پس منظر بھی بیان کیا جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کے اس فنکارہ اور رقاصہ کے معالج بھی وہی تھے جب اس نے خواب آوار گولیاں کھالی تھیں۔ حکم قصر شاہی سے نازل ہوا تھا۔ یہ سچا واقعہ کو جالب نے اپنی نظم ’’رقص رنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔‘‘ لکھ کر پورا واقعہ سنا ڈالا قلم زوق میں۔
آخری کردار معراج خالد ہماری سیاست کا اعتبار اور فخر میں نے ان کے نام سے پہلے ملک نہیں لگایا کیونکہ وہ خود پسند نہیں کرتے تھے نا ہی میں نے سابق وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ لگایا کیونکہ یہ عہدہ ان کے سامنے بہت معمولی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ درویش انسان تھے اس لیے سرکار کے ساتھ زیادہ نا چل سکے۔ نقصان سرکار کو ہوا انہیں نہیں۔
وہ اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر نامزد ہوئے تو ایک لڑکے نے لکھا ’’ اب دودھ بیچنے والا ہمارا ریکٹر بنے گا۔ انہیں پتا چلا تو اسے بلایا لڑکا گھبرایا ہوا تھا۔ کہنے لگے ’’بیٹا تم نے غلط نہیں لکھا بس ایک اضافہ کر دوں میرے اور والد کے پاس جوتے کا ایک ہی جوڑا تھا، وہ کام سے واپس آتے تو میں پڑھنے کے لئے وہی جوتا پہن کر جاتا تھا۔‘‘
ایسا ہی کچھ گنگا رام کے ساتھ ہوا واقعہ سعادت حسن منٹو نے بیان کیا۔ ’’ایک مظاہرہ میں لوگوں نے اس کے مجسمہ کو گرا دیا، خاصہ ہنگامہ ہوا لوگ زخمی ہوئے مگر سب کا علاج گنگا رام اسپتال میں ہوا۔ مجسمہ تو اس نے لگوایا ہی نہیں تھا البتہ دکھ اس کو زخمی ہونے والوں کا تھا۔
ڈاکٹر امجد نے یہ ساری باتیں خوبصورت انداز میں بیان کر دی۔ انہوں نے اسلامیہ اسکول کے بنانے کا ذکر کیا تو مجھے اپنے والد یاد آگئے جو خود ایک درویش صف انسان تھے کس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر سٹی کالج حیدر آباد کی بنیاد ڈالی کیونکہ اس وقت شام کا کوئی کالج نہیں تھا۔ ان کے لئے جو نوجوان صبح نوکری کرتے تھے جن خاتون کا اولڈ ایج ہوم میں انتقال ہوا ان کے شوہر بھی اس کے بانیوں میں سے تھے۔