لاہور(نمائندگان جنگ )لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز برقرار ،ووٹ دوبارہ گنے جائیں ،پی ٹی آئی کے 25منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کئے جائیں.
انتخاب کرانا پڑے تو آج شام 4بجے کرایا جائے ۔جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا.
عدالت نے دوبارہ انتخاب کروانے کی حد تک فیصلہ جاری کرتے ہوئے چھ درخواستیں اور تین انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردیں، جسٹس صداقت علی خان، جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس طارق سلیم شیخ اورجسٹس شاہد جمیل خان نےدوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا جبکہ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بحال کرنیکا فیصلہ لکھا ،اس طرح فیصلہ 4-1 سے آیا۔
عدالت نے لکھا کہ بطور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور کابینہ کے تمام فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل رہے گا،دوران انتخاب انتشار پیدا کرنیوالوں کیخلاف توہین عدالت کارروائی ہوگی ،چارججز کی رائے کے مطابق نئے انتخاب کا کہتے تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی نفی ہوتی۔
دوسری جانب عمران خان نے کہاکہ سپریم کورٹ جائیںگے،پرویز الٰہی کاکہناہےکہ پی ٹی آئی کے 5 ارکان ضروری کام کیلئے بیرون ملک ہیں، 5 مخصوص نشستوں کاالیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، حمزہ شہباز کاکہناہےکہ فیصلے سے آئینی بحران ختم ہوگیا۔
8 صفحات پر مشتمل جاری مختصر حکم نامے میں عدالت نے حکم دیا ہےکہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی منحرف ارکان کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے.
عدالت نے قرار دیا کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوبارہ انتخابات کے لیے اگر ضرورت پڑی تو پنجاب اسمبلی کا اجلاس یکم جولائی جمعہ شام 4 بجے ہوگا.
اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تو آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ انتخاب کرایا جائے جب تک کہعہدے کے لیے موجود کسی امیدوار کو اکثریت حاصل نہ ہو، آرٹیکل 130 (4) کے مطابق ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی امیدوار کو 186 ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے صرف موجودہ اراکین اور ان کے ووٹوں میں سے اکثریت کی ضرورت ہوگی.
پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے 25 ووٹوں کو نکالنے کے بعد حمزہ شہباز مطلوبہ اکثریت سے محروم ہو گئے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے.
عدالت نے فیصلے میں زور دے کر کہا ہے کہ جب تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہو جاتا اور پریزائیڈنگ افسر منتخب وزیر اعلیٰ کے نتیجے سے گورنر کو آگاہ نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا، گورنر آئین کے تحت کے تحت بغیر کسی ہچکچاہٹ نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کا فرض اگلے روز صبح 11 بجے سے پہلے تک ادا کرے گا.
عدالت نے لکھا کہ بطور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور کابینہ کےتمام فیصلوں کو آئنی تحفظ حاصل ہے،عدالت نے لکھا کہ صوبائی اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں ہونے والی بدنظمی کو نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا دوران انتخاب انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی.
عدالت نےکیس کی کوریج پیشہ ورانہ طریقے سے کرنے پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تعریف کی ، عدالت نے ایف آئی اے اور پیمرا کو مذکورہ کیس کو سکینڈلائز کرنے والے وی لاگرز کے خلاف کارروائی کرنیکا حکم دیا.
عدالت نے لکھا کہ اگر ایسی درخواست سماعت کیلئے پیش کی جاتی ہے تو تو ہین عدالت کی کارروائی کی جائیگی، جسٹس ساجد محمود سیٹھی نےاختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کے حق میں ڈالے گئے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں کو تسلیم کر لیا گیا تھا.
اس لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کے عمل کی ضرورت نہیں ہے۔جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے مزید لکھا کہ 371 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ تعداد 186 ووٹوں کی تھی جبکہ ریکارڈ کے مطابق حمزہ شہباز نے 197 ووٹ حاصل کیے.
25 ووٹوں کو گنتی سے نکال کر حمزہ شہباز کے 172 ووٹ تھے، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 130 (4) کے تحت وہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں اور انہیں اس عہدے پر فائز رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، غیر منتخب رکن کے دفتر کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے.
اس تمام صورتحال کے نتیجے میں عثمان احمد خان بزدار کو فوری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کر دیا جاتا ہے، جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے لکھا کہ یہ عدالتی فیصلہ 30 اپریل سے لیکر آج تک بطور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور کابینہ کےتمام فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی عدلیہ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں فیصلے سے پنجاب میں 3 ماہ سے جاری آئینی بحران کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گا.
اپوزیشن نے اپنی انا پرستی کی تسکین کے لئے صوبہ کو آئینی بحران میں دھکیلا آئینی بحران کا سب سے زیادہ نقصان صوبے کے عوام کو اٹھانا پڑا عہدے آنی جانی چیز ہے، اصل کام اللہ کی مخلوق کو راضی کرنا ہوتا ہے سیاست برائے سیاست کا قائل نہیں بلکہ سیاست کو خدمت کا درجہ دیتا ہوں مخلوق خدا کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا میری زندگی کا مقصد ہے دکھی انسانیت کی تکالیف کا مداوا میری سیاست ہے امید ہے کہ اس فیصلے کے اثرات صوبے کے عوام کے لئے خیر کا باعث بنیں گے مسلم لیگ ن نے ہمیشہ چینلجز کا مقابلہ کیا ہے آئین اور قانون کے ماروا کوئیاقدام نہیں کیا جن لوگوں نے آئین اور قانون سے کھلواڑ کیا ان کے چہرے قوم کے سامنے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حمزہ شہباز سے متعلق فیصلے پر کہا کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں.
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی نے لاہور ہائیکورٹ کے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے خلاف فیصلے کے بعد ویڈیو لنک پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سینئر پارٹی قیادت سمیت قانونی ٹیم سے مشاورت کی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا اور مشاورت سے آئندہ سیاسی و قانونی لائحہ عمل مرتب دیا جائے گا۔ اس کیلئے قانونی پٹیشن کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔
اجلاس کے دوران بریفنگ دی گئی کہ تحریک انصاف کے پانچ ارکان حج کیلئے گئے ہیں، چھ ارکان ضروری کام کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں، علاوہازیں لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود تحریک انصاف کے پانچ ارکان کا الیکشن کمیشن نے ابھی تک نوٹیفیکیشن نہیں کیا۔
اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کئی آئینی اور قانونی ابہام موجود ہیں، سپریم کورٹ کے سامنے قانونی نکات رکھے جائیں گے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا وزیراعلیٰ الیکشن کے بائیکاٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا،الیکشن کے بائیکاٹ سے متعلق چلنے والی خبر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔
اس حوالے سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت دیگر کے ساتھ مشاورت کے لیے علی ظفر ایڈووکیٹ کی سربراہی میں قانونی ٹیم تشکیل دی ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہمیں اپنی عدالتوں پر کوئی شک نہیں مگر فیصلے میں کچھ قباحتیں ہیں جن پر سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
الیکشن کے حوالے سے کچھ فیصلے ہیں جن کا اعلان آج کریں گے۔ 17 جولائی کو پہلے ضمنی انتخابات ہوں پھر وزیراعلی کا انتخاب ہو ۔جس پرائزیڈنگ افسر نے وزیرِ اعلیٰ کے الیکشن میں خرابی پیدا کی ،اسی ڈپٹی اسپیکر کو دوبارہ پرائزیڈنگ افسر لگا دیا جو درست نہیں۔ جس نے اراکین اسمبلی کوایوان میں زخمی کرایا اب وہی دوبارہ الیکشن کرائے گا، یہ قرین انصاف نہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بشارت راجہ، پارلیمانی لیڈر میاں محمود الرشید ، رکن اسمبلی حافظ عمار یاسر ، عباس شاہ اور اپنی وکلاءٹیم کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔