• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریپ ٹرائلز میں مدد کیلئے عدالتوں کو ٹیکنالوجی اور اسٹاف کو اسپیشلسٹ ٹریننگ کے ساتھ اپ گریڈ کرنے کی پائلٹ اسکیم

لندن (پی اے) حکومت کا کہنا ہے کہ کراؤن کورٹس کو بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ گریڈ کیا جائے گا جبکہ ریپ ٹرائلز میں مدد کیلئے سٹاف کو سپیشلسٹ ٹریننگ دی جائے گی۔ نیوکاسل، لیڈز اور لندن میں پائلٹ پروگرام کے دوران کورٹس میں وکٹمز کی سپورٹ کیلئے انڈی پینڈنٹ ایڈوائزر آن ہینڈ موجود ہوں گے۔ سال رواں کے اوائل میں پولیس اینڈ کورٹ واچ ڈاگ نے کیسز کے بیک لاگ کو کلیئر کرنے میں مدد کے سلسلے میں سپیشلسٹ ریپ کورٹس کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک وکٹم کو پانچ سال تک اپنے ریپ ٹرائل کی سماعت کیلئے انتظار کرنا پڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے جنریشن آف ویمن کو سسٹم پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ سال رواں کے اوائل میں بی بی سی نیوز کے مرتب کردہ اعداد و شمار میں پتہ چلا ہے کہ سیریس سیکسوئل آفنسز کو کرائون کورٹس سے گزرنے میں ریکارڈ طویل ترین وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک متاثرہ خاتون ایلا، جس نے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا، کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال سے انتہائی مایوس اور ناامید ہے اور وہ تھک چکی ہے۔ وہ بھی ان اعداد و شمار کے پیچھے رہنے والی ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس نے 2018 میں پولیس کورپورٹ کیا تھا کہ اسے ریپ کیا گیا ہے، ابتدا میں پولیس نے انویسٹی گیشن بند کر دی تھی لیکن جب اس نے دوبارہ شکایت کی اور نظرثانی کا مطالبہ کیا تو گزشتہ سال اس کے کیس میں مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ منگل کو اسے بتایا گیا کہ اس کا مقدمہ تاخیر کا شکار ہو جائے گا اور جون 2023 سے پہلے مقدمے کی سماعت نہیں کی جائے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل جب میں نے ریپ کی پہلی بار اطلاع دی تھی تو ٹرائل کیلئے اتنا طویل وقت لگا تھا لیکن اس پوری صورت حال کے بارے میں کیسا محسوس کرتی ہوں، اگر اس کیلئے ایک لفظ کاانتخاب کرنے کیلئے کہا جائے تو وہ انتہائی مشکل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بہت آسان ہےکہ ناراض ہوں لیکن اس طرح سے کوئی فرق یا تکلیف میں کمی نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خود کو انتہائی مایوس، ناامید اور تھکی ہوئی محسوس کرتی ہوں۔ انہوں نےکہا کہ یہ ناقابل یقین حد تک تھکا دینے والا ایک عمل ہے لیکن میں بنیادی حق پر یقین اور حصول کیلئے لڑتی اور جدوجہد کرتی رہوں گی۔ پائلٹ سکیم کے حصے کے طور پر کیسز پر کام کرنے والے تمام کورٹ سٹاف، پولیس اور پراسیکیوٹرز کو ٹراما ٹریننگ دی جائے گی۔ ہر کرائون کورٹ میں ایک کمرا ریپ ٹرائلز کیلئے درکار اپ گریڈڈ ٹیکنالوجی کیلئے مختص کیا جائے گا جیسا کہ گواہوں سے پہلے سےریکارڈ شدہ کراس ایگزامینیشن کو دکھانے کے ذرائع وغیرہ۔ جسٹس سیکرٹری ڈومینک راب نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا کورٹ لسٹنگ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور انہیں عدالتی آزادی حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورٹس صرف ریپ کیسز کیلئے کورٹ رومز کو مختص نہیں کر سکتی ہیں لیکن جسٹس سیکرٹری ڈومینک راب نے کہا کہ ایسٹ لندن میں نیو کاسل، لیڈز اور سنیئرزبروک میں کورٹ رومز میں ضروری ٹیکنالوجی اور ٹریننگ ہوگی۔ ریپ وکٹمز کو کورٹ میں سپورٹ فراہم کرنے کیلئے انڈی پینڈنٹ سیکسوئل ایڈوائزرز بھی ہوں گے۔ انہوں نے شیفلڈ میں ریپ کرائسس سینٹر کے دورے کے موقع پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کورٹ رومز ان ریپ کیسز کی ترجیحات کیلئے مختص ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مخصوص ایریاز کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، جہاں ریپ اور سیکسوئل وائلینس کے کیسز کا والیوم بہت زیادہ ہے اور ان ایریازمیں ایسے مختص کورٹس رومز کی بہت زیادہ ضرورت ہے یا دوسری صورت میں ریپ اینڈ سیکسوئل وائلینس کیسز کا والیوم مزید بڑھ جائے گا۔ سال رواں کے اوائل میں حکومت کی ایک رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا۔ ریپ وکٹمز کو ریپ آفنس کی رپورٹنگ اور اس کیس کے کورٹ تک پہنچنے تک اوسطاً 706 دنوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کیلئے دسمبر 2021 تک کےاعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے 67125 کیسز ریکارڈ کئے گئے تھے، 2020-2021 میں صرف 1557 پراسیکیوشنز ہوئے۔ خدشہ یہ ہے کہ طویل انتظار کی وجہ سے ریپ کیسز کی رپورٹنگ کرنے والے وکٹمز اپنے حملہ آوروں کا پیحھا کرناچھوڑ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک کی وجہ سے کورٹ میں تاخیر ہوئی ہے لیکن بیرسٹرز اس کا مورد الزام فنڈنگ کٹوتیوں کو ٹھہراتے ہیں۔ جسٹس سیکرٹری ڈومینک راب نے منسٹری آف جسٹس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا اور کہا کہ 2020 کے مقابلے میں 2021 میں ریپ کیسز میں سزائوں میں 67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ہم ریپ کیسز میں سزائوں کے والیوم کو بڑھانا چاہتے ہیں، میرے خیال میں یہ بالآخر ایسڈ ٹیسٹ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس کام کو زیادہ تیز کرنے کیلئے بے تاب ہوں لیکن ایلا اس حوالے سے کلیئر ہیں کہ اس سلسلے میں ابھی مزبد بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کی پوری جنریشن کو جسٹس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ صوہرت حال اپنے بچوں کو منتقل کر رہے ہیں اور وہ بھی اسے اپنے بچوں تک منتقل کریں گے لیکن صرف زیادہ سپیشلسٹ کورٹس لگانے کی ایک سادہ سٹرکچرل تبدیلی کے ساتھ۔

یورپ سے سے مزید