اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدہ کے انتخاب سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سبطین خان کی اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے ۔
دس صفحات پر مشتمل یہ تحریری فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے قلمبند کیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے سیکنڈ پول کے لیے مناسب وقت دینے کی استدعا کی ہے جبکہ پرویز الہی نے عدالت کے حکم پر پیش ہوکر بتایا کہ ان کے کچھ حمایتی اراکین حج کی ادائیگی کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں جبکہ پانچ مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن بھی جاری نہیں ہوا ہے۔
ان حالات میں یہ ایوان نامکمل ہے اس لیے وزیر اعلی ٰکے انتخاب کے لیے ایوان مکمل ہونے تک کا وقت دیا جائے،عدالت نے فریقین کو آپشن دیا ،درخواست گزار کے وکیل بابر اعوان نے پہلے مخالفت کی لیکن درخواست گزار اور پارٹی چیئر مین سے مشاورت کے بعد متفق ہوئے۔
فیصلے میں عدالت نے تینوں سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے رویے کو سراہتے ہوئے اس امیدکا اظہار کیا ہے کہ تمام جماعتیں عدالت میں دی گئی یقین دہانی کے مطابق آزادانہ،غیر جانبدرانہ اور شفاف ضمنی الیکشن اور سیکنڈ پولنگ کے لیے حالات پر امن رکھیں گی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو چار بجے صوبائی اسمبلی میں منعقد ہوگا۔
اسمبلی اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر کریں گے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے اور پولنگ تک حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی پانچ مخصوص نشستوں سے متعلق ہائی کورٹ کے27مئی کے فیصلے کی تفصیلی وجوہات ایک ہفتے میں جاری کی جائیں گی اور الیکشن کمیشن تفصیلی فیصلہ آنے کے فوری بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں پر ناموں کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا،عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کوئی فریق ہائی کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہو تو دادرسی کے لیے مجاز فورم سے رجوع کرسکتا ہے۔
فیصلے میں پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ضمنی الیکشن کے دوران نئے ترقیاتی پروگراموں اور ڈولپمنٹ اسکیموں کے لیے فنڈز کے اجرا پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق منعقد ہوں گے۔