محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: اسرائیل انصاری
ہماری معیشت جب ہی چلے گی، جب ہماری صنعتوں کا پہیہ چلے گا،آپ صنعتوں کو چلنے دیں، بعض خام مال پر ڈیوٹی لگادیں جو پہلے نہیں تھیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرے، اس سے روزگار ملے گا۔ حکومت کوسیلز ٹیکس ملتا ہے، حکومت کو چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ صنعتی شعبے کی مد د کرے، خاص طور پروہ صنعت جو مقامی طور پر اشیا تیار کررہی ہیں ،وہ ملکی ڈالر بچارہے ہیں، نئی صنعت کے لیے پانچ سال تک ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا جائے، گوادر میں تو صنعتیں لگنا چاہییں، وہاں سمندر قریب ہے، بندرگاہ بھی ہے، حکومتیں ایک دوسرے کی مثبت پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں، ہم سے کوتاہی یہ ہوئی کہ دنیا میں جب کمیوڈیٹیز کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ،ہم اس پر مناسب فیصلہ نہ کرسکے،وہاں قیمتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم درآمدات بڑھائے جارہے تھے،آئی ایم ایف سے معاہدے ہوتے ہی آپ کے تمام اشاریے مثبت ہوجائیں گے اور آپ کا روپیہ بھی آہستہ آہستہ مضبوط ہوجائے گا۔
زبیرطفیل
یہ سال کچھ لینے کا نہیں حکومت کو دینے کا ہے،حکومت نے کمزور لوگوں کو خاص طور پر نوکری پیشہ کو ریلیف دیا ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی فنڈ بڑھایا ہے،ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ یاڈالر کی کمی یا گرتا ہوا فارن ریزرو ہے،جس کی وجہ سے روپے کی قیمت کم ہورہی ہے، جس شخص کو تھوڑی بھی سمجھ ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لو، آئی ایم ایف کاپروگرام ایسا ہی ہے۔
جیسے کوئی آپ کو موت دکھا کر بخار کے حوالے کردے، موت سے مراد ڈیفالٹ ہے اور ٹیکس کے اضافے کو بخارسمجھیں، قوم کو سولر انرجی کی طرف جانا ہوگا، میں اسے غریب ہی نہیں سمجھوں گا جو سولر پینل استعمال نہیں کررہا، سولر پینل کے لیے سبسڈی دے جائے یا پروڈکٹ بنا کر عوام اسے کسی سرمایہ کاری یا ڈیپازٹ سے قسط وار لے سکیں،اس طرح مہنگے غیر ملکی ایندھن سے نجات ملے گی
عارف حبیب
آئی ایم ایف کے معاہدے کے حوالے سے اگر میری رائے لیں تو میں کہوں گا یہ معاہدہ فوری ہوجائے ،کیوںکہ اس سے ہمیں وہ چھتری ملے گی، جس سے ملک میں موجودہ معاشی غیر یقینی ختم ہونے میں فوری مدد ملے گی،غیر یقینی فضا سے ڈالر دو سو دس اعشاریہ پانچ پیسے پر پہنچ گیا ہے ہمارے ریزرو9بلین ڈالر پر آگئے ہیں ،جتنا جلد آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگا، دیگر ڈونر ایجنسیز سے لائن آف کریڈٹ بھی جاری ہوگا۔
عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوست ممالک جن میں سعودیہ، متحدہ عرب امارات اور چین وغیر ہیں ،ان سے سافٹ ڈیپازٹ رول اوور ہوں گے، ریزرو بڑھنے سے روپیہ مستحکم ہوگا،ہم نو دس ارب ڈالر کا گندم چینی دالیں وغیرہ درآمد کرنے کےمزید متحمل نہیں ہوسکتے ،ہمیں ہرصورت زرعی خود کفالت پر جانا پڑے گا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
ایک تشویش ناک بات یہ کہی جارہی ہے پاکستان ٹیکنیکلی ڈیفالٹ ہوگیا ہے، ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے اس پر ٹوئیٹ بھی کی ہے اور سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا صاحب کا کہنا ہے کہ حالیہ پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح23فیصد تک جائےگی ہے، انہوں نے یہ بات گزشتہ روز شائع اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہی ہے۔
دوسرا ا بڑا چیلنج آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا ہے،کہاجارہا ہے کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف شرائط کو مدنظر رکھ کر ہی تیار کیا گیا ہے۔ جس سے امید کی جارہی ہے کہ معاہدہ ہونے سے حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ تیسرا یہ کہ مہنگائی بڑھی تو اس سے عوام اور ملک دونوں کی معیشت اور حالات پر کیا فرق پڑے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم معیشت کی بہتری کے لیے بنیادی تبدیلی کی طرف نہیں جاتے علامتی اقدامات ا ٹھاتے ہیں۔
کیا یہ بجٹ اس مرتبہ بنیادی تبدیلیوں کی طرف گیا ہے یا ماضی جیسی صور ت حال ہے۔ آپ شرکا سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ موجودہ بجٹ کےاہم مثبت اور منفی پہلو کیاکیا ہیں۔ بجٹ کے بارے میں ماہرین کی آرا کے لیے پوسٹ بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں زبیر طفیل( سابق صدر، ایف پی سی سی آئی) عارف حبیب ( چیئرمین عارف حبیب گروپ) اور ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ (کالمسٹ/ سابق چیئرمین، سائٹ ایسوسی ایشن ) نے اظہار خیال کیا جنگ فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
عارف حبیب سینٹر میں ’’بجٹ، مثبت کیا منفی کیا؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ پوسٹ بجٹ جنگ فورم کی رپورٹ
جنگ :مرزا اختیار بیگ صاحب آپ مختصراً یہ بتادیں حالات کیا ہیں اور بجٹ کیسا ہے۔
مرزا اختیار بیگ: اس مرتبہ جو بجٹ آیا ہے وہ مختلف نوعیت کا ہے، مشکل ترین حالات میں یہ بجٹ بنایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا مشاورتی ہونا بجٹ کے مشکل ہونے کی وجہ ہے۔ بجٹ کے لیے ہدایت شرائط اہداف آئی ایم ایف کی مشاورت سے طےکئے گئے ہیں۔ جیسےٹیکس ریونیو کا ہدف 704ارب روپے یہ سب آئی ایم ایف نے بتایا تھا،اسی بنیاد پر حکومت نے زیادہ تر اقدامات کیے ہیںاورکچھ کا بعد میں کرنے کا ارادہ ہے۔ اہم چیزوں میں سبسڈی کا خاتمہ اور جو ابھی تھوڑی بہت باقی ہیں ان کا بھی خاتمہ ۔حکومت جو سبسڈی جاری رکھے ہوئے ہے اس کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے آئی ایم ایف کو یہ بھی آگاہ کرنا ہوگا،تو اس لحاظ سے یہ بجٹ مشکل ترین ہے۔
بجٹ کا عوام اور کاروباری برادری دونوں کو اس کے سخت اثرات برداشت کرنا پڑیں گے، لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، آئی ایم ایف کے معاہدے کے حوالے سے اگر میری رائے لیں تو میں کہوں گا یہ معاہدہ فوری ہوجائے کیوںکہ اس سے ہمیں وہ چھتری ملے گی جس سے ملک میں موجودہ معاشی غیر یقینی ختم ہونے میں فوری مدد ملے گی۔ غیر یقینی فضا سے ڈالر دوسو پانچ اعشاریہ پانچ پیسے پر پہنچ گیا ہے ہمارے ریزرو9بلین ڈالر پر آگئے ہیں۔ جتنا جلد آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگا، دیگر ڈونر ایجنسی سے لائن آف کریڈٹ بھی جاری ہوگا۔
عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوست ممالک جن میں سعودیہ ،متحدہ عرب امارات اور چین وغیر ہیں ان سے سافٹ ڈیپازٹ رول اوور ہوں گے۔ ریزرو بڑھنے سے روپیہ مستحکم ہوگا۔ لہذا میرے خیال سے حکومت کےلیے ابھی سب سے اہم آئی ایم ایف سے ہر صورت معاہدہ کی بحالی ہونا چاہیےجو ابھی معطل ہے۔دوسرا اس بجٹ میں دو تین چیزیں مکمل تبدیل اورپچھلے سالوں سے بالکل مختلف ہیں، پہلا اشرافیہ پر خوب ٹیکس لگایا گیا ہےجہاں بھی گنجائش نظر آئی وہاں لگایا گیا ہے۔
جنگ: آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ ڈائریکٹ ٹیکس کی طرف گئے ہیں۔
مرزا اختیار بیگ:ڈائریکٹ ٹیکس پر بھی گئے ہیں اور اشرافیہ کی دیگر زیراستعمال اشیا جیسے1600سی سی سے بڑی گاڑیاں ہیں اوور سیزکریڈٹ کارڈ کے بل،ڈھائی کروڑ سے اوپر کی پراپرٹی اگر ایک سے زیادہ ہے تو ان سب پر ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ بجٹ میں غریب کو ہی دبایا جاتا ہے اس بار لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غریب پر ہی مزید بوجھ ڈالا گیا ہے اس مرتبہ اشرافیہ پر ٹھیک ٹھاک ٹیکس لگایا گیا ہے۔
ہر بجٹ کی کوئی نہ کوئی سمت رہی ہے،جو سرکاری پالیسی کہلاتی ہے جو نظر آتی ہے، اس بجٹ میں نظر آنے والی حکومتی سمت یہ ہے کہ پچھلی حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو سپورٹ کیا تھا، ایمنسٹی بھی آئی ہوئی، ترغیبات دی گئیں، ٹیکس میں بھی چھوٹ تھی، سابق وزیراعظم عمران خان کی آباد کے چیئرمین سے ہفتہ وار میٹنگ ہوتی تھی۔ پھر ہم نے دیکھا اس میں مقامی اور بیرونی دونوں طرف سے بڑی سرمایہ کاری ہوئی۔ یہ کہا جاتا تھا کہ تعمیرات سے 37 سیکٹر منسلک ہیں تو اس سے ان سب کوبھی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ پچھلی حکومت کی سوچ تھی ،اسی کے مطابق پالیسی بنائی گئیں۔ لیکن اس بار تعمیراتی شعبے پر پھر ٹیکس لگائے گے ہیں۔
ٹیکس لگانے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس شعبے پر سرمایہ کاری ڈیڈ اورغیر پیداواری ہے۔یہ میری نہیں موجودہ حکومت کی ایک سوچ ہے۔صنعت کاری پر توجہ دینے کی بنیادی وجہ وہ اس پالیسی کے تحت وہ چاہتے ہیں کہ جوپیسے صنعت سے تعمیرات پر گئے ہیں وہ سرمایہ کاری دوبارہ صنعت پر کی جائے۔ صنعت کاری ہو، نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ برآمدات کی جاسکے ہمیں ڈالر کی ضرورت ہے تو ہمیں وہ ملیں۔ تیسرا پہلو زراعت کا شعبہ ہے جس کے متعلق حکومت کا خیال ہے کہ وہ نظر انداز ہوا ہے اس کی مدد کرنے کی ضرورت ہے میرا خیال ہے وہ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔
زراعت پر پھر توجہ دی گئی ہے، پچھلی حکومت نے اسے نظرانداز کیا ہوا تھا۔ہمارے زرعی شعبے اجناس برآمد کرتےتھے لیکن ان سالوں میں ہم درآمد کررہے تھے۔ ہم نے اس عرصےمیں 7بلین ڈالرز کی دالیں ،چینی ،کھاد درآمد کیں،چار بلین ڈالر کاتو خوردنی تیل تھا۔ اب کوشش ہے کہ اس طرف ہم خود کفیل ہوں،اور ہم مقامی طور پر یہ پیداوارحاصل کریں۔ ہماری طاقت زراعت ہے بابائے قوم کی بھی خواہش تھی کہ ہم زرعی صنعتی قوم کےطور پر پہچانے جائیں۔
جنگ : آپ کے رائے میں ہم زرعی خودکفالت کی طرف جارہے ہیں۔
مرزا اختیاربیگ: ہم نو دس ارب ڈالر کا گندم چینی دالیں وغیرہ درآمد کرنے کےمزید متحمل نہیں ہوسکتے ہمیں ہرصورت زرعی خود کفالت پر جانا پڑے گا۔ آخری بات ہم نے اپنی معیشت کو بڑھانے کےلیے 9لاکھ 80ہزار ٹن فرنس آئل درآمد کیااور17 بلین کے پٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیں۔مہنگی ایل این جی تھی ،جس میں فرنس آئل بنیادی تھا جس سے مہنگی بجلی پیدا ہوئی۔
لیکن اب ہمارے غیر ملکی ذخائر یہ خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔اسی لیے ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع پر جانا ہوگا۔ مقامی فیول جو پانی ہے دھوپ ہے،کوئلہ ہے، ہائیڈرو ،ایٹمی توانائی سے۔ یہ فوری نہیں لگ سکتے۔ اس میں کچھ دیر لگے گی۔ لیکن اب آپ مہنگے ایندھن سے تیار توانائی سے سستی نہیں دے سکتے۔
جنگ: بجٹ سے پہلے حکومت نے درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی تھی اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے۔
مرزا اختیار بیگ: ریگولیٹری ڈیوٹی لگانا اس لیے ضروری تھی تاکہ درآمدات کو قابو کیا جاسکے۔ پر آسائش اشیا جیسے موبائل، گاڑیاں اور دیگر تفریحی اشیا پر بالکل ٹھیک ڈیوٹی لگی ہیں۔ تفصیلات تو ابھی نہیں آئیں لیکن کچھ خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگ گئی ہیں۔ خام مال پر ریگولیٹری پر ڈیوٹی خودکشی ہے۔
خام مال درآمد کا مقصد برآمدی اشیا بنانا ہوتا ہے۔ اگر اس خام مال پر 25تیس فیصد ڈیوٹی دے کر برآمدی سامان بنایا تو ہم دیگر ممالک کی اشیا کا مقابلہ ہی نہیں کرپائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں جو خام مال برآمدی اشیا کی تیاری میں کام آتا ہےاس پر ریگولیٹر ی ڈیوٹی یا کوئی اوردوسری ڈیوٹی صفر ہو۔
جنگ: ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ڈالر ہے جسے برآمدات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔تو کیا وجہ ہے ہم ضرورت کے باوجود اپنی برآمدات بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔
مرزا اختیار بیگ: برآمدات میں ہماری بنیاد ٹیکسٹائل میں جو 12سے 15 ارب ڈالرتھی وہ 17 ارب ڈالرتک چلی جائے گی۔ اس طرح امید ہے ہماری کل برآمدات تیس بلین تک پہنچ جائے۔جو25 یا 26 ارب ڈالرسے زیادہ نہیں ہوپارہی تھی۔ برآمدات بڑھانے کےلیے ہمیں ایکسپورٹ نیٹ گروتھ چاہیے اب تک ہم امپورٹ نیٹ گرو تھ پر خوش ہورہے تھے۔
ایکپورٹ نیٹ گرو تھ کے لیے ایسے شعبے ہیں جہاں جلدی برآمدات بڑھ سکتی ہے ایسا ایک شعبہ آئی ٹی ہے۔ کیوں کہ اس میں کوئی خرچ نہیں۔ اس میں بھارت نے 150بلین ڈالر کی برآمد کی ۔آپ کی اب جاکر ڈھائی بلین ڈالر کی ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں آئی ٹی کو پروموٹ کریں، اس میں دو تین مسائل ہیں وہ ختم ہوجائیں تو۔
اس سلسلے میں تنویر صاحب سے بھی میری بات ہوئی ہے کہ ایک پیمنٹ وصول کرنے کا طریقہ وہ مشکل اور دشوارہے ،وہ کبھی پے آف سے پیسے منگواتے ہیں وہ اکثر خریدار کے کہنے پر روک لیتا ہے ،ایک سال دو سال پیسے وہاں پھنسے رہتے ہیں۔ دس ہزار بارہ ڈالر جو فری لانسر سے حاصل ہوتے ہیں لہذا وصولی کے طریقے کار کو آسان کیا جائے، انہوں نے فری لانس پر انکم ٹیکس ختم کردیا ہے یہ خوش آئند بات ہے۔
آخری بات سولر پینل پرسیلز ٹیکس کا خاتمہ ہماری تجویز تھی کیوں کہ میں نے یہ ترکی میں دیکھا تھا گھر کے گیزر صرف سولر پینل سے چلتے ہیں وہا ں اس کے لیے گیس یا بجلی استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ وہاں گھرکی ڈرائنگ اس وقت پاس ہوتی ہے جب آپ نے اپنے گیزر سولر پر رکھا ہو۔
جنگ : عارف حبیب صاحب آپ کے خیال میں بجٹ بناتے وقت حکومت کی کیا سوچ ہےاور اس کے اہداف کیا ہیں۔ دوسرا ہم ڈالر میں بری طرح پھنسے ہیں اس سے کیسے نکلیں۔
عارف حبیب: ہمیں موجودہ بجٹ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ہمارا پچھلے سال کےبجٹ کے ریوائز اور تخمینے آئے ہیں،اس میں جب ہم بات کرتے ہیں کہ ہمارا چھ ہزار بلین ریونیو ہوا۔ تو چھ ہزار بلین میں سے پہلے تین ہزار پانچ سو تو ڈیٹ سروسنگ میں نکل جاتا ہے۔ چار ہزار بلین صوبوں کو چلاجاتا ہے۔ تو اس طرح 1500بلین خسارے میں آگیا۔ پھر نان ٹیکس ریونیو 1400بلین کے قریب تھا۔تو مختلف اخراجات آپ کے 1500کے قریب ہیں ۔اب آپ اپنے جتنے بھی خرچے ہیں وہ قرض سے ادا کرتے ہیں۔
اس دفعہ بجٹ خسارہ 4500بلین ہے۔اب یہ بھی قرضوں سے پورا کریں گے۔آئی ایم ایف کی شرط یہ بھی تھی کہ آپ اپنے وسائل کو بڑھائیں، وسائل بڑھانے کےلیے انہوں نے 1000بلین کا ٹارگٹ دیا۔ داس ہزار بلین میں سے چھ سو یا سات سو جی ڈی پی گروتھ سے کیا گیا اور تین سو چارسو بلین کے نئے ٹیکس لگائے۔
اب پہلے ہی اتنی مہنگائی ہے،لہذا حکومت کو یہ بھی بتانا تھا کہ ہم امیروں پر بھی ٹیکس لگا رہے ہیں جب کہ غریبوں کو اور جو مہنگائی کے زیادہ متاثر ہیں انہیں ریلیف دے رہے ہیں۔ حکومت نے زیادہ منافع والے شعبوں پر ٹیکس لگایا، رئیل اسٹیٹ پر بھی اب ٹیکس بڑھایا ہے ۔تاکہ وہ عوام کو بتاسکیں کہ دیکھو ہم نے امیروں پر بھی ٹیکس لگایا ہے۔
کمپنیوں پر بینکوں پر بھی ٹیکس بڑھایا۔لیکن اس کے باوجود ہم خود یہ کہتے ہیں کہ یہ سال کچھ لینے کا نہیں حکومت کو دینے کا ہے،اس لیے زیادہ شور نہیں مچایا،حکومت نے کمزور لوگوں کو خاص طور پر نوکری پیشہ کو ریلیف دیا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی فنڈ بڑھایا ہے۔ لیکن کیوں کہ بجٹ سے پہلے پٹرول بجلی کی قیمت بڑھانا اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے متعلق پیشگی آگاہ کرنا۔ حکومت کے لیے یہ سب اس لیے ضروری ہے کہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے، یا ڈالر کی کمی ہے یا گرتا ہوا فارن ریزرو ہے، جس کی وجہ سے روپے کی قیمت کم ہورہی ہے۔
ہمارے بیرونی اکاوئنٹ میں خدشات ہیں، اندیشہ ہے اگر ہم آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل کرنے کی ناکامی میں ہمیں نادہندہ ہونے کا خطرہ ہے۔اور خدانخواستہ ایسا ہوا تو ڈالر دوسو سے پتا نہیں کہاں پہنچے گا۔ ڈالر قیمت بڑھنے سے عوام کی مشکلات بھی بڑھتی ہیں۔ کمپنیوں کے لیے خام مال لانا مشکل ہوجائے گا۔ تو جس شخص کو تھوڑی بھی سمجھ ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لو۔ آئی ایم ایف کاپروگرام ایسا ہی ہے جیسے کوئی آپ کو موت دکھا کر بخار کے حوالے کردے۔ موت سے مراد ڈیفالٹ ہے اور ٹیکس کے اضافے کو بخارسمجھیں۔
ہماری عوام کو سمجھنا چاہیے ہمارا ٹیکس آئی ایم ایف کو نہیں دیا جاتا وہ ہمارا ہی ہوتا ہے، وہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ مالی حالت بہتر کرنے کے لیے اپنا گھر ٹھیک کرو۔ ان حالات میں جو نمبر رکھے گئے ہیں وہ ٹھیک ہیں۔لیکن اس میں مزید بہتر طریقے ہوسکتے تھے بجٹ کے خسارے کو مزید کم کیا جاسکتا تھا۔بدقسمتی سے چارہزار بلین کے قریب بجٹ خسارہ رکھا گیا ہے۔
اس میں ہماری سب سے بڑی آئیٹم ڈیٹ سروسنگ ،ڈیٹ سروسنگ ہم ویسے ہی پونے 14 فیصد پر پالیسی ریٹ ہے، یہ پالیسی ریٹ افراط زر کے برابر ہے۔جبکہ دنیا کےد یگر ممالک سے اپنا موازنہ کریں تو سب جگہ حقیقی شرح سود منفی ہے۔ اگر تیس ممالک کی مثال لیں تووہاں بارہ فیصدمنفی شرح سود ہے۔
مثلا ترکی میں افراط زر 79فیصد ہے اور اس کاشرح سود14فیصد ہے۔ سری لنکا میں افراط زرکی شرح 39فیصد ہے،امریکا میں افراط زرکی شرح 8فیصد ہے۔ اور اس کا پالیسی شرح ایک فیصد ہے۔ اس طر ح اور برطانیہ جرمنی وہاں افراط زر آٹھ فیصد اور شرح سود صٖفر ہے۔ تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی اب سیکھیں کہ حفقیت میں کیسے اپنی حقیقی آمدنی سے شرح سود کم کرسکتے ہیں۔ تو اس طرح اگر ہمارا 3500 یا چارہزار بلین کا بوجھ آدھا ہوجائے تو اس طرح1700 یا1800 بلین کی بچت ہوسکتی ہے۔ میں اگر وزیراعظم پاکستان ہوتا تو میں گورنر اسٹیٹ بینک کے دفتر میں ہی بیٹھ جاتا کہ جناب یہ شر ح سود کوہم کیسے بہتر کرسکتے ہیں۔
ہم تو یہ بات میرٹ پر کرتے ہیں کہ کیا اس پالیسی سے مہنگائی روکی جاسکتی ہے۔ اگر نہیں تو انہیں قائل کریں کیوں کہ بڑاقرض تو حکومت پاکستان نے لیا ہے،وہ تو خود خسارہ بڑھا رہے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتا ہے۔ تو ادھر حکومت کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھ کر کچھ مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو دوسرے وسائل ہیں مثلاً ترقیاتی اخراجات ہیں جس کے لیے 700 یا آٹھ سو بلین ہوتے ہیں لیکن استعمال چار سو یا پانچ سو ہی ہوتا ہےاب سوال یہ ہے کہ جو ترقیاتی بجٹ استعمال ہوتا ہے مجھے تو ایسا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا جسے میں کوئی قیمتی اثاثہ کہوں۔
مثلا اگر کسی نے اپنا گھر 50کروڑ لاگت میں بنایا ہے مارکیٹ میں اب وہ اس کی دوگنی قیمت میں فروخت ہوگا۔ تو یہ سرمایہ کاری ہے۔ تو جو ہم پانچ سو چھ سو بلین کا منصوبے کرتے ہیں تو یہ بتایا جائے کہ کیا یہ پیسے مناسب جگہ لگ رہے ہیں اس کی کوئی حیثیت ہے۔ کیونکہ حکومت یہ کام قرضہ لے کر کرتی ہے۔ حکومت قرضہ نہ لے یہ منصوبے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے کرے۔پہلے وہ منصوبہ مارکیٹ میں لائے تو اگروہ فائدہ کا ہوگا تو پرائیوٹ سیکٹر دلچسپی لے گا پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ منصوبہ کرنے سے کارکردگی میں بہتری اور لاگت میں بھی بچت ہوگی۔
جنگ: ترقیاتی پروگرام پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعےکیے جائیں یہ اچھی تجویز ہے،اس سے آمدنی بھی ہوگی۔
عارف حبیب : تیسرا نجکاری ہے۔ اس وقت پاکستان ایس او ایس اس کی مالیت چھ ٹریلین روپے ہیں۔اس چھ ٹریلین روپے پر حکومت صرف ایک فیصد کمارہی ہے۔جبکہ حکومت 6000ٹریلین روپے پر11 سے12فیصد تک کا سود اداکررہی ہے۔مقصد زیادہ سود ادا کرکے حکومت ہر سال اپنا دس فیصد کا نقصان کررہی ہے۔
ہم کاروباری افراد 20 سے 21فیصد کماتے ہیں تو 14فیصد پر قرض لیتے ہیں۔ کیوںکہ اگر 14فیصد پر لے کر 4 یا پانچ فیصد کمائیں گے تو دوسال میں ہم ختم ہوجائیں گے۔جبکہ حکومت مسلسل خسارے والا یہ کام کیے جارہی ہے۔ حکومت کوابھی نجکاری کرنے پراچھی قیمت نہیں ملی گی، لیکن وہ اس میں پرائیوٹ سیکٹر کا سرمایہ لائے۔
جیسے ہم الائیڈ بینک کی مثال دے سکتے ہیں کہ کمپنیوں میں کیپیٹل ڈالو اور اسے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرو۔ پرائیوٹ سیکٹر جب اسے چلائے گا تو اس کی قیمت بھی بڑھے گی ،ٹیکس بھی آئے گا اور آمدنی بھی بڑھے گی اور خسارہ بھی کم ہوگا،جو 600 بلین سال کا بوجھ لے رہے ہیں آپ اس سے نکلیں گے۔
اخراجات قابو کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے اس کےلیے ضروری ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے تعلقات اچھے کریں۔سیاسی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر کریں۔ یہ اخراجات کو قابو کرنے کا ایک مشورہ ہے۔ دوسرا ہمارا بڑا مسئلہ ہمارے روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے۔دوڈھائی سال پہلے جو ڈالر سوروپے میں تھا آج دو سو کا ہوگیا ہے، مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی کا ہے۔
جنگ: پٹرول بھی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مہنگا ہورہا ہے۔
عارف حبیب: روپے کی قدر میں بحالی ضروری ہے، مجھے یہ بات اب تک سمجھ نہیں آئی ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں بجٹ خسارہ اس لیے زیادہ ہوگیا تھا کہ ہم نے روپے کی قدر کے لیےڈالر کو روک رکھا تھا۔سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قدر کو روک رکھا تھا۔ان کے دور میں ڈالر 105 روپے تک کا تھا۔ ابھی تو آپ نے ڈالر کو آزاد کردیا ہے،لیکن کرنٹ بجٹ خسارہ پھر بھی بڑھ گیا ہے۔ تو مجھے ان لوگوں کی اسحاق ڈار کی پالیسی پرتنقید سمجھ نہیں آتی۔
ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ بہت زیادہ اس معاملے پر سختی کریں۔جب پہلی مرتبہ جب پی ٹی آئی حکومت میں ڈالر ایک رات میں 140 پر چلاگیا تھا تو میں نے ٹی وی پر کہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے لیے قبر کھودی ہے۔انہوں نے خودکشی کی ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان آئے گا تواس کی ذمہ داری اب آپ پر ہی ہوگی۔ ہمارے یہاں سینکڑوں لاکھوں کروڑوں روپے کے اسیکنڈل پر بیان بازی لڑائی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ٹریلین روپے کا معاملہ ہے اس پر کوئی فکر ہی نہیں۔ اس معاملے پر قیادت کے ساتھ میڈیا بھی برابر کا قصور وار ہے۔
میڈیا پاکستان پاکستانیوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہا بلکہ بیمار کردیا ہے۔میڈیا اپنی ذمہ داری کا مکمل احساس کرے۔میں نے یہ تہیہ کیا ہے کہ میں اب اسے غریب ہی نہیں سمجھوں گا جو سولر پینل استعمال نہیں کررہا۔ میری ریسرچ ٹیم نے حساب لگایا ہے کہ جس کا ماہانہ بجلی کا بل تیس ہزار ہے وہ سولر پینل اگراستعمال کرے تو وہ 9ہزار ہوجائے گا،اس کے 21ہزار روپے بچتے ہیں۔توہم نے اب یہ فیصلہ کیا ہے اب اگر کسی کی مدد کریں گے تو وہ سولر پینل کےلیے کریں گے۔اس کے لیے سبسڈی دیں یا پراڈکٹ بنا کر دیں کہ عوام کسی سرمایہ کاری یا ڈیپازٹ کے اسے لے سکیں ۔قسط وار دے دیں۔
اگر وہ قسطیں بھی بھرتے ہیں تو اگر اس کا حساب کیا جائے تو بھی قوم اور ملک دونوں فائدے میں نظرآئیں گے۔ہمیں بھاری قیمتوں والے غیرملکی ایندھن سے نجات ملے گی۔ہمارے پاس ہوا ہے سورج ہے۔دنیا بھرمی ونڈ اور سولر انرجی کے لیے سوفٹ ٹرم قرض ملتا ہے ۔عالمی بینک اس کے لیے آسان لون دیتا ہے۔ جب تک خودانحصاری پر جانے کے لیے حکومت سرمایہ دار میڈیا اور عوام سب مل کر ایسے بڑے فیصلے نہیں کریں گے ہم یوں ہی پھنسے رہیں گے۔
جنگ: ہم بہ مشکل ایف بی آر کے مطابق60 کھرب روپے ٹیکس پر پہنچے ہیں۔یہ ٹھیک ہے یا اس میں مزید بڑھنے کی گنجائش ہے۔
عارف حبیب: اس میں گنجائش ہے۔ جب ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح نکالتے ہیں تو اس میں یہ کرنا چاہیے۔ زراعت جو 20فیصد ہے وہ اس کا حصہ نہیں ہے۔ تو جب ہم 80 فیصد پر اگر ہم 10فیصد بھی لیتے ہیں تواگرٹریڈرز کی اکانومی اٹھارہ سے انیس فیصد ہے۔اور ٹیکس میں ان کا حصہ ایک فیصد ہے۔ ان پر تو ٹیکس ہے لیکن زراعت پر نہیں ہے۔
جنگ : ٹریڈرز پر اس مرتبہ فکس ٹیکس لگایا گیا ہے۔
عارف حبیب: جی ہاں حوصلہ افزائی کے لیے آغاز کیا گیا ہے لیکن ابھی ٹیکس میں مزید گنجائش ہے کوشش مگر یہ ہونی چاہیے کہ اسے کاروبارمیں تیزی لاکر لیا جائے۔ایک اور بات اکثر لوگ نقد رقم کے پیچھے پڑجاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں نقدرقم سے ہماری معیشت کوفائدہ ہے اس کا حکومت کی آمدنی میں زیادہ حصہ ہے۔
جنگ: زبیر طفیل صاحب کاروباری افراد کا بجٹ پر ردعمل کیا ہے وہ اس کی کس حد تک حمایت کرتے ہیں، اور آپ کی نظر میں بجٹ مجموعی طور پر کیسا ہے۔
زبیرطفیل: میں سمجھتا ہوں موجودہ مشکل حالات میں موجودہ بجٹ ٹھیک ہے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا،سوائے امیر افراد پر وہ بھی جو وہ دے سکتے ہیں۔ہماری معیشت جب ہی چلے گی جب ہماری صنعتوں کا پہیہ چلے گا۔ آپ صنعتوں کو چلنے دیں بعض جگہ خام مال پر ڈیوٹی لگادی جو پہلے نہیں تھیں۔جو میرے خیال میں میں ٹھیک ہوجائے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرے اس سے روزگار ملے گا۔حکومت کوسیلز ٹیکس ملتا ہے۔ایک کار فروخت ہوتی ہے تو دس لاکھ روپے حکومت کو سیلزٹیکس ملتا ہے۔ آٹوموبائل سیکٹر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جتنی تیار ہوئی فروخت ہوگئیں ۔آج کل دو ڈھائی لاکھ کاریں بن رہی ہیں۔ تو مینوفیکچرنگ سے آپ کو ٹیکس ملے گا۔ہمارے یہاں تین قسم کے کاروباری ہیں ۔پہلے چھوٹے تاجر جو کسی حکومت کو ٹیکس دینے پر راضی نہیں ہوتے ان کے پاس شٹر پاور ہے۔
آپ زیادہ دباو میں لائے تو وہ شٹر بند کردیں گے۔ان تاجروں کو اپنے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ابھی ان پر بہت معمولی سا ٹیکس لگایا گیا ہے۔وہ یہ دے دیں گے میرے خیال میں تین ہزار سے دس ہزار سالانہ ٹیکس کچھ بھی نہیں ہے اسے بڑھنا چاہیے۔ لیکن ان کے پاس طاقت زیادہ ہے اس لیے انہیں حکومت کچھ نہیں کہتی۔
درمیانے درجے کا کاروباری جو درآمدسے وابستہ ہے وہ اپنے تمام ٹیکس پورٹ پر دے کر آتا ہے۔ درمیانے درجے والا کاروباری اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے۔ لیکن ملکی معیشت میں ترقی کا اصل دارومدار صنعت سے ہے۔ حکومت کو چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ اس شعبے کی مد د کرے۔خاص طور پروہ صنعت جو مقامی طور پر اشیا تیارکررہی ہیں وہ ملکی ڈالر بچارہے ہیں۔
اگر آپ کسی چیز کو درآمد نہیں کررہے تو اس کا مقصد ہے آپ نے ڈالر کمایا ۔حکومت نے ابھی تک صنعتوں کے حوالے سے اپنی پالیسی میں کچھ نہیں کہا ۔ہم گزشتہ تیس سال سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کہتی ہے کہ جو نئی صنعت لگے گی اسے پانچ سال تک ٹیکس کی چھوٹ ملے گی۔ لیکن اس بجٹ میں خاموش ہیں، تو اس صورت میں نئی صنعت میں سرمایہ کاری کیسے ہوگی۔گزشتہ تین چار سال میں تعمیراتی صنعت نے ترقی کی ہے،اس کے ساتھ 37 دیگر سیکٹر بھی چل رہے تھے۔
کیونکہ ابھی بجٹ منظور نہیں ہوا ہے تو میری خواہش ہےکہ بجٹ منظوری میں نئ صنعت کے لیے پانچ سال تک ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا جائے۔ملائشیا میں اگر بڑے شہر سے تین سو کلومیٹر دور صنعت لگائیں تو وہاں سات سال تک کی ٹیکس چھوٹ ہے۔ اس سے زیادہ فاصلے پر دس سال تک کی بھی چھوٹ ملتی ہے۔ تو یہاں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ ہمارے یہاں بلوچستان ہے وہاں کچھ مسائل ہیں لیکن گوادر میں تو صنعتیں لگنا چاہیے وہاں سمندر قریب ہے بندرگاہ بھی ہے۔آسانی سے سامان برآمد بھی کردیا جائے گا۔
جنگ : گوادر میں انڈسٹریل فری زون بنا یا تو ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے۔
زبیر طفیل: گوادر میں انڈسڑیل فری زون بنایا تو ہے ۔پہلے کچھ ایکڑوں پر بنایا تو تھا تو ان پر زیادہ تر چینی کمپنیاں ہیں۔اس کے بعد مزید بنایا گیا لیکن وہ پوری طرح آباد نہیں ہورہا جس کی وجہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اکثر واقعات ہوتے بھی رہتے ہیں۔ ورنہ گوادر بہترین جگہ ہے، لیکن وہاں پر بھی توانائی کا مسئلہ ہے بنیادی ضرورت پانی کا مسئلہ ہے ،وہاں لوگوں کو پینے کا پانی دستیا ب نہیں صنعتوں کا کہا ں سے دیں گے۔
وہاں جب تک ڈی سلیشن پلانٹ نہیں لگائے جائیں گے جو حکومت نے بھی کہا تھا اور چین نے بھی کہا تھا۔ چین نے کہا تھا وہ 300 میگاواٹ کا پاور پلانٹ اور پانی کے لیے ڈی سلیشن پلانٹ لگائیں گے۔ چین نے300 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک بین الاقوامی معیار کا ائیرپورٹ تعمیر کا بھی کہا تھا،جہاں بڑے سے بڑا جہاز بھی اترسکے گا۔ گزشتہ دوسال سے وہاں سارے کام سست روی کا شکار ہیں۔300ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا ائیرپورٹ چین ہمیں تحفے میں دے رہاہے۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے چین سمجھ رہا ہے کہ حکومت اب ان منصوبوں میں دلچسپی نہیں لے رہی۔
جنگ: سی پیک تقریبا سارا بند ہی پڑا تھا۔لیکن کیا اب امید ہے کہ یہ دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔
زبیر طفیل: جی مجھے امید ہے اب یہ دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔چین کے پاس بہت پیسے ہیں ہماری حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سے پیسے نکلوائے۔کیونکہ چین تو دنیا میں ہرجگہ دور دراز افریقا تک میں سرمایہ کاری کررہا پاکستان تو اس کا پڑوسی اور افریقاسے بہت بہتر ہے۔ہمیں اپنے چینی دوستوں کو جو ابھی سرد مہری دکھا رہے ہیں انہیں دوبارہ اس طرف لانا چاہیے۔
میرا خیال ہے چین ابھی موجودہ حکومت کو ایک سال کام کرتا دیکھے گا اور پھر اگلے انتخاب کے بعد کوئی مستحکم حکومت آتی ہے تو وہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرےگا۔کیوں کہ ان کے پاس بہت پیسے ہیں اور ان کی مقامی صنعت پوری طرح بھرچکی ہے۔
جنگ: موجودہ بجٹ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔
زبیرطفیل: ہمیں بجٹ سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ حکومت نے تنخواہ دارطبقے کو ٹیکس کی مد میں چھوٹ دی ہے۔ دو لاکھ تک پر ٹھیک ہے لیکن بڑی تنخواہ میں اتنی چھوٹ نہیں دینی چاہیے۔آئی ایم ایف کو بھی اس پر اعتراض ہے کہ آپ نے دس لاکھ والے کو بھی یہ سہولت دیدی۔حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
جنگ : بجٹ کے منفی پہلو کون کون سے ہیں۔
زبیر طفیل: بجٹ کے منفی پہلو و ہ ہی جو حکومت مجبوری میں کررہی ہے،پٹرول بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ۔لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ایل این جی ،پٹرول ، اور کوئلہ تک باہر سے آرہا ہےاب وسائل ہی نہیں ہیں تو کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ اس بحران سے بچنے کےلیے ہمیں تھر کے کوئلے سے بجلی بنانی چاہیے۔زیادہ سے زیادہ بنائیں اس کے ساتھ ٹرانسمیشن لائن بھی ہونا ضروری ہے۔کیونکہ اگر یہ سہولت نہیں ہوگی تو کام پھر بھی نہیں چلے گا۔
جنگ :آپ تین سے چار سال کی حکومتی پالیسیوں کو کیسے دیکھتے ہیں کیونکہ خسارہ وہی نظرآرہا ہے۔تاہم یہ بھی ہے اس زمانے میں ہم سی پیک کے لیے مشینری درآمد کررہے تھے۔ لیکن اب تو وہ بھی نہیں ہورہا ۔
زبیر طفیل: ابھی جو صورتحال ہے جانے والی پی ٹی آئی حکومت نے آخری چند مہینوں میں اہم چیزوں کو کارپٹ کے نیچے ڈال دیا تھا۔انہیں اس پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر دنیا میں پٹرول کی قیمتیں میں 20ڈالر بڑھی آپ نے دس روپے کم کردیے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور پورا بھی نہیں کیا۔
عارف حبیب: اکنامک سروے جب آپ دیکھتے تو ہمیں بہت ساری چیزوں میں بہتری نظر آرہی ہے۔بہتری میں جی ڈی پی گروتھ بڑا ہے۔آپ کی برآمدات بڑھیں ہیں۔ آپ کاذرمبادلہ بڑھا ہے۔ آپ کا ایف بی آر کا ریونیو بڑھا ہے۔قریباآپ کے سارے ٹارگٹ پورے ہوئے ہیں۔ ہم سے کوتاہی یہ ہوئی کہ دنیا میں جب کمیوڈیٹیز کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ہم اس پر مناسب فیصلہ نہ کرسکے۔
وہاں قیمتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم درآمدات بڑھائے جارہے تھے۔ہمیں اس موقع پر فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے قابو کرنا تھا۔ضرورت اس بات کی ہے حکومتیں ایک دوسرے کی مثبت پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔
جنگ : ہمارا بجٹ خسارہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ہمارے ڈیفالٹ کا خطرہ کیا ٹل چکا ہے اور کیا ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
عارف حبیب: بجٹ بہت زیادہ ہے،اشارے مل رہےہیں معاہدہ ہوجائے گا۔آئی ایم ایف سے ہونے کے بعد دیگر تمام عالمی ڈونر تنظیموں سے بھی مددمل جائے گی۔یہ ایک یا تین بلین نہیں قریبا12 سے 15بلین ڈالر کا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔
ابھی سرمایہ کاروں اورصنعت کاروں کے پاس بہت اچھی لیکوڈی موجود ہے۔ان میںہر آدمی مالدار ہےآ پ انہیں اچھے مواقع دیں۔صورت حال معمول پر آنے کے بعدروپے کی قدر 180 سے 185 تک ہوسکتی ہے۔
جنگ : میں پڑھ رہا تھا ایل این جی درآمد میں بھی پرائیوٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے۔
عارف حبیب: انہیں ٹرمینل دیں اور انہیں اجازت دیں کہ وہ مارکیٹ میں جو قیمتوں میں اتارچڑھاو ہوتا ہے اس کے مطابق چلیں یہ کام حکومت نہیں کرسکتی۔کوویڈ میں جب ایل این کی قیمتیں نیچے آئیں تھیں تو اگر پرائیوٹ سیکٹرہوتاتووہ سال دوسال کےلیے اپنے پاس محفوظ کرلیتا۔
مرزا اختیار بیگ: مجھے پوری امید ہے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر معاہدہ ہوجائےگا۔ لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ فارن ریزرو جب تک نہیں بڑھیں گے روپے کی قدر خراب رہے گی۔
بجٹ میں کچھ آمدنی کا زیاں بھی نظر آرہا ہے۔ چند ادارے جو معیشت پر بوجھ بنے ہوئے اور کئی حکومتیں اسے نجکاری کا کہتی رہی ہیں لیکن اب تک فیصلہ نہیں کرسکی۔حکومت اس پر فیصلہ غور کرے۔ سرکلر ڈیٹ کو بھی ہم روکنے میں ناکام ہیں اسے قابو کریں۔
زبیر طفیل: ڈیفالٹ کے خدشات کم ہوتے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے ہوتے ہی آپ کے تمام اشاریے مثبت ہوجائیں گے۔ اور آپ کو روپیہ بھی آہستہ آہستہ مضبوط ہوجائے گا اور امید ہے 180 سے 190 کے درمیان آجائے گا۔