احمد افنان
دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان ہر سال عیدالاضحیٰ پر بڑے پیمانے پر جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ ایک مذہبی فریضہ تو ہے ہی، اِس کے متعدّد سماجی اور معاشی پہلو بھی ہیں۔ ہر عید پر بعض افراد کی جانب سے اِس طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں کہ’’جانوروں کی یوں قربانی اُن کی نسل کُشی کے مترادف ہے اور اس سے معیشت کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘ نسل کشی کا معاملہ تو سامنے ہے کہ مسلمان 15صدیوں سے یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں، جس میں وہ لاکھوں حجاجِ کرام بھی شامل ہیں، جو حج کے موقعے پر بڑی تعدادمیں جانور قربان کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود جانوروں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہو آئی۔
اگر کہیں کوئی مسئلہ ہے بھی، تو اُس کا تعلق قربانی سے نہیں ، بلکہ اس میں لائیو اسٹاک پر توجّہ نہ دینا اور زرعی زمینوں کی بڑی بڑی رہائشی کالونیز میں تبدیلی جیسے عوامل کار فرما ہیں۔ اگر حکومتی ادارے اِن معاملات پر ذرا سی بھی توجّہ دیں، تو لائیو اسٹاک کا شعبہ مُلک کے لیے زرِمبادلہ کا بھی اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ پھر یہ کہ جانوروں کی قربانی صرف مسلمانوں ہی میں رائج نہیں، دنیا کے تمام آسمانی اور غیر آسمانی مذاہب کے پیروکار اِس کا اہتمام کرتے ہیں۔
عیدین کے تہوار معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا اہم ذریعہ ہیں،جن کے دَوران اربوں روپے ایک سے دوسرے ہاتھوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ بقر عید ہی کو دیکھ لیجیے۔ اِس تہوار پر ایک اندازے کے مطابق 400 ارب روپے شہری علاقوں سے دیہات میں منتقل ہوتے ہیں، کیوں کہ وہاں قربانی کے لیے جانور پالے جاتے ہیں، جنھیں شہروں میں لگنے والی مویشی منڈیوں میں فروخت کے لیے لایا جاتا ہے یا مختلف ادارے وہاں سے براہِ راست جانور خریدتے ہیں۔ اِس طرح پس ماندہ اور دیہی علاقوں کے باسیوں کو کافی مالی سہارا میّسر آجاتا ہے۔ واضح رہے، بہت سے لوگ کاروباری نقطۂ نظر سے سیکڑوں کم عُمر بیل، بکرے خرید کر دیہات منتقل کردیتے ہیں، جنھیں وہاں سال بھر پالا جاتا ہے۔
اِس طرح بھی ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ نیز، اِن جانوروں کی شہروں کی جانب منتقلی سے ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ افراد بھی’’ سیزن‘‘ لگاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، قربانی کے اِس عمل سے دیگر کاروباروں کو بھی فروغ ملتا ہے،جن میں چارے، بھوسے، قربانی کے اوزاروں، جانوروں کی آرائشی اشیاء، جانوروں کی دیکھ بھال، منڈیوں میں مزدوری، قصّاب اور کھال سے متعلق شعبہ جات شامل ہیں۔
اب تو بڑے شہروں میں قربانی کے گوشت سے مختلف ڈشز بنوانے کا رجحان بھی فروغ پارہا ہے اور عید کے تین دنوں میں اِس حوالے سے خاصا کاروبار ہوتا ہے، جب کہ گوشت کا قیمہ بنانے والے بھی جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں۔ گویا عید کے دنوں میں ایک ’’کیٹل انڈسٹری‘‘ وجود میں آ جاتی ہے، جس سے لاکھوں افراد فائدہ اُٹھاتے ہیں اور مُلکی معیشت میں اربوں روپے داخل ہوتے ہیں۔
گو کہ کچھ برسوں سے خام چمڑے اور اس سے بنی مصنوعات کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے،جس کے سبب کھالوں کی قیمتوں میں گراوٹ دیکھی جا رہی ہے، تاہم پھر بھی عید کے دنوں میں مُلک کی لیدر انڈسٹری کو نئی زندگی ملتی ہے، جس سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔
قربانی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے کہ اِس سے گوشت کا حصول مطلوب نہیں، مگر اس کے باوجود، عوام کا ایک بڑا طبقہ گوشت کی صُورت عید کے فوائد سے مستفید ہوتا ہے۔ اِس حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرائی جاسکتیں کہ ہمارے ہاں ہزاروں، لاکھوں ایسے گھرانے موجود ہیں، جو اِس منہگائی کے دَور میں گوشت افورڈ نہیں کرسکتے۔ وہ اپنا اور بچّوں کا پیٹ جس طرح بَھر رہے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب دن بھر کی دیہاڑی بسز کی کرایوں اور ایک کلو آٹے کی نذر ہوجائے، ایسے میں اُن کے لیے چند کلو گوشت بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ وہ سال بھر عید کا انتظار کرتے ہیں کہ بچّوں کو پیٹ بھر گوشت کِھلا سکیں گے۔ ہمیں اِس موقعے پر اپنے آس پڑوس میں اُن سفید پوشوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جو منہگائی کے سبب گوشت نہیں خرید پاتے اور نہ ہی وہ کسی کے دروازے پر دستک دے کر قربانی کا گوشت مانگتے پِھرتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ علماء وفقہا نے قربانی کے گوشت کے تین حصّے کرنے کو مستحب اور بہتر عمل قرار دیا ہے۔ ایک حصّہ اپنے استعمال میں لایا جائے۔ دوسرا حصّہ رشتے داروں کے لیے رکھ لیں اور تیسرا حصّہ ضرورت مندوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ نیز، بقر عید سے نادار اورضرورت مندوں کو ایک فائدہ قربانی کی کھالوں کے ذریعے بھی پہنچتا ہے۔ بہت سے فلاحی ادارے گھر گھر جاکر یہ کھالیں جمع کرتے ہیں اور پھر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کی جاتی ہے۔