• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیدہ شگفتہ

رمیز ہر بقر عید پر دوسروں کے گھروں میں آئے ہوئے بکروں کو دیکھتا تو اس کا بھی دل چاہتا کہ اس کے ابو بھی ایک پیارا سا سفید اور سیاہ دھبوں والا بکرا لائیں، جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چارہ کھلائے، اس کے سر پر ہاتھ پھیرے۔ ہر سال وہ بقر عید قریب آتے ہی بڑی آس لگا کر ابو سے پوچھتا کہ کیا وہ اس بار قربانی کریں گے؟ 

ابو اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر افسردگی سے کہتے ’’نہیں بیٹا! میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں قربانی کر سکوں‘‘۔ وہ اداس ہو جاتا، تب اس کے ابو اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس سے وعدہ کرتے کہ اگلے سال وہ قربانی ضرور کریں گے، مگر ان کا یہ وعدہ کسی سال بھی پورا نہ ہو سکا۔

اس سال بھی جب بقر عید میں کچھ دن باقی تھے اور عید کا چاند نظر آ چکا تھا تو رمیز، ابو کے پاس گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہمارے ہاں اس دفعہ بکرا آئے گا؟

امی بولیں، ’’اس سال بھی بکرا نہیں آئے گا، کیوں کہ بکروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیںاور کچھ مہینوں سے تمھارے ابو کا دکان اچھی نہیں چل رہی ہے۔‘‘ امی کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ابو اس کی رنجیدہ صورت دیکھ کر پوچھنے لگے کہ اچھا بتاؤ کہ تم بکرا کیوں لینا چاہتے ہو؟ کیا اس لیے کہ محلے کے باقی بچوں کے گھروں میں بکرے آئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے بکروں کی تعریفیں کرتے ہیں، انھیں سیر کراتے ہیں جب کہ تم ایسا نہیں کر پا رہے ہو؟

رمیز یہ سنتے ہی تیزی سے بولا: "نہیں ابو! میں تو بکرا اس لیے چاہتا ہوں کہ قربانی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اجر دیتا ہے‘‘۔ رمیز کا یہ جذبہ دیکھ کر اس کے ابو سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انھوں نے عید کے کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بچائی گئی رقم گنی اور ایک فیصلہ کر لیا۔

دوسرے روز ناشتے پر رمیز کے ابو نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس سال قربانی کریں گے۔ یہ سن کر رمیز اور اس کے چھوٹے بھائی بہن خوشی سے اچھلنے اور تالیاں بجانے لگے۔

"مگر ایک شرط ہے۔" ابو نے یہ کہا تو سب خاموش ہو کر انھیں دیکھنے لگے۔

رمیز نے پوچھا: "کیا شرط ہے ابو؟"

"شرط یہ ہے کہ تم لوگ مجھ سے نئے کپڑوں اور جوتوں کا تقاضا نہیں کرو گے اور عید الفطر پر بنوائے گئے کپڑے ہی پہنو گئے، ورنہ بکرا نہیں آ سکے گا۔"

سب بچے یک زبان ہو کر بولے،’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ قربانی سے ایک دن پہلے مغرب کی نماز کے بعد رمیز کے ابو قاسم صاحب بکرا خریدنے منڈی گئے تو رمیز بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور اسے یہ سوچ کر بڑی خوشی ہو رہی تھی کہ وہ بھی قربانی کریں گے۔ 

منڈی میں رش بے پناہ تھا۔ بکروں کے علاوہ گائے بیل بھی تھے۔ غرض کہ منڈی میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ رمیز کے ابو اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک بکرے والے کے پاس گئے اور ایک کتھئی رنگ کے درمیانے درجے کے بکرے کو پسند کر لیا اور بکرے والے سے بکرے کی قیمت پوچھی۔

بکرے والے نے کہا،’’چالیس ہزار‘‘۔

تم بکرا بیچ رہے ہو یا گائے کی قیمت بتا رہے ہو؟ ابو نے حیران ہوکر کہا۔

بکرے والے نے اپنے بکرے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔ ابو کے بار بار اسرار پر بھی وہ قیمت کم کرنے پر راضی نہ ہوا۔ مجبوراً وہ رمیز کا ہاتھ پکڑ کر کسی اور بکرے کی تلاش کرنے لگے، کچھ دیر بعد ہی انھیں ایک اور بکرا پسند آ گیا، مگر قیمت سن کر ان کے ہوش اڑ گئے۔ ’’تیس ہزار۔‘‘

انہوں نے جب قیمت کم کرنے کو کہا تو بکرے والے نے انکار کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی بکرے دیکھ ڈالے، مگر سب ان کی پہنچ سے باہر تھے۔ تھک ہار کر انھوں نے رمیز کا ہاتھ پکڑا اور منڈی سے نکل آئے۔ راستے بھر وہ یہی سوچتے رہے کہ چلو اس بار بکرا نہ سہی تو گائے میں ہی حصہ لے لیں گے۔ وہ اپنی گلی میں پہنچے تو گھر سے کچھ ہی دور انھیں ایک بکرے والا چند بکرے ہانک کر لے جاتے ہوئے نظر آیا۔

وہ دونوں اس بکرے والے کے پاس گئے اور قدرے مریل بکرے کی قیمت پوچھی۔ بکرے والے نے پہلے تو بیس ہزار بتائے، پھر کچھ بحث کے بعد پندرہ ہزار روپے میں دینے پر راضی ہو گیا۔

بکرا گہرے کتھئی اور سیاہ رنگ کا اور لاغر سا تھا، اس لیے رمیز کو زیادہ پسند تو نہ آیا، مگر اس نے سوچا کہ کل تک وہ اسے کھلا پلا کر موٹا تازہ کر دے گا اور یہ کیا کم خوشی کی بات ہے کہ یہ اب ان کا بکرا تھا۔

رمیز، ابو کے ساتھ بکرے کی رسی تھامے گھر کی طرف لے جا رہا تھا، مگر بکرا ایک قدم چلنے کو تیار نہ تھا۔ موقع دیکھتے ہی بکرے نے رمیز کے ہاتھوں سے رسی چھڑا ئی اور کسی تیز رفتار گھوڑے کی طرح بھاگتا ہوا، گلی کے نکڑ تک پہنچا اور نظروں سے غائب ہو گیا۔ 

انہوں نے سے بہت ڈھونڈا مگر کہیں نہ ملا۔ رمیز کے گھر میں سب دکھی تھے کہ نہ ان کے گھر بکرا آیا اور نہ عید کے کپڑے بن سکے تھے۔ دوسرے روز عید تھی۔ رمیز اپنے ابو کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گیا۔ اس نے روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے معاف کردیں نہ میں ضد کرتا نہ ابو کو نقصان اٹھانا پڑتا۔‘‘

گھر واپس آ کر رمیز دوسرے بھائی بہنوں کے ساتھ گلی میں گھومنے پھرنے کے بجائے اپنے ابو کی طرح دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ وہ بہت افسردہ تھا۔

تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے بکرے والا کھڑا تھا، جس سے کل انھوں نے بکرا لیا تھا۔ بکرے والے نے رمیز کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور ان کا کھویا ہوا بکرا آگے کرتے ہوئے بولا، کل یہ آپ نے ہی مجھ سے خریدا تھانا۔‘‘

اس کی آواز سن ابو بھی دروازے پر آگئے۔ بکرے والا انھیں دیکھتے ہی بولا، جناب! آپ بکرے کو قابو نہ کر سکے۔ یہ بھاگ کر واپس میرے پاس آ گیا۔ میں ذرا آگے ہی گیا تھا کہ اسے آتے ہوئے دیکھ کر قابو کر لیا۔ میں کل سے ہر گھر میں پتا کرتا پھر رہا ہوں۔ یہ لیجیئے اپنا بکرا اور اس بار ذرا اس کو قابو میں رکھیے گا۔‘‘

انھوں نے بکرے والے کا شکریہ ادا کرکے اسے رخصت کیا اور قصائی لینےفوراََ باہر کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھے کہ رمیز میاں کا بکرا واپس آ گیا ہے۔ اس کی قربانی کرنی ہے۔‘‘

’’ابو! میرا بکرا‘‘ ۔ رمیز نے خوشی سے پوچھا۔

’’ ہاں بیٹا بکرا تمھارا ہی ہے۔ تمھارے سچے جذبے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی قربانی کرنے کی توفیق دی ہے‘‘رمیز خوشی سے اپنے بکرے کی پیٹھ سہلانے لگا۔