اسلام آباد (نمائندہ جنگ) آئندہ مالی سال23-2022کیلئے13شعبوں کی بڑی صنعتوں پر اضافی 10فیصد سپرٹیکس جبکہ دیگر تمام شعبوں کی صنعتوں پر 4فیصد اضافی سپر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے.
انفرادی سطح پر اور کمپنیوں کی 15کروڑ روپے سے 20کروڑر وپے کی آمد ن پر ایک فیصد سپر ٹیکس، 20کروڑ روپے سے 25کروڑ روپے تک کی آمدن پر 2فیصد سپر ٹیکس، 25کروڑ روپے سے 30کروڑ روپے کی آمدن پر 3فیصد سپر ٹیکس اور 30کروڑر وپے سے زائد کی آمدن پر 4فیصد سپرٹیکس عائد کر دیاگیا ہے،، 25لاکھ دکانوں پر 3ہزار روپے سے 10ہزار روپے تک فکس ٹیکس عائد کیا گیا ہے.
سونےاور جیولری کی 300مربع فٹ سے کم کی دکانوں پر 40ہزار روپےفکس ٹیکس لگایا گیا ہےجبکہ 300مربع فٹ سے بڑی سونے اور جیولری دکانیں ٹیئر ون میں شامل ہونگے اور ان پر 3فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا.
گھریلو افراد کیلئے سونے اور زیورات کی فروخت پر عائد 3فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا،بلڈرز اور ڈویلپرز پر فکس ٹیکس عائد، پلاٹس پر 50 فیصد کیپٹل گین اور سیلز ٹیکس ختم، جبکہ چمڑے، آلات جراحی کی صنعت پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے.
آئندہ مالی سال23- 2022 کے لیے ٹیکس ریونیو کا ہدف تجویز کردہ 7004ارب روپے سے بڑھا کر 7470ارب روپے کر دیا گیا، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف تجویز کرد ہ 2ہزار ارب روپے سے کم کر کے 1935ارب روپے کر دیا گیاہے.
آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ خسارہ 4547ارب روپےاور صوبوں کے سرپلس کی وصولی کے بعد مجموعی بجٹ خسارہ 3797ارب روپے ہوگا، وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں جیولرز کی 30 ہزار سے زائد دکانیں ہیں جن میں سے صرف22 رجسٹرڈ ہیں، مجھے اس بات کر کریڈٹ دیں کہ ہم نے اپنے وزیراعظم کے بیٹوں کی کمپنی پر بھی زیادہ ٹیکس لگایاہے.
میری کمپنیوں پر بھی زیادہ ٹیکس لگے گا، میری کمپنیاں موجودہ ٹیکس سے 20کروڑ روپے زیادہ ٹیکس دیں گی۔
وفاقی وزیر خزانہ وریونیو نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے بتایا کہ 13شعبوں کی جن بڑی صنعتوں کی آمد ن 30کروڑ روپے سے زائد ہے ان پر ایک مرتبہ کیلئے اضافی 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا.
ان صنعتوں میں چینی تیار کرنیوالی صنعت، سیمنٹ، سٹیل، ٹیکسٹائل، کھاد، بنکنگ انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، بیوریجز انڈسٹری، ایل این جی ٹرمینلز، ائرلائنز، کیمیکلز، آٹو موبائل یعنی گاڑیاں تیار کرنیوالی اور سگریٹ تیار کرنیوالی صنعت شامل ہےجبکہ ایسی تمام صنعت جس کی آمدن 30کروڑر وپے سے زائد ہے اس پر ایک سال کیلئے 4فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بلڈرز اور ڈویلپرز جو مکانا ت تعمیر کر کے فروخت کرتے ہیں ان پر فکس ٹیکس عائد ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ 80لاکھ افراد کو پیٹرول اور ڈیزل سستا اسکیم کے تحت 2ہزار روپے جون کے مہینے میں فراہم کر دیئے گئے ہیں جبکہ 40ہزار وپے ماہانہ سے کم آمد ن والے 40لاکھ افراد کے ایس ایم ایس وصول ہو چکے ہیں ان میں سے10لاکھ افراد کو رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے جن کو 2ہزار روپے ماہانہ دیا جائیگا.
یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، گھی اور چینی سارا سال سستے ریٹ پر فراہم کی جائیگی، پرائمری خسارہ جو 1600ارب روپے ہے اس کو مثبت 153ارب روپے کرینگے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی کے شعبہ پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس واپس لے لیا گیا، وزیر خزانہ نے کہا کہ آئل مارکٹنگ کمپنیوں پر ٹیکس ایک فیصد سے کم کر کے 0.5فیصد کر دیا گیا ہے.
بیرون ملک پاکستانیوں کو ایکٹو ٹیکس پیئر فہرست میں شامل سمجھا جائے گا، پلاٹ پر عائد 50فیصد کیپٹیل گین ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے، پلاٹوں کی آمدن پر عائد ٹیکس شہدا کی فیملی کیلئے ختم کر دیا گیا ہے، چمڑے اور آلات جراحی کی اشیاء کی صنعت پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نےکہا کہ سینیٹ کی زیادہ تر سفارشات کو مان لیا گیا ہے، وزیر خزانہ نے کہاکہ قومی اسمبلی، سینٹ، بجٹ کیلئے کام کرنیوالے اے پی پی، پی ٹی وی، ریڈیوکے ملازمین کو دو دو اعزازیئے دیئے جائیں گے، پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود تمام شعبوں کے ملازمین کو بھی دو اعزازیئے دیئے جائینگے، فاٹا اور پاٹا کو 2023تک ٹیکس استثنیٰ حاصل ہے.
2023کے بعد فاٹا اور پاٹا کے عوام بدستور انکم ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں گے لیکن اس علاقے میں قائم صنعت اور کمپنیوں پر سیلزٹیکس 2023کے بعد عائد ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی بیشتر بجٹ تجاویز کو مان لیاگیا ہے، بجٹ میں بنولہ کے تیل پر ٹیکس ختم کر دیا تھا اب کھل ( کاٹن کیک) پر بھی ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے.
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نےگندم اور کپاس میں خودکفالت پر توجہ دلائی، موجودہ حکومت نے کسان دوست بجٹ پیش کیا ایسا کسان دوست بجٹ 20سال میں پیش نہیں کیاگیا، اس سے طویل مدتی فوائد حاصل ہونگے، خوردنی تیل او ر گندم میں خود کفیل ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال پاکستان کی تاریخ میں معاشی لحاظ سے ایک برا سال سمجھا جائیگا، اہداف سے بہت زیادہ بجٹ خسارہ ہواپہلے اس کا تخمینہ 4990ارب روپے تھا جو بڑھ کر 5310ارب روپے ہوا اور مجموعی بجٹ خسارہ 4740ارب روپے رہا جو جی ڈی پی کا 9.85فیصد ہے اور پرانی جی ڈی پی پر یہ8.8فیصد ہے۔
انہوں نے کہاکہ بجٹ خسارہ کی وجہ سے پوری دنیا سے پیسہ لینا پڑتا تھا، 4سال میں 20ہزار ارب روپے کا قرضہ میں اضافہ کیا گیا، یہ خود مختاری کی جانب سے غلامی کی طرف لے گئے اور ڈیفالٹ کی نہج پر لیکر آئے تھے، قوم کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ23کروڑ غیور عوام کا ملک، نیوکلیئر پاور اب ڈیفالٹ کی جانب نہیں ترقی کی جانب جارہاہے۔