نیلم حمید
عبداللہ ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا، بہت ذہین اور خوش اخلاق بچہ تھا کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن آتی تھی۔ وہ اپنی ذہانت، متانت اور شرافت کی وجہ سے اسکول، گھر، عزیز و اقارب ہر جگہ پسند کیا جاتا تھا۔ اپنے دادا اور دادی جان کا تو لاڈلا تھا۔ زندگی پرسکون اور خوشگوار تھی۔ عبداللہ کا معمول تھا کہ وہ روز شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ دادی جان سے کہانیاں سنا کرتا تھا۔
بقرعید کی آمد آمد تھی، عبداللہ نے اپنی دادی جان سے بقرعید کے بارے میں کہانی سننے کی فرمائش کی کہ ہم بقرعید کیوں مناتے ہیں تو دادی جان نے کہا کہ ہاں بھئی! آپ سب کی آگاہی کے لیے کچھ نہ کچھ یہ بتانا تو ضروری ہے، پھر عبداللہ نے شام کو اپنے سب دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہانی سننے کے لیے دادی جان کے پاس گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔ خاموشی ہوئی تو دادی جان نے کہانی سنانا شروع کی ،’’پیارے بچو…! بقرعید کو عید قرباں کو عیدالاضحی اور بڑی عید بھی کہا جاتا ہے ایثار و قربانی کی ایک لازوال داستان ہے۔
عیدالاضحیٰ میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو ہم چودہ سو برس سے ہر سال عید اس دینی فریضے کو ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام میں قربانی کی فضیلت و عظمت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان کو عید قرباں کو پورے ذوق و شوق، ایثار اور جوش و جذبے سے مناتے ہیں اور اس روح پرور تہوار کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہاں تو پیارے بچو! حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام جو کہ اللہ کے پیغمبر بھی تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انہیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہے کہ وہ سب سے قیمتی چیز خدا کی راہ میں قربان کر دیں۔ سب سے قیمتی تواُن کا بیٹا تھا جب انہوں نے اپنے بیٹے حضرت ااسماعیل علیہ سلام سےخواب کا ذکر کیا تو انہوں نے بلا چوں و چرا سر تسلیم خم کردیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر صحرا کی طرف روانہ ہوئے منیٰ کے مقام پر پہنچ کر انہوں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر زمین پر لٹا دیا اور ان کی گردن چھری پھیرنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالی نے اس جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا اور انھیں خوشخبری سنائی گئی کہ اللہ نے ان کی قربانی کو قبول کرلیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مینڈھے کو ذبح کیا۔ قربانی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا بھایا کہ اس نے رہتی دنیا تک آنے والے مسلمانوں پر یہ قربانی فرض کر دی۔
ہاں تو پیارے بچو! یہ اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام، خلیل اللہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثالی جذبہ اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ کے حضور عظیم قربانی کی یادگار ہے جو اطاعت کی اعلیٰ و ارفع مثال پیش کرتا ہے۔
بچو! ہم بقرعید پر اسی لئے اونٹ، گائے، بچھڑے، مینڈھے، بیل اور بکرے، اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ بچے قربانی کے جانوروں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور محبت ہونی بھی چاہئے کیونکہ قربانی کا جانور، اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ بچے بڑے سب بڑے شوق سے جانوروں کی خدمت کرتے ہیں، کھلانا، پلانا اور سیر کرواتے ہیں۔ ہر بچہ پیش پیش رہتا ہے اور بہت سے گھروں میں عید سے قبل جانوروں کو مہندی لگائی جاتی ہے، انہیں سجایا جاتا ہے، ان کے پیروں میں گھنگھرو اور گلے میں پٹا ڈالا جاتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کے ساتھ ہر گلی، محلوں میں مٹرگشت کرتے ہیں تو ایک دلکش سماں بن جاتا ہے۔
تو پیارے بچو…! یہ عید ہمیں ایثار کا درس دیتی ہے۔ قربانی کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے پنے اندر جذبہ پیدا کریں اور ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کریں کہ ہر سال جب بھی ہم قربانی کریں تو اس عہد کی تجدید کریں۔