بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد، کراچی
ایک دور وہ بھی تھاجب لوگ سال بھر پہلے سے قربانی کے جانوروں کی گھروں میں پرورش کیا کرتے ، پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا کرتے تھے۔ ان کے جذبات صرف اور صرف جذبہ قربانی اور تقویٰ کے ساتھ جڑے نظر آتے تھے لیکن بدلتے وقت نے اسے بھی نئے جھمیلوں میں الجھا دیا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں گنجائش بھی کم ہوتی جارہی ہے اور سوچنے کے انداز بھی محدود ہوتے جارہے ہیں۔
اب ہماری سوچ میں دکھاوے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ عید الاضحیٰ قریب آتے ہی قربانی اور جانور سب سے گرما گرم موضوع ہوتا ہے۔ لیکن لوگ اس تہوار کے پیچھے موجود روحانیت پر بات کرنے کے بجائے جانوروں کی نسل، قیمت، سائز وغیرہ پر بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
تقریباً ہر گھر میں ایک ہی موضوع زیرِ بحث رہتا ہے کہ قربانی کے لیے جانور خریدنا ہے، مگر کیا خریدیں؟ بڑے کہتے ہیں کہ بکرا خریدا جائے، لیکن بچوں اور نوجوانوں کی نظریں گائے یا بچھڑے پر جمی ہوتی ہیں۔ وہ معیار سے زیادہ مقدار پر زور دیتے ہوئے بڑے بھاری بھرکم دبنگ جانور خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے نزدیک بڑے جانور کی کیا ہی بات ہے۔
نوجوان اپنے قربانی کے جانوروں کے نام بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً چاند بیل، خرانٹ گائے، راجا، گلو وغیرہ۔ قربانی کے بیل اور گائے کے ساتھ خوب زور آزمائی اور کھیل کود کرتے ہیں جو ان بے زبانوں کو ایذا پہنچانا ہے۔ منچلے نوجوان اپنے جانور منفرد دکھانے کے لیے انہیں آرائشی سامان سے سجا کر گلیوں کے چکر لگاتے اور دیکھنے والوں سے داد وصول کرتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گلی میں تقریباً تمام ہی گھروں کے باہر کھونٹے سے بندھے ہوئے جانوروں کے پاس نوجوان محفل لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
کچھ لوڈو، کیرم بورڈ کھیل کر ایک دوسرے کو ہرا کر تپا رہے ہوتے ہیں تو کہیں کسی بوڑھے بزرگ قصے، کہانیاں سنا رہے ہوتے ہیں۔ چلبلے لڑکے گائے بیل کی ریس لگا تے ہیں اور ساتھ خوب ہلا گلا کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ کسی کو یہ شور شرابہ کھلتا بھی نہیں بلکہ ہر ایک اس رونق سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔ اکثر نوجوان خوب بن ٹھن کر ، دھوپ کا چشمہ لگائے، ہاتھ میں بیل کی رسی پکڑے کسی ہیرو کی طرح چلتےدیکھائی دیتے ہیں۔ بیل بھی کوئی عام نہیں ایسا زبردست کہ دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ نوجوان اور بیل ہم قدم ایک ساتھ کبھی آگے جا رہے ہوتےہیں تو کبھی پیچھے۔
ان کی اس دبنگ چال کی ویڈیو اس ساتھی دوست احباب بنا رہے ہوتے ہیں اور ساتھ مسلسل ہدایت بھی دے رہے ہوتے ہیں، تاکہ ویڈیو میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے، اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر خوب داد و تحسین سمیٹی جا سکے۔ اس منظر سے خاص طور سےگلی محلے کےبچے اور نوجوان محظوظ ہوتے ہیں۔ نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ مہنگے جانور لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو گلی میں داخل ہوتے ہی ایک شور و غوغا مچ جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو جانور کو پورے محلے کا ایک چکر لگوایا کربتایا جاتا ہے کہ، دیکھو ہم نےکتنا مہنگا اور خوبصورت جانور خریدا ہے، آپس میں ایک دوسرے کے جانوروں کا موازنہ کر تے ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا جانور علاقے بھر میں مشہور ہو ،جسے دیکھ کر لوگ واہ واہ کریں اور اس کی قیمت پوچھنے پر مجبور ہو جائیں۔ اور جنہوں نے ایک سے زیادہ خریدے ہوں وہ تو اور زیادہ جوش وخروش سے ان کی قیمت بتاتے ہیں۔
عید الاضحیٰ کا تہوار ایثار کے جذبے کی بجائے دکھاوے اور ظاہری شان و شوکت کا شکار سے دوچار ہوگیا ہے۔ اسے کیا کہا جائےکہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق ان خوشیوں کو ماند کر دیتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ مادہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور نمود و نمائش نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔
عید قربان سے قبل جانوروں کی خریداری سے لے کر ان کو گھر میں رکھنے اور پھر ان کی قربانی ہونے تک کے تمام مراحل کی سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ جانوروں کی کیٹ واک کروا کر بھی ان کے پیکج بنائے جاتے ہیں ان سب کو یوٹیوب، پربار بار چلایا جاتا ہے اور معاشرے میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ ایک ایسا ملک، جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جہاں گوشت کھانا ایک لگژری بن چکی ہے، جہاں بجلی کا بل دیکھ کر لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے، جہاں ہر سال کوئی نا کوئی آفت آجاتی ہے اور لاکھوں لوگ دربدر ہوجاتے ہیں، وہاں صرف دکھاوے کے لیے اور معاشرے میں ساکھ بنانے کے لیے جانوروں پر اربوں روپے خرچ کرنا ضروری ہے؟
آج ہمارے معاشرے میں اطاعتِ خداوندی کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جد وجہد کی جارہی ہے۔عید قربان کا مطلب اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا ہوتا ہے، مگر ہم تو دولت کی نمائش کرتے ہیں۔ قربانی جیسی سنت کو بھی کمرشل ازم یا خودنمائی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل قربانی کے اصل معنی اور مفہوم سے ناآشنا نظر آتی ہے، اسی لیے تو جانوروں کی نمود و نمائش اور گوشت سے بنے مختلف پکوان بنانے کی پلاننگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس حوالے سے غور کرتے ہیں کہ آخر ہم یہ قربانی کس کی یاد میں کر رہے ہیں، اور ہم میں سے کون اس دلدوز تجربے کو تصور کرنے کی جرات کرتا ہے جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کے وقت گزرے تھے؟ روزِ محشر قربانی کی نیت دیکھی جائے گی۔ظاہری نمود کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی تابعداری کو دل میں رکھتے ہوئے آپ کوئی بھی جانور قربان کیجیے ، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نیتوں کو دیکھتا ہے کس نے کون سا جانور کس نیت سے قربان کیا ؟ یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے۔ نیت کی بنیاد پر قربانی کو قبول کیا جائے گا۔ تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جانے والی قربانی کو پسندیدہ عمل ٹھہرایا جائے گا۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہم اپنی خوشی منانے کے چکر میں قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں کا غم دگنا کر دیتے ہیں۔ حالانکہ عید کی خوشی اُس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب ہم غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں، اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہر کسی کو ساتھ لے کر چلیں۔ اب کسی کو کیا پتہ کہ اللہ کی بارگاہ میں بارہ لاکھ والے بیل کی قربانی زیادہ مقبول ہورہی ہے یا ساٹھ ہزار والے بیل کی۔
نوجوان اس سنت کے فضائل سے واقف ہوںاور خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا جذبہ دلوں میں موجزن کریں۔ خود پسندی کی اس دلدل سے اپنے آپ کو بھی نکالیں مفلوک الحال رشتے داروں، سفید پوش پڑوسیوں، غریبوں مسکینوں کو اپنے خود غرضانہ رویوں سے دکھ دیتے ہیں ، خاص طور پر ان کے بچوں کو اپنے جانوروں کو دیکھا کر پریشان کرتے ہیں، قطعاً مناسب نہیں، اس سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں، اگر ممکن ہو تو غریبوں ناداروں کے بچوں کو بھی اپنے مہنگے جانور سے کھیلنے کاموقع دیں ۔ قربانی سے پہلے اور بعد میں بھی انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کیجئے، یقین کیجئے ، ایسا کر کےآپ خود کو ہلکا پھلکا اور بہت اچھا محسوس کریں گے، کیونکہ نیکی اور وسعت قلبی سے آپ کے دل کے کئی بوجھ اتر جائیں گے۔
عیدالاضحی مسلمانوں کے لئے خاص تحفہ خداوندی ہے ۔اپنے اندر تقویٰ، وفاداری، ایمانداری، جاں نثاری کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اَنا، دکھاوا قربان کر دیجیئے۔
تو آئیے، کھاوے ،غرور اور تکبر سے گریز کرتے ہوئے صرف رضائے الہٰی کے لیے قربانی کریں اور اپنی دنیا و آخرت سنواریں۔