اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ سرکاری پیسہ بچانے کے معاملے میں دوسروں کیلئے ایک مثالی کردار بن کر سامنے آ رہے ہیں.
انہوں نے رواں مالی سال کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کیلئے مختص کردہ بجٹ کا تیس فیصد بجٹ واپس سرکاری خزانے میں دے دیا ہے۔ اب ججوں کیلئے کوئی چائے یا ریفریشمنٹ نہیں ہوگی، غیر استعمال شدہ بجٹ خرچ کرنے کیلئے ملازمین کو اعزازیہ نہیں دیا جائے گا، کوئی غیر ضروری تزئین و آرائش کا کام نہیں ہوگا، پیسہ ضایع نہیں کیا جائے گا۔
سب سے اہم بات یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے رابطہ کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ٹیکس دہندگان کا جتنا پیسہ جسٹس اطہر من اللہ کے دور میں خرچ کیا ہے اس کا فارنسک آڈٹ کرانے کیلئے کہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے ججوں نے پہلے ہی ایک مثال یہ قائم کی تھی کہ انہوں نے سرکاری پلاٹس لینے سے انکار کر دیا تھا۔
اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو سرکاری پالیسی کے تحت پلاٹس ملتے ہیں، اس پالیسی کو صدارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے کیونکہ صدر مملکت ہی ججوں کیلئے شرائط کار طے کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے دائرہ کار میں آنے والے تمام جوڈیشل افسران اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین کو سرکاری پلاٹس لینے سے روک دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کیلئے 1082؍ ملین روپے رواں مالی سال (جس کا اختتام 30 جون 2022 کو ہوگا) میں مختص کیے گئے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر استعمال شدہ 311.4؍ ملین روپے سرکاری خزانے میں واپس جمع کرا دیے۔ اعلیٰ عدلیہ کی ایک عدالت نے سرکاری خزانے کی غیر استعمال شدہ رقم اپنے سیکڑوں ملازمین میں بطور اعزازیہ بانٹ دی۔
دی نیوز نے اس مخصوص عدالت کی جانب سے خرچ کی گئی اس رقم کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں، جو آنے والے دنوں میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔
اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو اپنی جیب سے چائے اور ریفریشمنٹ کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ جسٹس من اللہ کے دور سے قبل ان کے پیش رو کے دور میں ریفریشنمنٹ، چائے، حتیٰ کہ کھانا پینا اور خشک میوہ جات بھی سرکاری خزانے سے خریدے جاتے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج تو سرکاری اکراجات پر عدالت میں چراغاں کرتے اور مذہبی تقریبات کا انعقاد کرتے تھے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فارنسک آڈٹ ستمبر میں کرایا جائے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین کی تنخواہیں دیگر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ملازمین کے مقابلے میں کم ہیں۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ملازمین کی تنخواہیں سرکاری ملازمین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ دیگر عدالتوں کی طرح معمول کے اضافوں کی اجازت نہیں دیتی۔ تاہم، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اسلام آبادہائی کورٹ کے ججوں کو جو پروٹوکول اور سیکورٹی ملتی ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔
سرکاری ذرائع عموماً یہ کہتے رہے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں حتیٰ کہ ضلعی عدالتوں کے ججوں کی سیکورٹی پر سرکاری پیسہ ضایع کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے لیے خصوصی پروٹوکول اور سیکورٹی مانگتے ہیں۔ تاہم، کوئی سرکاری یا سرکاری ادارہ اس معاملے پر ججوں کے ڈر کی وجہ سے بات نہیں کرتا۔
سرکاری پیسہ بچانے کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات ایک طرف لیکن 2011ء میں اُس وقت کے رجسٹرار کے دستخط سے جاری ہونے والے آفس آرڈر میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائوس اور اس عدالت کے ججوں کی رہائش گاہ پر ان کی جانب سے عہدہ سنبھالنے سے لیکر مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کی جائیں: ۱) کار بمعہ ڈرائیور اور ماہانہ 500؍ لٹر پٹرول ۔ گھر پر۔ ۲) سرکاری گاڑی جس کیلئے ماہانہ ڈیڑھ سو لٹر پٹرول دیا جائے۔
جج صاحب کی پوسٹنگ کے مقام پر (صدارتی آرڈر نمبر تین 1997) ۳) پی ڈبلیو ڈی ڈپارٹمنٹ کے ذریعے گھر کی دیکھ بھال کے اخراجات کی سہولت ۴) محافظ اور اس کیلئے رہائش گاہ ۵) چیف جسٹس کیلئے دو نائب قاصد اور ایک ایک نائب قاصد دیگر جج صاحبان کیلئے (یہ سہولت رہائش گاہ پر فراہم کی جائے اور اس کے اخراجات کنٹی جنسی فنڈ سے نیم ہنر مند ملازم کیلئے روزانہ اجرت کی مد میں ادائیگی کی جائے) ۶) چیف جسٹس کیلئے دو عدد مالی جبکہ دیگر ججوں کیلئے ایک ایک مالی (یہ سہولت رہائش گاہ پر فراہم کی جائے اور اس کے اخراجات کنٹی جنسی فنڈ سے نیم ہنر مند ملازم کیلئے روزانہ اجرت کی مد میں ادائیگی کی جائے) ۷) چیف جسٹس کیلئے دو عدد خاکروب جبکہ دیگر جج صاحبان کیلئے ایک ایک خاکروب (یہ سہولت رہائش گاہ پر فراہم کی جائے اور اس کے اخراجات کنٹی جنسی فنڈ سے نیم ہنر مند ملازم کیلئے روزانہ اجرت کی مد میں ادائیگی کی جائے) ۸) رہائش گاہ کیلئے ڈیڑھ ٹن کا ایئر کنڈیشنر ایک عدد ۹) رہائش گاہ کیلئے ایک عدد جنریٹر بمعہ ایندھن اور اس کی مینٹی ننس کے اخراجات ۱۰) ایک عدد نیا سرکاری ٹیلی فون کنکشن یا پھر رہائش گاہ پر پہلے سے نصب کنکشن کے اخراجات کی ادائیگی ۱۱) ماہانہ چار ہزار روپے تک موبائل فون کے اخراجات کی ادائیگی ۱۲) زیر کفالت اہل خانہ کے ہمراہ طبی اخراجات کی ادائیگی ۱۳) پی ڈبلیو ڈی ڈپارٹمنٹ کے ذریعے یوٹیلیٹی بلز اور ٹیکسوں کی ادائیگی۔ ۱۴) رہائش گاہ کے لان اور گارڈن کی مینٹی ننس کے اخراجات کی ادائیگی ۔
تقریباً بارہ ہزار روپے ماہانہ اور اس کام کیلئے استعمال ہونے والے ساز و سامان کی خریداری کیلئے ایک مرتبہ بیس ہزار روپے کی ادائیگی۔ ۔۔ دی نیوز نے اس معاملے پر چند سال قبل ایک خبر شائع کی تھی جس کے بعد صدارتی آرڈر میں شامل حد سے زیادہ سہولتیں اور مراعات واپس لے لی گئی تھیں یا پھر انہیں واپس کر دیا گیا تھا۔