اسلام آباد (فخر درانی)پنڈورا پیپرز تحقیقات، تحریک انصاف اور ن لیگی حکومت کی عدم دلچسپی، پنڈورا پیپرز کے اجراء کے بعد سے پچھلی حکومت کی شروع کی گئی تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں.
ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتصادی اور توانائی کے بحران کے حل ہونے کے بعد پنڈورا پیپرز کی تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پنڈورا پیپرز میں نام آنے والوں کی تحقیقات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
پنڈورا پیپرز کے اجراء کو نو ماہ گزر چکے ہیں جس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان، اعلیٰ حکام، میڈیا مالکان اور امیر کاروباری خاندانوں سمیت 700 سے زائد پاکستانی بھی شامل ہیں، پچھلی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے 3 اکتوبر کو دنیا بھر کے 600 صحافیوں کے اشتراک سے پنڈورا پیپرز جاری کیا۔ 4 اکتوبر 2021 کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے پی ایم انسپکشن کمیشن (پی ایم آئی سی) کے تحت ایک سیل تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
فیکٹ فائنڈنگ سیل کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے بھی مدد فراہم کی۔
سابق چیئرمین پرائم منسٹر انسپیکشن کمیشن احمد یار ہراج نے دی نیوز کو بتایا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تشکیل دیا گیا فیکٹ فائنڈنگ سیل تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مہارت سے کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اس سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت سے نکلی، اس سیل نے تقریباً 60 فیصد کام مکمل کر لیا تھا جو اسے پی ایم انسپکشن کمیشن نے سونپا تھا۔
ہراج نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ اس تحقیقات کی کیا حیثیت ہے کیونکہ نئی حکومت نے چارج سنبھال لیا ہے۔
انکوائری رپورٹ کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے شہباز شریف حکومت میں وزیراعظم کے معاون خصوصی نے دی نیوز کو بتایا کہ انکوائری رپورٹ وزیراعظم آفس میں پڑی ہے۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ابھی تک آگے کا کوئی راستہ طے نہیں ہوا۔ ابھی تک اس فائل کو کسی نے نہیں پڑھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پی ایم انسپکشن کمیشن کے نئے چیئرمین اس معاملے کو آگے بڑھائیں گے۔ چیئرمین پی ایم آئی سی کی تقرری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ تقرری جلد متوقع ہے۔
حکومت کے باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ چارج سنبھالنے کے بعد مخلوط حکومت کو بہت سے چیلنجز بالخصوص مالی اور توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اقتصادی اور توانائی کے بحران کے حل ہونے کے بعد پنڈورا پیپرز کی تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت نے رواں سال 10 اپریل کو چارج سنبھالا تھا اور تقریباً تین ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی نے انکوائری رپورٹ بھی نہیں پڑھی۔
اس سے قبل 2016 میں جب پاناما پیپرز میں نواز شریف کے خاندان کے کچھ افراد کے نام سامنے آئے تھے تو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اس پر سڑکوں پر آکر سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جس کا نتیجہ بالآخر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں نکلا۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کی رفتار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاناما پیپرز کے برعکس جہاں آف شور ہولڈرز کی تحقیقات کے لیے مربوط پالیسی اپنائی گئی، حکومت کے پاس پنڈورا پیپرز کی انکوائری کے لیے متفقہ نقطہ نظر کا فقدان ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ پانامہ پیپرز کے وقت جو جوش و خروش اور کوششیں کی گئیں، پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے دوران اس کی کمی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے ان کی تحقیقات کے لیے اتنی دلچسپی کیوں نہیں دکھائی جن کے پنڈورا پیپرز میں نام آئے جیسا کہ پانامہ پیپرز میں کیا گیا تھا؟
پنڈورا پیپرز کے اجراء کو نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود کسی بھی حکومت نے آف شور ہولڈرز کی تحقیقات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جنہوں نے لاکھوں ڈالر خفیہ طور پر آف شور دائرہ اختیار میں رکھے۔