ساون کی موسلا دھار بارش جیسی سیلی، رنگوں کے جادو جیسی حسین، کینوس پر کھینچا گیا کسی آرٹسٹ کا ماسٹر اسٹروک۔ فلم ’’کملی‘‘ کو دیکھنے کے ساتھ ہی ذہن میں کچھ ایسی ہی تشبیہات ابھر کر سامنے آئیں۔فلم کی کہانی دیکھنے والوں کو یُوں اپنی گرفت میں لیتی ہے کہ لگتا ہے اگر ایک لمحے کے لیے بھی پلک جھپکا لی، تو کہیں کوئی سین آنکھ سے اوجھل نہ ہو جائے،اگر بہ نظرِ غائر فلم کا جائزہ لیا جائے تو بَبانگِ دُہل یہ کہا جا سکتا کہ یہ ہدایت کارسرمد کھوسٹ کا ایک اور شاہ کار ہے۔
فلم کی چیدہ چیدہ خصوصیات کی بات کرتے ہیں۔ کسی بھی فلم کی کہانی ہی ناظرین کوسب سے پہلے متوجہ کرتی ہے۔ کملی کی کہانی بھی مشہور ڈراما آرٹسٹ مہر بانو نے لکھی، جب کہ اسکرین پلے اور ڈائیلاگز فاطمہ ستار نے لکھے اور مہربانو کے اسکرپٹ کے ساتھ بہ خوبی انصاف کیا۔( فلم کے لیے کچھ ڈائیلاگز اور اسٹوری سرمد نے لکھی) ۔ فلم کی کہانی دراصل تین خواتین کے گرد گھومتی ہے، جنھیں تقدیر نے ایک ساتھ باندھ دیا ہے،گو تینوں ایک دوسرے سے بالکل الگ شخصیت کی مالک ہیں، لیکن کرداروں کی بنت ہی انھیں ایک ساتھ لے آ تی ہے اور یُوں اس فلم میں کسی میل اورینٹیڈ کردار کی کمی باقی ہی نہیں رہتی۔
فلم میں موجود تقریباً تمام ہی اداکار ناظرین کے سامنے اپنی اداکاری کا لوہا منوا ہی چکے ہیں ۔ ثانیہ سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میری ان سے ملاقات اس سے پہلے ’’ زندگی تماشہ‘‘ کی پروموشن کے دوران ہوئی اور میں نے انھیں بڑا ہی ملنسار پایا۔ اس فلم میں بھی وہ اداکاری کے کمال پر نظر آئیں۔ ہر ایک سین حقیقت سے اس قدر قریب لگا کہ معلوم ہی نہیں چلا کہ وہ اداکاری کر رہی ہیں۔ صبا قمر کو میں اس فلم کا ہیرو قرار دیتی ہوں۔
گلیمرس کردار اور چمکتے بھڑکتے کپڑوں کے ساتھ تو ہیروئین پُوری فلم پر چھائی ہی رہتی ہے، لیکن اصل اداکاری تو تب شروع ہوتی ہے، جب مرکزی کردار عام زندگی جیسا دکھایا ہو،جس نے نہ تو شوخ لِپ اسٹک لگائی ہو اور نہ ہی گوٹا کناری والے کپڑے پہننے ہوں،جس کی خوشی اور غمی نارمل انسانوں والی ہو۔ صبا نے اس فلم میں حقیقتاً فلم بینوں کے دِلوں کو چُھو لیا ہے اور ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ اداکاری کیسے جاتی ہے۔
اداکارہ نمرہ بُچہ نے بھی اپنے کردار کو بہ خوبی نبھایا اور ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے اپنے کردار کے دُکھ کوواضح کیا۔ اس فلم سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے حمزہ خواجہ کو بھی جو کردار دیا گیا۔ انھوں نے اسے بھرپور انداز میں نبھایا۔ دیگر فن کاروں میں عمیر رانا، سمعیہ ممتاز اور عدیل افضل بھی اپنے کرداروں میں صحیح بیٹھے۔
بات اگر فلم کے میوزک کی کی جائے، تو وہ بھی فلم جیسے ہی ٹھہراؤ اور گہرائی لیے ہوئے محسوس ہوا۔ سعد سلطان نے بلاشبہ بڑی خُوب صورت دھنیں ترتیب دیں، جنھیں عاطف اسلم، زینب فاطمہ ،آمنہ راہی، زیب بنگش اور ریشماں جی کی آوازوں نے مزید مسحور کن بنا دیا۔ذاتی طور پر مجھے بابا بلھے شاہ کا کلام مکھڑا بہت پسند آیا، جسے عاطف نے انتہائی خُوب صورتی سے گایا۔
فلم کی کہانی اور ڈائریکشن کا ایسا تال میل بیٹھا کہ ہر ہر سین پر سرمد کے ٹیلنٹ نے ایک بار پھر گنگ کر دیا۔ آنکھوں اور چہرے کے خد و خال سے اداکاری کیسے کی جاتی ہے، یہ سرمد نے اپنے اداکاروں کو سکھایا اور اسکرین پر ان کا یہ جادو سر چڑھ کر بولا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شخص عام فن کار سے بھی عمدہ اداکاری کروا سکتا ہے۔
فلم کی لوکیشنز انتہائی خُوب صورت رہیں اور معلوم چلا کہ پاکستان بھی قدرت کی صناعی سے مالامال ہے، بس اسے صحیح طور پر دکھانے والا ہونا چاہیے۔فلم کی شوٹنگ پنجاب کے ضلع سُون ویلی میں ہوئی ہے اور اس قدر خُوب صورت مناظر دیکھنے کے لیے ملے ہیں کہ ان کا خمار کئی روز میں آنکھوں کو منور رکھے گا۔
فلم کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ ایک ایسی فلم ہے، جسے آپ نہ صرف دیکھیں، بلکہ اس کا ایکپیرینس کریں۔ فلم کی کہانی آپ کو متحیر رکھے گی۔ اداکاری آپ کو آپ کی سیٹ سے ہلنے نہیں دے گی تو، وہیں سرمد کا کیا گیا جادو آپ کو ٹرانس میں لے جائے گا،یہاں میں نے کسی قسم کا کوئی اسپوائلر نہیں دیا ہے، کیوں کہ یہ فلم کسی کے بتانے سے سمجھ میں نہیں آئے گی، بلکہ آپ اسے خود دیکھیں تو سرمد کو سلام کریں گے۔
برٹش کونسل میں ’’ زندگی تماشہ‘‘ کے پروموشن میں میری ملاقات سرمد سے بھی ہوئی تھی۔ ان کے شائستہ اطوار کی میں اسی دن سے شیدائی ہوں۔ آخر میں ، میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ اگر میں یہ فلم نہیں دیکھتی، تو اپنا ہی نقصان کرتی، کیوں کہ پاکستانی سنیما کو ایسی ہی فلمیں بچا سکتی ہیں اور یہاں کے ناظرین کو واپس سنیما گھروں کو لا سکتی ہیں۔ تو جائیں اور جا کے آپ خود بھی اس فلم کے سحر میں ڈوب جائیں۔
کملی کے بعد میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ ’’ اب مجھے املتاس کے پھول زیادہ خوب صورت لگنے لگے ہیں‘‘سعد اللہ شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ’’’’خوابِ کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے،اے گلِ صبح تیری باس کہاں رکھیں گے،پیلے پھلوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں،ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے۔‘‘