پاکستان میں فلم سازی کے عمل میں تیزی آرہی ہے۔ عیدین کے علاوہ بھی فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں۔ فلموں کے نئے قابل اور باکمال دائریکٹر بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستانی فلموں کی ریلیز صرف عیدین پر ہوگی، تو سال بھر سینما گھروں کی رونقیں کون بحال کرے گا؟ عیدین پر فلمیں ریلیز کرنا اور اسے کام یاب بنانا آسان ہے، لیکن کیا پاکستان میں سینما گھر صرف عیدین کے مواقع پر کھولے جائیں اور باقی سال بھر ان پر تالے لگا دیےجائیں۔
پاکستان میں جتنے بھی بڑے فلم ساز ادارے ہیں، وہ صرف عیدین پر اپنی بڑے بجٹ کی فلمیں پیش کرتے ہیں اور انہیں باکس آفس پر بزنس بھی مل جاتا ہے، کیوں کہ عید پر سیر و تفریح کے لیے عوام کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رُخ کرتی ہے۔ اس لیے ان دنوں میں کمزور اور غیرمعیاری فلمیں بھی بزنس کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے فلم ساز ادارے اور ڈائریکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی فلم عید پر سینما گھروں کی ریلیز کا حصہ بنیں، لیکن اس کے باوجود بھی چند ہدایت کار اور فلم ساز ایسے بھی ہیں، جن کو اپنے کام اور ہنر پر بھروسہ ہوتا ہے۔
ان کا یقین ہوتا ہے کہ جب فلم دِل چسپ اور معیاری ہوگی، تو لازمی فلم بینوں کی توجہ حاصل کرے گی۔ ان قابل ہدایت کاروں میں احسن رحیم، ثاقب ملک، سرمد کھوسٹ اور امین اقبال شامل ہیں۔ احسن رحیم نے اپنی فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ 2018ء کے الیکشن کے دِنوں میں ریلیز کی اور اس فلم نے دُنیا بھر میں شان دار بزنس کیا۔ اسی طرح ثاقب ملک نے میرا اور آمنہ الیاس کو لے کر فلم ’’باجی‘‘ ریلیز کی، جسے بے حد پسند کیا گیا اور اب رواں برس سرمد کھوسٹ نے صبا قمر کو لیڈنگ کاسٹ میں شامل کر کے فلم ’’کملی‘‘ ریلیز کی، جسے سنجیدہ فلم بینوں نے بہت سراہا۔
24 جون کو دو فلمیں سینما گھروں میں پیش کی گئیں۔ ان میں نامور ڈائریکٹر امین اقبال کی پہلی فلم ’’رہبرا‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کی لیڈنگ کاسٹ میں عائشہ عمر، احسن خان، غلام محی الدین و دیگر شامل تھے۔ دُوسری جانب اسی روز نیہا لاج نے فلم ’’چوہدری‘‘ ریلیز کی، جس کی کاسٹ میں حاضر سروس ڈی ایس پی طارق اسلم، شمعون عباسی، یاسر حسین، ثنا فخر و دیگر شامل تھے۔ اس فلم میں عرفان موتی والا اور شکیل صدیقی نے بھی مختصر مزاحیہ کردار ادا کیے۔
اب ہم بات کرتے ہیں ٹیلی ویژن ڈراموں کے نامور ہدایت کار امین اقبال کی 24 جون کو ریلیز ہونے والی عائشہ عمر اور احسن خان کی فلم ’’رہبرا‘‘ کی۔ یہ فلم چار پانچ سال کے عرصے میں مشکلات سے گزر کر آخرکار سینما گھرتک پہنچ گئی۔ درمیان میں کورونا بھی اس کی ریلیز کی تاخیر کی وجہ بنا۔ امین اقبال ایک پڑھے لکھے ذہین ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے مختلف ڈراموں کی ڈائریکشن میں اپنے آرٹ اور ڈائریکشن کا کمال دکھانے کے بعد ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ فلم کی کاسٹ میں عائشہ عمر، احسن خان، سحرش خان اور غلام محی الدین سمیت دیگر فن کاروں کو کاسٹ کیا گیا۔
فلموں کے منجھے ہوئے اداکارغلام محی الدین سے مزید بہتر کام لیا جاسکتا تھا،جیسے ’’طیفا ان ٹربل‘‘ میں اداکار محمود اسلم سے لیا گیا تھا۔ فلم’’ رہبرا‘‘ کی زیادہ تر شوٹنگ آئوٹ ڈور کی گئی۔ فلم میں پاکستانیت کی بھرپور عکاسی کی گئی۔ کراچی، ملتان اور لاہور کی دل کش لوکیشن نے فلم کی پروڈکشن ویلیو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ فلم ’’رہبرا‘‘ کی موسیقی پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ عاملی شہرت یافتہ گائیک اُستاد راحت فتح علی خان کی آواز شامل کی گئی، تو سینما اسکرین ان کی آواز سے سج گئی۔ امین اقبال نے پاکستان کی شوبزنس انڈسٹری میں درجنوں فن کاروں کو متعارف کروایا۔
اس لیے ان کی خواہش تھی کہ ڈراموں کی کام یابی کے بعد ایک عمدہ فلم بنائی جائے، جس کے ذریعے کوئی خاص پیغام دیا جائے۔ اس لیے انہوں نے ’’رہبرا‘‘ کی کہانی بھی خود لکھی اوراس میں پاکستانی عورت کو ایک مضبوط کردار میں پیش کیا۔ فلم اور ڈراموں کے ہیرو احسن خان نے ’’دانش‘‘ کے کردار میں عمدہ پرفارمنس دی۔ وہ اپنی پچھلی فلموں کے کرداروں سے مختلف نظر آئے۔ان دنوں وہ شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ فلم ،ڈراما، ٹاک شوز اور ٹی وی کمرشل، ہرجگہ احسن خان نظررہے ہیں۔
خُوب صورت اداکارہ عائشہ عمر نے فلم ’’رہبرا‘‘ سے قبل جن فلموں میں ہلکے پھلکے کردار اد کیے۔ ان میں لو میں گم، میں ہوں شاہد آفریدی، یلغار، سات دِن محبت اِن، کاف کنگنا اور کراچی سے لاہور شامل ہیں۔ ’’کراچی سے لاہور‘‘ میں انہیں مریم کے رُوپ میں کافی پسند کیا گیا۔ اس فلم میں شامل آئٹم سونگ ’’ٹوٹی فروٹی‘‘ کو غیرمعمولی مقبولیت ملی۔ رواں برس ان کی ایک اور فلم ’’جاوید اقبال‘‘ بھی ریلیز ہونے سے قبل بندی کا شکار ہوگئی۔
اس فلم کا صرف پریمیئر ہی ہو سکا۔ عائشہ عمر نے انسپکٹر کے کردار میں بہت عمدہ کردار نگاری کی اور اب وہ ’’رہبرا‘‘ میں ’’ببلی‘‘ کے شوخ و چنچل اور جان دار کردار میں نظر آئیں۔ عائشہ عمر ایک بھولی، شرارتی اور باتونی لڑکی کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں کام یاب دکھائی دیں۔ فلم کے آغاز سے اختتام تک وہ ہر سین میں چھائی رہی۔ ان کے کردار ’’ببلی‘‘ نے فلم بینوں کو کسی بھی لمحے بوریت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ٹرین میں ’’ببلی‘‘ کی شرارتوں اور معصومانہ باتوں نے خُوب رنگ جمایا۔
پاکستان میں اس طرح کی فلمیں ماضی میں بھی بنتی رہی ہیں، جس میں چلتی ٹرین میں رومانس کے مناظر فلمائے گئے۔ عائشہ (ببلی) اور احسن خان (دانش) کے مابین ڈائیلاگز سے عامر خان کی فلم ’’گجنی‘‘ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عائشہ ’’گجنی‘‘ کی ہیروئن ’’آسین‘‘ کی کاپی کر رہی تھیں۔ عائشہ پُوری فلم میں اپنے کردار کی ٹون سے نکلتی نظر نہیں آئی، یہی وجہ ہوتی ہے ایک اچھے پرفارمر کی کام یابی کی۔ احسن خان اور عائشہ عمر کی جوڑی بے حد کام یاب رہی۔ بعض سین میں ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ فلم کی ہیرو عائشہ عمر ہیں۔
فلموں کے سینئر اداکار غلام محی الدین نے عائشہ عمر کے والد کا کردار، لاجواب انداز میں کیا۔ وہ فلم میں ایسے باپ کے رُوپ میں نظر آئے، جو اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر رسم و رواج سے بھی بغاوت کر لیتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی ’’ببلی‘‘ کو اپنی مرضی سے زندگی جینے کی اجازت دیتا ہے۔ نئی اداکار سحرش خان نے مختصر کردار میں ثانوی سی پرفارمنس دی۔ عائشہ عمر نے فلم ’’رہبرا‘‘ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس فلم کی شوٹنگ سخت سردی میں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اداکاری صرف گلیمر اور تفریح کا نام نہیں ہے، کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد بھی کرنا پڑتی ہے۔ فلم میں احسن خان اور میں نے گھوڑے پر سواری کا سین قصور شہر کی سخت سردی اور ہلکی بارش کے دوران شوٹ کروایا۔ ہم نے فلم کی شوٹنگ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کی۔ فلم بینوں کو خُوب صورت پاکستان بھی دکھایا۔
فلم کے ڈائریکٹر امین اقبال نے بتادیا کہ ڈرامے کے ڈائریکٹر بھی ایک اچھی اور معیاری فلم بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے فلم کی زیادہ تر شوٹنگ آئوٹ ڈور کی، جس کی وجہ سے فلم کا پروڈکشن لیول اور زیادہ بہتر لگا۔ فلم کے گانوں کی عکس بندی کے لیے دِل کش لوکیشن کا انتخاب کیا گیا۔ اُستاد راحت فتح علی خان اور عاصم اظہر کی آواز میں گیتوں نے فلم کو کلرفُل بنایا۔
مختصراً یہ کہ ہدایت کار امین اقبال، عائشہ عمر اور احسن خان کے تِکون نے فلم کو دل چسپ اور لاجواب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح کی فلمیں بننا شروع ہوگئیں، تو پھر فلم انڈسٹری کی بحالی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!!