اسلام آباد (نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک جج پر درخواست گزار کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ ہونے پر جج کی ذات کو ہی متنازع بنادیا جائے .
عدالت عظمی نے اغواء کیس میں لاہور ہائیکورٹ کےایک جج سے کیس کسی اور جج کو منتقلی کی درخواست مسترد کردی.
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے بدھ کے روز 14سالہ بچے کے مبینہ اغواء سے متعلق مقدمہ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار محمد رمضان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے استدعا کی کہ ان کا مقدمہ مذکورہ جج کی عدالت سے ہٹا کر کسی اور جج کے سامنے لگانے کا حکم جاری کیا جائے یا پھر مذکورہ جج کی ریٹائرمنٹ تک کیس سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے کا حکم جاری کیا جائے،جس پر جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ آپ کا یہ رویہ درست نہیں،یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ ہونے پر جج کو ہی متنازع بنادیا جائے.
ہائی کورٹ نے تو کوئی فیصلہ ہی نہیں جاری کیا ،معاملہ انکوائری کے لیے ڈی پی او جھنگ کو بھیجا گیاہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس پر اغواء کا الزام ہے اس کے مطابق تو آپ شادی شدہ ہی نہیں ہیں،پہلے آپ یہ ثابت کریں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور بچہ آپ ہی کا ہے،جس پردرخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اسی لیے تو جج پر اعتراض کیا ہے کیونکہ انھوں نے دوسرے فریق کا موقف تو آرڈر میں شامل کیا لیکن میرا نہیں ، بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ اور نکاح نامہ عدالت میں پیش کیا ہے ،جس پر فاضل جج نے انہیں کہا کہ یہ چیزیں آپ ا نکوائری میں پیش کردیں،انکوائری رپورٹ عدالت میں جائے گی اور اسی کی بنیاد پرہی فیصلہ کیا جائے گا،بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کردی۔