• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین، کورنگیایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری)
میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین، کورنگی
ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری) 

پاکستان زرعی ملک کہلاتا ہے مگر زرعی اشیاء کی درآمد پر بھی سالانہ 14 ارب ڈالر سے زیادہ صرف کئے جا رہے ہیں جوبلاجواز ہے۔ زرعی اشرافیہ سالانہ آٹھ سوارب سے زیادہ کما رہی ہے مگر اپنے اثررسوخ اور قانونی سقم کی وجہ سے ٹیکس نہیں دے رہی جس نے ساری معیشت کو غیرمتوازن کر رکھا ہے۔ 

حکومت متبادل توانائی اور زرعی اشیاء کی ملکی پیداوار بڑھائے تاکہ درآمدات پرانحصار کم ہو، پاکستان ڈیفالٹ سے بچ جائے گا اور ملک کے حقیقی معاشی واقتصادی مسائل چند ماہ کے لئے ٹل جائیں گے، اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بوسیدہ اقتصادی نظام کومکمل طور پر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا، اب ملک کوانصاف پرمبنی ایک نئے اکنامک آرڈر کی ضرورت ہے۔

میاں زاہد حسین

محسن شیخانی(چیئرمین، آباد)
محسن شیخانی
(چیئرمین، آباد)

بجٹ میں لگایا گیا پراپرٹی ٹیکس واپس لیا جائے، رئیل اسٹیٹ پر جوٹیکس تجویز کیے گئے ہیں اگر یہ نافذ ہوگئے تو اس سے رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت تباہ ہوجائے گی، ستر سے زائد صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا جس کے نتیجے میں معیشت سکڑ جائے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے، مجوزہ اقدام ملک میں ڈالر بھیجنے والوں پر ٹیکس لگانے کے مترادف ہے۔ 

اسی طرح کے ٹیکس 2016 میں بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر لگائے گئے تھے جس سے تعمیراتی شعبہ تباہ ہوگیا تھا۔ وفاقی حکومت کو غیر منقولہ جائیداد کی کیپٹل ویلیو پر ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں۔ رینٹل انکم پر مجوزہ ٹیکس سے پراپرٹی مالک اور کرائے دار کے درمیان تنازعہ بڑھے گا۔ غیر ضروری ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ تعمیراتی شعبے کاخا م مال سیمنٹ، سریا اور دیگر کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے اپنا گھر اب خواب ہی رہ جائے گا۔

محسن شیخانی

معین الدین(سابق سربراہ پاکستان ریمی  ٹینس اینشیی ایٹو / سابق ایڈیشنل  ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان)
معین الدین
(سابق سربراہ پاکستان ریمی  
ٹینس اینشیی ایٹو / سابق ایڈیشنل 
 ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان)

بجٹ میں متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کے اقدامات میں کم آمدنی اور زائد آمدنی والے افراد میں غالباً پہلی مرتبہ بہت زیادہ تفریق رکھی گئی ہے۔ بجٹ میں ایک انتہائی اہم قدم دکان داروں سے بجلی کے بل کے ساتھ ٹیکس کی وصولی ہے۔ اگر اس تجویز کو صحیح طریقے سے نافذ کیا گیا یعنی اس میں گلی محلہ کی دکانیں بھی شامل کی گئیں تو اس اسکیم کے تحت ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع ہونا خارج از امکان نہیں۔

بجٹ میں معاشی مشکلات کا ادراک تو کیا گیا ہے، اس کا اظہار ترقیاتی پروگرام میں 100 ارب روپیہ کی کمی سے نظرآتاہے۔ بجٹ میں اخراجات کا حصہ بہت کم لچک دار ہے۔ باالخصوص سود کی ادائیگی تمام اخراجات کا تقریبا 42 فیصد ہے۔ کچھ لوگ دفاعی بجٹ پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس رقم سے فوج کے اخراجات کے ساتھ ساتھ دفاعی سازو سامان بھی خریدا جاتا ہے۔

معین الدین

پاکستان کی سیاست تو گرے ایریا میں رہی ہے اس وقت معیشت بھی گرے ایریا میں دکھائی دیتی ہے، بعض اقتصادی ماہرین تو اسے بلیک ایریا میں بھی گردانتے ہیں، اس وقت پاکستان پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی ہے،جس کے سبب ڈالر کی اونچی اڑان نیچے آتی دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ روپیہ گرتا چلا جا رہا ہے، بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے، قرضوں کی سطح بھی نہایت ہی بلندی پر ہے، ایسے میں نئی متحدہ حکومت نے اپنا بجٹ پیش کیا ہے، کیا بجٹ پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکال سکے گا، کیا افراط زر پر قابو پایا جا سکے گا، کیا پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دور ہو سکے گا، آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں ضروری ہے اور اس کے منفی اور مثبت اثرات کیا ہوں گے؟ 

یہ سب جاننے کے لئے "بجٹ 23-2022، مثبت کیا منفی کیا؟" کے موضوع پر دوسرے پوسٹ بجٹ جنگ فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں ٹیلی فون پر ماہرین کی رائے لی گئی، میاں زاہد حسین (سابق صدر، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری) محسن شیخانی (چیئرمین، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز، پاکستان) معین الدین (سابق سربراہ پاکستان ریمی ٹینس اینشیی ایٹو/سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان) نے اپنی آرا کا اظہار کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

میاں زاہد حسین

سابق صدرکورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈرز اینڈ انڈسٹری

پوسٹ بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کوتباہی کے دہانے سے واپس لانے کے لئے بجلی، گیس اور ہر قسم کی اشیاء پر سبسڈی اور مراعات کی صورت میں مسلسل رعایت کا سلسلہ مکمل طور پر بند کرنا ہوگا جبکہ زرعی آمدنی سمیت ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا ہوگا۔ پچھتر سال سے فوائد سمیٹنے والی اشرافیہ کواب اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ ارب پتیوں کو اضافی قیمت پرتیل گیس بجلی پانی اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں جبکہ غریب ترین افراد کو دو ہزار روپے کی بجائے پانچ ہزار روپے ماہانہ ٹارگٹڈ سبسڈی فراہم کی جائے۔ 

ملکی نظام کو درست کرنے کے لئے پڑوسی ممالک میں کئی دہائیوں سے رائج سسٹم کوسمجھا جائے جہاں غریب کوآٹا دال چاول اورگھی بھی امیروں کے مقابلے میں سستے داموں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست اورمعیشت کواشرافیہ نے جکڑ رکھا ہے اور وہ کھربوں کے فوائد لینے کے ساتھ اربوں روپے کی بجلی اور گیس بھی چوری کر رہے ہیں مگر اب ملکی سالمیت کی خاطراس سسٹم میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی حالت یہ ہے کہ معیشت کولاحق سنگین خطرات کے باوجود نئی حکومت نے تیل کی قیمت میں اضافہ کا فیصلہ کرنے میں ایک ماہ سے زیادہ وقت سوچ بچارمیں ضائع کردیا اوراب بھی کئی مشکل فیصلے التواء کا شکار ہیں۔ 

عالمی سطح پردس کنوئیں کھودنے کے بعد ایک میں سے تیل نکلتا ہے جبکہ پاکستان میں اوسطاً چارکنوئیں کھودنے پرایک میں سے تیل نکل آتا ہے اسکے باوجود ملکی پیداوارصرف ستتر ہزار بیرل روزانہ ہے جبکہ اس سال حکومت نے بیس ارب ڈالر کا تیل درآمد کیا ہے۔ سابقہ حکومت کے دورمیں تیل کے درآمدی بل میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا مگر پھر بھی سستی شہرت کے لئے تیل سستا رکھ کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی راہ ہموارکی گئی اور آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا گیا جو غیرذمہ داری کی انتہا ہے۔

پاکستان زرعی ملک کہلاتا ہے مگر زرعی اشیاء کی درآمد پربھی سالانہ 14 ارب ڈالرسے زیادہ صرف کئے جا رہے ہیں جوبلاجواز ہے۔ زرعی اشرافیہ سالانہ آٹھ سوارب سے زیادہ کما رہی ہے مگراپنے اثررسوخ اورقانونی سقم کی وجہ سے ٹیکس نہیں دے رہی جس نے ساری معیشت کو غیرمتوازن کررکھا ہے۔ حکومت متبادل توانائی اورزرعی اشیاء کی ملکی پیداواربڑھائے تاکہ درآمدات پر انحصار کم ہو اور قرضے لے کرامراء کو فائدے دینے کا سلسلہ بھی بند ہوورنہ ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے سے دوست ممالک سے قرضوں کے حصول میں رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی اور پاکستان آٹھ سے دس ارب ڈالر مزید قرض حاصل کر سکے گا اس کے ساتھ ساتھ اگلے سال پاکستان نے 21 ارب ڈالر قرض اور سود کی ادائیگی کرنی ہے اس کے رول اوور میں بھی مدد مل جائے گی، پاکستان ڈیفالٹ سے بچ جائے گا اور ملک کے حقیقی معاشی واقتصادی مسائل چند ماہ کے لئے ٹل جائیں گے، اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بوسیدہ اقتصادی نظام کومکمل طور پر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ 

موجودہ اقتصادی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اوراب ملک کوانصاف پرمبنی ایک نئے اکنامک آرڈر کی ضرورت ہے۔ متبادل معاشی نظام کے بغیرملک کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ اب عالمی برادری اور دوست ممالک بھی پاکستان کوقرض دے دے کرتھک گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ اقتصادی ماڈل خامیوں کا مجموعہ ہے جوملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ پاکستان کو ناکام سرکاری اداروں پر سالانہ 6 سو ارب روپے قومی سرمایہ لٹانے کی بجائے ان اداروں کی فوری نجکاری کرنا چاہیے، جبکہ بجلی کے شعبے میں تین سو ارب روپے لائن لاسز اور مزید تین سوارب روپے کی بجلی چوری کا سد باب فوری طور پرکرنے کی ضرورت ہے۔ گیس کے شعبے میں بھی سالانہ ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ 

زراعت کو ترقی دے کر سالانہ 14 ارب ڈالر کی فوڈ اور زرعی اشیاء کی درآمد کم کی جا سکتی ہے۔ موجودہ معاشی نظام نہ تو حکمرانوں کوقرض لینے سے روکتا ہے اورنہ ہی وسائل لٹانے کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ جس سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنے مفاد میں فیصلے کرتی ہے اور منصوبے بناتی ہے چاہے وہ ملکی مفاد سے متصادم ہی ہوں اورانھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ جس سے عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ غریب مزید غریب ہوتے رہتے ہیں۔ 

اب پاکستان میں ٹیکس کےغیرموثرنظام کی وجہ سے امیراورغریب کے مابین خلیج ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے جس سے زبردست بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگرنیواکنامک آرڈر میں ڈائریکٹ ٹیکس کا حجم ان ڈائریکٹ ٹیکس سے نہ بڑھایا گیا، اشرافیہ سے ٹیکس چھوٹ واپس لے کران پران کی آمدنی کے مطابق ٹیکس عائد نہ گئے گئے، ٹیکس بیس میں اضافہ نہ کیا گیا، صنعت میں سرمایہ کاری کو پراپرٹی سے زیادہ منافع بخش نہ بنایا گیا، ملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹنے والے اداروں کوختم نہ کیا گیا اور قوانین کو عالمی معیار کے مطابق نہ بنایا گیا توملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ 

ملک میں ایل این جی بحران بھی آرہا ہے جس کا حل گیس کا زیاں روکنے اوراس کی راشننگ میں مضمر ہے کیونکہ ملکی خزانہ مہنگی ایل این جی درآمد کرکے سستی بیچنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت سستی ایل این جی خریدنے کی کوشش کررہی ہے مگراس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ یورپی خریداری کے پیش نظرعالمی منڈی میں اسکی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی ادائیگیوں کے بحران میں مبتلاء ہے اس لئے مہنگی خریداری نہیں کی جاسکتی۔ 

دوسری طرف کرونا وائرس اوراس کے بعد روس اوریوکرین کی جنگ نے جہاں ساری دنیا کو متاثر کیا ہے وہیں ایل این جی مارکیٹ بھی تہہ وبالا ہوگئی ہے۔ ملک میں ایل این جی کی کمی سے نہ صرف لوڈ شیڈنگ بڑھے گی بلکہ صنعتی پیداواربھی متاثر ہوگی اور بجلی کی قیمت بھی بہت بڑھ جائے گی جس سے مہنگائی سے پریشان عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ پاکستان تیس ڈالرفی یونٹ ایل این جی خرید چکا ہے مگراب یہ گیس چالیس ڈالرفی یونٹ میں بھی دستیاب نہیں ہے جبکہ حکومت مہنگی گیس کی کئی پیشکشیں مسترد بھی کرچکی ہے۔ 

جب تک روس جنگ کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتا عالمی منڈی میں توانائی اوردیگربہت سی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام ناممکن ہے جبکہ موسم سرما میں گیس کی کمی کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھرمیں صورتحال انتہائی مخدوش ہوجائے گی۔ ترقیافتہ ممالک نے بھی گیس کی راشننگ شروع کردی ہے جبکہ تیل کی پیداوار بڑھانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں تاکہ توانائی کی صورتحال کومعمول پرلایا جا سکے جس سے گلوبل وارمنگ کے اہداف متاثرہوں گے۔ 

میاں زاہد حسین نےمزید کہا کہ عالمی توانائی بحران کا سب سے بہترحل ایران سے پابندیاں ہٹانا ہے جس پرمکمل توجہ نہیں دی جا رہی۔ موجودہ حالات میں جب تک پاکستان کی درآمدات کم نہیں ہوں گی روپیہ اسی طرح پٹتا رہے گا۔ اور اب روپے کومصنوعی طریقہ سے مستحکم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ملک میں اتنے ڈالر ہیں ہی نہیں کہ طلب پوری کی جا سکےاس لئے برآمدات اور ترسیلات کو بڑھانے کی کوشش کی جائے جو ڈالر کو مزید مہنگا کیے بغیر ممکن نہیں۔

محسن شیخانی

چیئرمین، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز

چیئرمین آباد محسن شیخانی نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں لگایا گیا پراپرٹی ٹیکس واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ پر جوٹیکس تجویز کیے گئے ہیں اگر یہ نافذ ہوگئے تو اس سے رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت تباہ ہوجائے گی، مجوزہ ٹیکس اقدام سے تعمیراتی صنعت جمود کا شکار ہوجائے گی، 70 سے زائدصنعتوں کا پہیہ رک جائے گا جس کے نتیجے میں معیشت سکڑ جائے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے، مجوزہ اقدام ملک میں ڈالر بھیجنے والوں پر ٹیکس لگانے کے مترادف ہے۔ 

اسی طرح کے ٹیکس 2016 میں بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر لگائے گئے تھے جس سے تعمیراتی شعبہ تباہ ہوگیا تھا اور پھر بحالی میں 5 سال لگ گئے تھے۔ بجٹ بناتے وقت تعمیراتی شعبے کو زیر غور لایا ہی نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر منقولہ جائیداد پر ایک فیصد ٹیکس ،15 فیصد گین ٹیکس اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے اور نان فائلرز کے لیے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ 

محسن شیخانی نے کہا کہ بجٹ میں بے قاعدگیاں نظر آرہی ہیں ،آئینی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کو غیر منقولہ جائیداد کی کیپٹل ویلیو پر ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں ہے۔ رینٹل انکم پر مجوزہ ٹیکس سے پراپرٹی مالک اور کرائے دار کے درمیان تنازعہ بڑھے گا، فیئر ویلیو ایسسمنٹ پر ٹیکس آفیسر کو وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ آفیسر اختیارات سے تجاوز کر یگا اور رشوت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور انویسٹرز کا اعتماد بحال کرنے کے لیے پراپرٹی ٹیکس پر نظرثانی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو جو معاشی بحران در پیش ہے اس کے پیش نظر کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ تعمیراتی شعبے کو مزید مراعات دی جائیں۔ کیونکہ تعمیراتی شعبہ ترقی کرے گا تو اس کے نتیجے میں اس سے منسلک دیگر 70 سے زائد صنعتوں کا پہیہ بھی چلے گا جس سے معیشت کو بھی ترقی ملے گی۔

جس کی واضح مثال 2019-20 کی ہے جب کورونا وبا کے باعث پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی تھی۔ ایسے وقت میں سابق حکومت نے بہترین فیصلہ کرتے ہوئے تعمیراتی شعبے کو مراعات دیں جس کے نتیجے میں 2020-21 میں جی ڈی پی کی گروتھ منفی سے 4 فیصد،2021-22 میں 5.5 فیصد اور رواں مالی سال 6 فیصد رہی۔ بجٹ بناتے وقت تعمیراتی شعبے سے مشاورت نہیں کی گئی، ہمیں نہیں پتہ کہ بجٹ کب اور کیسے اور کس نے بنایا ہے۔ غیر ضروری ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ 

تعمیراتی شعبے کاخا م مال سیمنٹ، سریا اور دیگر کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے اپنا گھر اب خواب ہی رہ جائے گا۔ پاکستان میں پہلے ہی ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے اور ہرسال ا س کی طلب میں 4 لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے۔ آباد کے تحت ہر سال 2 لاکھ گھر تعمیر ہورہے ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق ہر شہری کو بنیادی سہولتوں سمیت رہائشی سہولت کی فراہمی حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو گھروں کی اس کمی کو دور کرنے کے لیے ایک سمت کا تعین کرنا تھا اور سستے گھروں کی فراہمی کے لیے سابق حکومت کے ویژن پر ہی کام کرنا چاہیے تھا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ملکی کرنسی میں استحکام نہیں آسکا، اس وقت مہنگائی کا طوفان ہے، گھر بنانے کی لاگت دوگنی ہوچکی ہے، حکومت گھروں کے لیے آسان قرضے فراہم نہیں کرے گی تو عام آدمی اپنا گھر کیسے بنائے گا، حکومت کو یہ سوچنا چاہیے۔ محسن شیخانی نے کہاکہ بجٹ میں تعمیراتی شعبے کو یکسر نظر اندازکیا گیا ہے جبکہ یہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے جوہنرمند اور غیر ہنرمند دونوں کےلیے روزگار پیدا کرتا ہے۔ 

یہ ہی وجہ جویہ شعبہ دنیا بھر میں معاشی ترقی کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔لہذا جب بھی کوئی ملک کساد بازاری کا شکار ہوا تو تعمیراتی شعبے کو سستے قرضوں سمیت دیگر مراعات دی گئیں۔ تعمیراتی شعبے سے دیگرصنعتیں بھی چلیں گی تو جی ڈی پی کی گروتھ ہوگی۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 30سال سے کوئی ترقیاتی اسکیم کا اجرا نہیں کیا جن کااجرا ہوا بھی ہے تو تیس سال گزرنے کے باوجود قبضہ نہیں دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ کچی آبادیوں میں اضافہ ہورہا ہے، ان آبادیوں میں رہنے والے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جس سے لوگوں میں نفرتیں بڑھتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت تعمیرات سے متعلق واضح اورطویل المدتی پالیسی دے اور اس شعبے میں آسانیاں پیدا کرے۔ پوری دنیا ڈیجیٹلازیشن پرہے، 50/50 سال کا منصوبہ بنایا جاتا ہے جس میں آبادی کے بڑھنے، پانی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

چیئرمین آباد نے کہا کہ حکومت کو نان فائلرز کا تصور ختم کرنا ہوگا۔جائیداد کی خرید وفروخت پر فائلرز کو 2 فیصد اور نان فائلرز کو 5 فیصد ٹیکس دینا یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے یہ متوازی نظام ختم کرناہوگا۔ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح دوگنی سے بھی زیادہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ ان کی اکثریت نان فائلرز ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں نے گزشتہ سال میں پاکستان میں 145 ارب ڈالرز ریمیٹنس بھیجی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے محفوظ سرمایہ کاری کے لیے تعمیراتی شعبہ ہی بچا ہوا ہے ان کی جانب سے بھیجی گئیں ترسیلات زر کا بیشتر حصہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ پر غیر ضروری ٹیکس اور نان فائلرز کو ڈبل ایڈوانس ٹیکس کا نفاذ انہیں یہاں سرمایہ کاری سے روکنے کے مترادف ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں نے رواں مالی سال 31 ارب ڈالرزسے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھیجا ہے جبکہ حکومت کو3 سال کے لیے 6 ارب ڈالرزکے قرضے کیلیے آئی ایم کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ حکومت اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مزید مراعات دیں تو یقین سے کہتا ہوں کہ ترسیلات زر میں سو فیصداضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن افسوس، بجٹ میں پیش کی گئیں تجاویز سے ترسیلات زر اور تعمیراتی شعبے پر بہت ہی منفی اثرات پڑیں گے۔

معین الدین

سابق سربراہ پاکستان ریمی ٹینس اینشیی ایٹو/ سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان

موجودہ بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کو درپیش شدید مشکلات کے پیش نظر یہ سمجھا جارہا تھا کہ نیا بجٹ انتہائی بھیانک ہوگا اور شاید غریب اور کم آمدنی والے افراد کا گزارہ بھی مشکل ہوجائے گا۔ لیکن بجٹ میں متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کے اقدامات میں کم آمدنی اور زائد آمدنی والے افراد میں غالباً پہلی مرتبہ بہت زیادہ تفریق رکھی گئی ہے۔ 

زائد آمدنی والے افراد پر نہ صرف انکم ٹیکس بلکہ ایک زائد غیر منقولہ جائیداد پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ کم درمیانی آمدنی والے افراد کا انکم ٹیکس کم کیا جانا تجویز کیا گیا ہے۔ ان معاشی اور سماجی حالات میں یہ اقدامات یقینا کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر قابل تحسین ہیں۔ البتہ غیر منقولہ جائیداد پر فائلر اور نان فائلر کیلئے بنا کسی کم از کم حد کے ٹیکس میں اضافہ محدود وسائل والے افراد کے ساتھ زیادتی ہے۔ پالیسی سازوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئیےکہ ہمارے ملک کی اکثریت عوام کم قیمت والی غیر منقولہ جائیداد یا تو پائی پائی جوڑ کر، قرضہ لے کر یااور خاندانی جائیداد میں حصہ ملنے پرخریدتی ہے۔ 

لہذا تقریبا 30 لاکھ تک کی رہائشی جائیداد پر یہ ٹیکس بالکل ختم کردینا چاہئیے۔ بجٹ میں ایک انتہائی اہم قدم دکانداروں سے بجلی کے بل کے ساتھ ٹیکس کی وصولی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں دکانداروں کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی۔ اگر اس تجویز کو صحیح طریقے سے نافذ کیا گیا یعنی اس میں گلی محلہ کی دکانیں بھی شامل کی گئیں تو اس اسکیم کے تحت ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع ہونا خارج از امکان نہیں۔ بجٹ میں معاشی مشکلات کا ادراک تو کیا گیا ہے، اس کا اظہار ترقیاتی پروگرام میں 100 ارب روپیہ کی کمی سے نظر آتا ہے۔

یہ کمی اتنی اہم اس وجہ سے نہیں سمجھی جاسکتی کہ حکومتیں ترقیاتی پروگرام میں رقوم تو مختص کرتی ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتیں اور دوران سال وسائل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے سب سے پہلے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں اہم بات یہ ہوگی کہ مختص کی گئی 800 ارب روپیہ کی رقم ترقیاتی منصوبوں پر صرف ہو جائے۔ یقینا اس سے معاشی اور سماجی ڈھانچہ کی بہتری میں مدد ملے گی۔حیرت انگیز طور پر باوجود مالیاتی مشکلات کے بجٹ میں مخصوص مستحق گروپس اور سیکٹرز کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔

مثلاً برخلاف سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے قابل ٹیکس آمدنی کی کم ازکم شرح میں اضافہ، سولر پینلز پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ،رعیت مشینری و ٹریکٹر پر صفر فیصد سیلز ٹیکس، 50 بستروں سے زائد والے نان پرافٹ ویلفیئر اسپتالوں کو مفت بجلی کی فراہمی، ماحولیات سے متعلق مشینری کی درآمد پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوگی۔ اس طرح ابتدائی طبی امداد سے متعلقہ ادویات پر بھی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوگی فلم سازوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس ہالیڈے اور بہبود سرٹیفکیٹ کے منافع پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کیا گیا ہے۔ 

یعنی بالواسطہ طور پر بزرگ شہریوں کو فائدہ پہنچے گا۔بجٹ کے دیگر اقدامات روایتی قسم کے ہیں البتہ سرکاری افسران کابینہ کے فیول کوٹہ میں 40 فیصد کمی سے ایک مقبول عوامی ڈیمانڈ پوری ہوگئی۔ بینکوں کے منافع پر شرح ٹیکس 39 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کردی گئی ہے۔ بادی النظر میں یہ قدم بہت بھیانک لگتا ہے لیکن یہ حقیقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ بنکوں کے منافع کا بڑا حصہ شرکا کو قرضہ دینے پر ہی ملتا ہے، خصوصا مرکزی بینک سے حکومت کو قرض نہ ملنے کی وجہ سے بینکوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔بجٹ میں اخراجات کا حصہ بہت کم لچک دار ہے۔ 

باالخصوص سود کی ادائی تمام اخراجات کا تقریبا 42 فیصد ہے۔ کچھ لوگ دفاعی بجٹ پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس رقم سے فوج کے اخراجات کے ساتھ ساتھ دفاعی سازوسامان بھی خریدا جاتا ہے۔ ویسے دفاعی بجٹ میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے لیکن مہنگائی کی شرح کے لحاظ سے حقیقی معنوں میں دفاعی بجٹ میں کمی آئی ہے۔ بجٹ میں چند مفروضات غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر روپیہ کی شرح تبادلہ شاید کم رکھی گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں شرح مہنگائی دوسرے تجارتی حلیف ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے لہٰذا روپےکی قدر میں کمی اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کرنا چاہئیے۔ اسی طرح 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو بینکوں سے اقساط پر سولر پینلز کی تنصیب ایک مشکل امر ہے کیونکہ بینک عمومی طور پر چھوٹے صارفین کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں اور جان چھڑاتے ہیں وہ ان صارفین کیلئے گھمبیر کاغذی کاروائی متعارف کرادیں گے کہ صارف تھک ہار کر گھر بیٹھ جائے۔

آخر میں ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر سیاسی بیانات سے پرہیز ضروری ہے۔ عوام کو حقائق سے آگاہ رکھیں تاکہ کل کوئی بھی حکومت ہو اس کے ماضی کے بیانات انکا مذاق نہ بنا رہے ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ بجٹ کا خسارہ 8۔3 کھرب روپے کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مالی سال 23-2022 میں قرضوں میں اضافہ کو ظاہر کرتا ہے لہذا بجٹ خسارہ کو تیزی سے کم کرنے تک کوئی معاشی حکمت عملی دیرپا اثرات نہیں دکھا سکے گی۔