• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے مابین اختیارات کی جنگ

وفاق کی جانب سے نئے مالی سال بجٹ پیش ہوچکا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور ان سطور کی اشاعت سے قبل ہی صوبے کے نئے مالی سال 2022-23 کا بجٹ پیش ہوچکا ہے، تاہم صوبائی بجٹ کے خدوخال اور اس کے اعداد و شمار پر اگلے ہفتے ہی تبصرہ کیا جاسکے گا کیا کہ نئے صوبائی بجٹ میں عوام کو ریلیف دی گئی ہے یا وفاق کی طرح صوبائی بجٹ بھی عوام کے لئے مہنگائی کا طوفان لے کر آتا ہے، مگر صوبائی بجٹ سے قبل ہی صوبائی حکومت نے وفاق کو وفاقی بجٹ میں صوبے میں ضم قبائلی اضلاع کے بجٹ کو کم کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے، اور وفاقی حکومت پر الزا م لگایا ہے کہ وہ تعصب کا مظاہرہ کررہی ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کے مطابق ان کی وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ تضادات کومجموعہ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ قبائیلی اضلاع کے انضمام کے بعد پہلی بار قبائلی اضلاع کے لئے بجٹ میں پچھلے مالی سال سے کم فنڈز مختص کئے گئے ہیں، قبائلی اضلاع کے متاثرین کے مسمار شدہ گھروں کی بحالی کیلئے اگلے مالی سال میں فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔

تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سابقہ فاٹا کے بجٹ کو چار سال میں 40 ارب سے بڑھا کر 131 ارب روپے تک پہنچایا جبکہ ہماری حکومت کی گزشتہ مالی سال میں 131 ارب روپے کے مقابلے میں موجودہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے قبائلی اضلاع کے بجٹ کو صرف 110 ارب روپے کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کے مسمار شدہ گھروں کی بحالی کے لیے 17 ارب روپے اگلے مالی سال کے بجٹ میں بالکل ختم کر دئیے ہیں۔ 

ان اضلاع کے ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ 60 ارب روپے ہے اور اگلے مالی سال کے لیے بھی کرنٹ بجٹ 60 ارب روپے ہی دئیے جارہے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کے بعد 60 ارب روپے ناکافی ہیں۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ وفاق نے قبائلی اضلاع کے کرنٹ بجٹ میں 74 ارب روپے دینے کا وعدہ کیاگیا لیکن وعدے کے برعکس 74 کے بجائے 60 ارب روپے مختص کئے گئے، اس لئے مستقبل میں وفاق کے ساتھ تمام معاملات تحریری طور پر طے کریں گے۔

وفاقی حکومت کے متعصبانہ روئیے اورصوبائی حکومت کے الزامات سے قطعہ نظر اس ملک کی تاریخ خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کی قربانیوں بھری پڑی ہے ان کی قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اوران کی قربانیوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری مگراس کے باوجود ہر آنے والی حکومت نے ان پسماندہ علاقوں کے عوام کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے انہیں وہ حق نہیں دیا گیا ہے جوانہیں ملنا چائیے۔ 

سابق حکومت میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ہونےوالے فیصلے کے مطابق این ایف سی میں ان ضم شدہ اضلاع کے لئے تین فیصد حصہ دینے کا فیصلہ کیا گیا مگر سندھ اور پنجاب نے آج تک ان پسماندہ اضلاع کو اپنا حصہ نہیں دیا نہ ہی اس پر عمل کیا بلکہ واضح طور پر اس سے انکار کیا گیا، اور آج جب وفاقی سند ھ اور پنجاب سے تعلق رکھنےوالی جماعتوں کے حکمرانی ہے تو وفاقی بجٹ میں ان پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ 

ادھر صوبائی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے مابین اختیارات کی جنگ کی صدائے بازگشت سامنے آئی ہے اور سنا ہے کہ بات وزیراعلیٰ تک پہننے کے علاوہ اختلافات، میں اس قدر شدت آچکی ہے کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر سے قائم قام اسپیکر کے اختیارات بھی واپس لئے ہیں، سیاسی حلقوں کے مطابق اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے درمیان اختیارات کی جنگ اسمبلی سیکرٹریٹ میں بعض آسامیوں پر بھرتی کے باعث سامنے آئے ہیں۔ 

سا بق گورنر شاہ فرمان کی جانب سے گورنر شپ سے استعفے کے بعد سے اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی قائم قام گورنر جبکہ ڈپٹی اسپیکر قائم قام اسپیکر کے عہدے پر فائز ہیں، سیاسی حلقوں کے مطابق کچھ عرصہ قبل اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے مختلف آسامیوں پر بھرتیوں کیلئے اشتہار دیا گیا تھا۔ 

اپریل میں جب اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی قائم قام گورنر بن گئے تو ڈپٹی اسپیکر محمود جان کو قائم مقام اسپیکر بنایا گیا اور انہیں اسپیکر کے تمام اختیارات تفویض کر دیئے گئے۔ گزشتہ دنوں خبر گردش کرنے لگی کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر سے تمام اختیارات واپس لئے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے خبردار کیا تھا کہ بھرتیوں میں انہیں بھی حصہ دیا جائے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ یہ بھرتیاں ٹیسٹنگ ایجنسی کے حوالے کردیں گے۔ 

جس پر قائم قام گورنر اور اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی نے فوری طور پر ڈپٹی اسپیکر سے قائم قام اسپیکر کے تمام اختیارات واپس لینے کا اعلامیہ تک جاری کردیا، بعدازان ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ محمود خان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور اجلاس کی صدارت سے بھی معذوری ظاہر کی۔

اس حوالے سے جب ڈپٹی اسپیکر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان سے اختیارات واپس لینے کا سوال قائم مقام گورنر مشتاق غنی سے پوچھا جائے، ڈپٹی اسپیکر کے اس پر شکوہ جواب اس بات کی تصدیق تو ہوگئی کہ اسپیکر اور ان کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ 

صوبائی اسمبلی میں تقرریوں کا معاملہ کوئی نیا ہیں ہر دور میں اسپیکر نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھرتیاں کی گئی ہیں، اور اس حوالے ہمیشہ بے قاعدگیوں کے الزامات بھی عائد کئےجاتے رہیں، ماضی میں بھی تقرریوں میں ڈپٹی اسپیکر کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے کہ بدقسمتی سے صوبائی اسمبلی کے تمام اختیارات اسپیکر کے پاس ہوتے ہیں اور ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ محض ایک نمائشی عہدے تک محدو د ہوچکا ہے جس کا کام اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کی صدارت کرنا ہوتا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید