کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے کہا ہے کہ جب ہم سائفر کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر یقین کرنا ہوگا، یہ متفقہ فیصلہ ہے، پانچ جج صاحبان کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے وہ مراسلہ نہیں آیا، قاسم سوری کی رولنگ غلط اور آرٹیکل 95کے خلاف تھی، اب اس میں جو آبزرویشن دی گئی ہے، یہ اکثریتی ججمنٹ کی آبزرویشن ہے، جس دن فیصلہ کسی کے حق میں آئے تو اس دن جج بڑے پاک پوتر اوتار لگتے ہیں، جس دن فیصلہ خلاف آجائے اس دن عدلیہ بالکل میں لفظ استعمال نہیں کرتا، یہ تاریخ میں ایسی ججمنٹ ہوگی جس نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا ہے، اخلاقی طور پر اگر سسٹم کو بچانا ہے تو صدر علوی خود فیصلہ کریں کہ مجھے سسٹم اور اس ملک کیلئے قربانی دینی چاہئے، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک سوال تھا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین و قانون کے مطابق ہے یا نہیں ہے، سنگل جج کی آبزرویشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، آئین کی خلاف ورزی اور آئین سے غداری میں فرق ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے میثاق جمہوریت کیلئے بیٹھنا اور پالیٹکس میں سے اسٹیبلشمنٹ کا رول نکالنا پڑے گا، اگر یہ نہیں کریں گے یہ پٹھو بنتے رہیں گے، سیاسی جماعتیں جب تک استعمال ہونا ختم نہیں کریں گی نہ تو جمہوری اقدار آئیں گی نہ ملک کی کوئی بہتری ہوگئی، ملک کی تباہی کی ذمہ داری ہماری پولیٹیکل پارٹیز پر ہے، پولیٹیکل پارٹیوں کو چاہئے کہ نیا میثاق جمہوریت کریں اور قسم اٹھائیں کہ اگر آج کے بعد کوئی اس طرح کا واقعہ کرے گا تو اس کا مطلب ہے اس کا کردار آرٹیکل چھ میں آئے گا، صدرلاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سردار اکبر علی ڈوگر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے، نہ تو اس ڈاکیومنٹ میں کچھ تھا نہ یہ پراپرلی پیش کرسکے، ڈپٹی اسپیکر کی حد تک چونکہ کورٹ کی واضح فائنڈنگز آگئی ہیں تو یہ حکومت فیصلہ کرے گی کہ اسے کیس کس طرح چلانا ہے، ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ آئینی ہے اور وہ اس کی خلاف ورزی کررہے ہیں لہذا وہ آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتے ہیں، یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ ان کے خلاف پروسیڈ کرنا ہے یا نہیں کرنا یا کس کے خلاف، بیانیہ ایک ہی ہونا چاہئے خواہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ہوں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو اس طرح کی ٹریننگ ہے نہ کوئی نرسریز ہیں جہاں سے لوگ سیاست میں آتے ہیں، اسٹوڈنٹس یونینز پر ویسے ہی پابندی لگی ہوئی ہے۔ پروگرام کی تفصیلات یہ ہیں۔
حامد میر: سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے سائفر پیش نہیں کیا گیا یا جو متن دکھایا گیا اس کی تفصیلات ہمارے سامنے نہیں رکھی گئیں، عمران خان کہتے ہیں کہ عارف علوی اور اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعہ یہ جیوڈیشری کے ساتھ شیئر کیا ہے، اصل کہانی کیا ہے؟ احسن بھون: یہ سیاست کی بات ہے، عمران خان اپنی، مریم نواز اپنی بات کررہی ہیں، جب ہم سائفر کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر یقین کرنا ہے، جب ایک پروسیڈنگ کورٹ میں ہورہی ہے تو حکومت اپنے موقف کے حوالے سے کورٹ میں کوئی ڈاکیومنٹ پیش کرسکتی ہے کہ ہم یہ ڈاکیومنٹ لے کر آگئے ہیں یہ سیلڈ ڈاکومنٹ ہے یہ ججز دیکھ لیں تاکہ اس موقف کو مزید تقویت آجائے، یہ فیصلہ متفقہ فیصلہ ہے، پانچ جج صاحبان کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے وہ مراسلہ نہیں آیا تو we can not say کہ جو عمران خان اپنے جلسے میں کہہ رہے ہیں we have to believe this judgment کہ کوئی ڈاکیومنٹ ریکارڈ پر موجود تھا مراسلہ کی شکل میں، اس فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک تو مراسلہ ہم سے شیئر نہیں کیا گیا دوسرا اس کے متن کے حوالے سے جزوی طور پر بتانے کی کوشش کی گئی، دوسرا مراسلہ کے حوالے سے ایک اہم بات کی گئی جس میں سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ سات تاریخ کا مراسلہ کہتے ہیں، سات تاریخ سے اٹھائیس تاریخ تک کسی جگہ حکومت نے اس مراسلہ کو شیئر نہیں کیا، اس مراسلہ کے حوالے سے کوئی کمیشن نہیں بنایا، کوئی تحقیقات نہیں کی، 28اور 31کی قومی اسمبلی کی پروسیڈنگ میں اس کی کوئی بات نہیں کی گئی، the moment there was a resolution for no confidence اس کے بعد مراسلہ آگیا، اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک almost concocsion ہے just to defeat that resolution اس آبزرویشن کے بعد اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حامد میر: عمران خان آج بھی جلسے میں کہہ رہے ہیں کہ میں نے صدر عارف علوی اور اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعہ سپریم کورٹ کو مراسلہ بھیجا میں او ر کیا کروں، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہہ رہی ہے کہ یہ ہمارے ساتھ شیئر ہی نہیں ہوا؟ شعیب شاہین: عمران خان جو بات کررہے ہیں وہ constitution and law کے perview کے مطابق نہیں کررہے، یہ کورٹ آف کمیشن یا کورٹ آف انکوائری نہیں بیٹھا تھا، اگر عارف علوی یا کسی بھی آفیشل کے ذریعہ آپ ان کے پاس place کردیتے ہیں that can never be used in the judicial proceedings ان کو چاہئے تھا اٹارنی جنرل کے ذریعہ یا اپنے وکیل کے ذریعہ confidential document اسے سائفر کروا کے، اسے اپنی لینگویج میں ٹرانسفر کروا کے اس کو place کرتے کہ صرف ججز دیکھ سکتے ہیں اس کے بعد ہم اپنے argument کریں گے وہ انہوں نے نہیں پیش کیا، اگر علوی صاحب بھیج بھی دیں دو آپشن ہوسکتے تھے، چیف جسٹس اس پر پہلے کورٹ آف انکوائری بٹھاتے یا کوئی کمیشن بٹھاتے جیسے میمو گیٹ بیٹھا اور اس کی فائنڈنگز آجاتیں اور اس کو ان پروسیڈنگز کے ساتھ لگاتے اور کہتے کہ اب یہ فائنڈنگز آچکی ہیں یا جیسے پاناما کیس میں کمیشن بنایا اور اس کی فائنڈنگز کی بنیاد پر پھر یہ پروسیڈنگز آتی اور ججمنٹ دیتی، پی ٹی آئی کے دوست کس بات پر ناراض ہیں، اس کے علاوہ وہ کیا فیصلہ توقع کررہے تھے، فیصلہ تو پہلے ہی آچکا تھا، شارٹ آرڈر آگیا اب تو صرف reasons آئی ہیں، میں سمجھتا ہوں reasons میں پی ٹی آئی کے موقف کی تائید ہوئی ہے، آپ اگر پیراگراف 8کو پڑھیں گے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ ڈاکیومنٹ آیا، سائفر آگیا اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بیٹھی اور انہوں نے فائنلی پریس ریلیز جاری کی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے مداخلت admit کی، جب مداخلت admit ہوگئی اس کے بعد اگلا کام کس کا تھا، اس کورٹ کا کام نہیں تھا کیونکہ اس کے پاس صرف ایک سوال تھا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی وہ رولنگ آئین و قانون کے مطابق ہے یا نہیں ہے، یہ factual constituency انہوں نے resolve نہیں کرنی تھی، کورٹ نے یہ کہا کہ آپ نے اس پر تحقیقات نہیں کی، آپ نے اس پر کوئی کمیشن نہیں بنایا یا اس قابل نہیں سمجھا کہ کمیشن بنائیں یا آپ نے خود نہیں کیا، کیا وہ burdon جو کسی کمیشن نے کرنا تھا یا کسی انکوائری کمیٹی نے کرنا تھا یا اور کچھ بھی نہیں کرتے یہ پارلیمانی کمیٹی بنادیتے جو اس پر فائنڈنگز دیتی کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے، جسٹس ناصر الملک کا بھی جب کمیشن بنایا تھا ان کے درمیان راضی نامہ ہوا کہ اسپیشل کمیشن بنایا جائے، انہوں نے بتایا تھا کہ کیا organized rigging ہوئی تھی یا نہیں ہوئی تھی، عمران خان کہہ رہے ہیں آپ کو سوموٹو نوٹس لے لینا چاہئے تھا، سپریم کورٹ سمجھتی کہ ہمیں اس موضوع پر سوموٹو لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کا کام ہے، قاسم سوری کے پاس جو لیٹر آیا انہوں نے ایک دن میں، فواد چوہدری اٹھے انہوں نے جاکر صرف یہ کہا کہ آرٹیکل 5کے مطابق یہ مداخلت ہے یہ سائفر آیا ہوا ہے لہٰذا اس کی روشنی میں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، آپ دیکھیں کوئی بھی پروسیڈنگز ہیں، پارلیمنٹ کی کوئی پروسیڈنگ، generally یہ maintainable نہیں ہوتیں کہ کوئی کورٹ اس میں مداخلت کرے لیکن اس ایشو پر مختلف چیز تھی، قاسم سوری نے ان کی بات سنی اور اس پر فائنڈنگز دیدیں، وہ دو کام کرسکتے تھے، وہ کہتے کہ میں آج اس پر کمیشن یا پارلیمنٹ کی کمیٹی بنارہا ہوں، چار بندے آپ دیدیں آٹھ بندے میں اپنی طرف سے دے رہا ہوں اور وہ فائنڈنگز پھر شیئر کرتے بے شک ان کیمرہ پروسیڈنگ ہوتی۔
حامد میر: لیکن کورٹ نے لکھا ہے کہ قاسم سوری نے دوسرا موقف بھی نہیں سنا۔
شعیب شاہین: قاسم سوری نے دوسرا موقف نہیں سنا، وہ شیئر کرتے کہ یہ سائفر ہے، ہم ان کیمرہ پروسیڈنگ کررہے ہیں یہ سارے ڈسکس کریں، ساری ڈسکشن کے بعد ان کا موقف سننے کے بعد پھر کوئی فائنڈنگز دیتے، بلکہ اس میں یہ بھی لکھا کہ آپ کے پاس بھی معلومات مکمل نہیں تھی، یعنی وہ سائفر کے متعلق جو انفارمیشن تھی اس فیصلے کے مطابق کہ وہ سائفر ڈاکیومنٹ پوری پارلیمنٹرینز اور اپوزیشن کے ساتھ شیئر نہیں ہوا، نمبر ٹو اس پر کوئی ڈسکشن نہیں ہوئی، نمبر تھری اس پر کوئی انویسٹی گیشن بھی نہیں ہوئی، اس کے علاوہ کیا ممکن تھا کہ کورٹ اس میں فیصلہ دیتی۔
حامد میر: سردار اکبر علی ڈوگر صاحب ،سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ ہمیں سائفر نہیں دکھایا گیا لیکن شعیب شاہین کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنیکلی واقعی سپریم کورٹ کو نہیں دکھایا گیا ، ہاں صدر عارف علوی نے چیف جسٹس کو بھیج دیا لیکن یہ سائفر پی ٹی آئی کے وکیل کے ذریعہ کورٹ میں پیش کیا جانا چاہئے تھا؟
سردار اکبر علی ڈوگر: جس بات کو یہ allege کررہے ہیں وہ ڈاکیومنٹ سامنے آنا چاہئے تھا اور اسے پیش کرنے کا طریقہ ہے جیسے میرے بھائی شعیب شاہین نے کہا، اس ڈاکیومنٹ کو پیش کرنے کا طریقہ ہے اپنے کونسل کے ذریعہ، اٹارنی جنرل کے ذریعہ اسے submit کرتے، کورٹ اس کو دیکھتی اور پھر فائنڈنگز دیتی، جیسے شعیب شاہین نے کہا کہ اگر ہائوس میں آپ allege کرتے ہیں تو اس پر اپوزیشن کو جواب دینے کا موقع دیا جاتا ہے، آپ اس کو ڈسکس کرتے، ڈیبیٹ ہوتی، اس کے بعد اگر کوئی چیز سامنے آتی جو الزامات تھے تو پھر اس کے بعد کمیشن بنتا یا اسے properly submit کرتے اور اس کے بعد کورٹ کی اس پر فائنڈنگز آتیں، بطور اس ملک کے شہری ایک وکیل اور بطور صدرلاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں تو اس چیز پر یقین کروں گا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے،نہ تو یہ ڈاکیومنٹ میں کچھ تھا نہ یہ properly پیش کرسکے، اسی وجہ سے اسے disbelieve کیا گیا۔
حامد میر: احسن بھون صاحب،آپ کے خیال میں ایک جج کی رائے کی بنیاد پر آرٹیکل چھ کی پروسیڈنگ ہونی چاہئے؟
احسن بھون: میرا اس پر نکتہ نظر بالکل مختلف ہے وہ یہ کہ اگر کسی جج کی کوئی رائے بھی نہ ہو،اگر آپ کے نکتہ نظر کے مطابق abbrogation of mutilation of the constitution ہوئی ہے تو govt. can move a reference according to article 30 ۔ البتہ اس کیس میں کوئی اختلافی نوٹ نہیں ہے وہ ایک اضافی نوٹ ہے، اس اضافی نوٹ نے mandatory نہیں ہے، اس ایڈیشنل نوٹ نے گورنمنٹ کوا یک جواز دیدیا ہے جو رانا ثناء اللہ نےگفتگو کی ہے ، انہوں نے اس اضافی نوٹ کو دیکھتے ہوئے ایک جواز کے طور پر، میں سمجھتا ہوں کہ اگر، یہ بڑی unfortunate چیز ہے، ہم جب دیکھتے ہیں کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا، اس کے خلاف ریفرنس آیا، ریفرنس کے بعد نتیجے میں فیصلہ بھی آگیا، اکثریتی فیصلے میں live impresnment بھی ہوگئی، اس پر عمل ہوا یا نہیں ہوا، اس کے نتیجے میں جس کے خلاف اپیل ہونی چاہئے تھی، ہمارے کچھ محترم جج صاحبان نے اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں بیٹھ کر question کردیا although کہ صرف اور صرف جو اس کے خلاف ریمیڈی ہے رائٹ یا رانگ وہ اپیل ہے، ہم کہتے ہیں کہ ایک خاکی وردی میں بیٹھا ہوا بندہ آئین شکنی کرے تو اس کو ہم روز کہتے ہیں پھانسی لگادو، اگر سول ڈریس میں بیٹھا ہوا ہے تو that is subject to interpetetion جیسے ہم گفتگو کرتے ہیں کہ اس کی تشریح ہوگی لیکن کسی ریفرنس کے حوالے سے جب آپ کورٹ میں جائیں گے تو پھر یہ اس کورٹ کا اختیار ہے، وہ کورٹ دیکھے گی کہ کیا واقعی abbrogation ہوئی ہے، mutilation ہوئی ہے آئین کی، اب اس میں جو آبزرویشن دی گئی ہے، اکثریتی ججمنٹ کی آبزرویشن یہ ہے انہوں نے کہا کہ قاسم سوری کی رولنگ غلط تھی، آرٹیکل 95کے خلاف تھی، that amounts to mutilation of the constitution اور اس کے نتیجے میں the action taken by the president, prime minister also invalid, meaning by کہ اس consequence میں جو انہوں نے ایکشن لیا ، یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں اگر وہ فائل کرتے ہیں، اس ججمنٹ میں انہوں نے گفتگو کا جواز اور فائل کرنے کا جواز دیدیا ہے، اس کے بعد حکومت کیا کرتی ہے، اگر جاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ کورٹ پر منحصر ے۔
حامد میر: شعیب شاہین صاحب کہ اگر پرویز مشرف کے خلاف ایک اسپیشل کورٹ نے فیصلہ سنادیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے وزراء نے اس فیصلے کی مذمت کی پھر اعلان کیا کہ اس کے خلاف ہم ریفرنس بھیجیں گے، پھر لاہور ہائیکورٹ سے اس فیصلے کو suspend کروادیا گیا، اگر پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلتا ہے لیکن آپ کورٹ کی ججمنٹ پر عملدرآمد نہیں کرسکتے تو یہ جو سویلینز ہیں ان کے خلاف آپ مقدمہ چلائیں گے تو پاکستان میں ایک نئی بحث نہیں شروع ہوجائے گی؟
شعیب شاہین: پرویز مشرف کے خلاف پروسیڈنگز میں سب سے آگے موجودہ وزیراعظم کی پارٹی ن لیگ تھی، انہوں نے ہی اسے اجازت دی تھی کہ آپ ملک سے باہر چلے جائو، جب سپریم کورٹ میں بھی میٹر لگا تھا اور انہوں نے بھیج دیا تھا اس وقت کی حکومت کو نواز شریف اس وقت وزیراعظم تھے کہ آپ فیصلہ خود کرو، جمالی صاحب کی سربراہی میں لارجر بنچ کی ججمنٹ تھی، چلے گئے، آج بھی انہوں نے کہا ہے کہ ان کو واپس لے کر آیا جائے، جسٹس سیٹھ وقار جو فوت ہوگئے ہیں انہوں نے اتنی زبردست ججمنٹ دی، انہوں نے کہاکہ اگر وہ فوت بھی ہوجائیں تو اس کی لاش کو لٹکایا جائے، بات کیا تھی، abbrogation of constitution بہت بڑا offense ہے لیکن یہاں اس کیس میں میں اختلاف کروں گا، جج صاحب نے جو اضافی نوٹ دیا ہے وہ violation of constitution کو abbrogation of constitution کے برابر کردیا ہے there is a huge difference میں نیچے جاتا ہوں ایک پولیس والا ایک عام شہری کو illigally confine کرتا ہے، کوئی بھی غلط کام کرتا ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، کوئی بھی ایگزیکٹو اتھارٹی غلط کام کرتی ہے جو violation of constitution ہے، violation of constitution روز ہوتی ہے اور وہ unconstitutional declare کرتی ہے ہر کورٹ، violation of constitution کو abbrogation of constitution کے دائرے میں ڈال دیا۔
حامد میر: بھون صاحب سپریم کورٹ کے فیصلے کا ری ایکشن ہمیں فواد چوہدری کی گفتگو میں نظر آیا؟
احسن بھون: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ججمنٹ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کے کریڈ ٹ پر تاریخ میں ایسی ججمنٹ ہوگی جس نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا ہے، although کہ یہ زندہ بھی ہوتا رہتا ہے دفن بھی ہوتا رہتا ہے، مجھے بڑی خوش آئند بات لگی جو فواد نے کی ہے، انہوں نے بات کی کہ اس ملک سے اسٹیبلشمنٹ کو اور باقی چیزوں کو کر کے لوگوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا، اس لیے چوہدری صاحب کو یہ ضرور پتا ہونا چاہئے کہ جب یہ حکومت آئی تھی اس وقت نواز شریف کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے، اس وقت عمران خان کا ورژن یہ تھا کہ جو ہماری فوج ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ جو ہے اس سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں ہم سب ایک پیج پر ہیں، آج وہی بات مریم نواز کررہی ہیں، مطلب یہ believe ہی نہیں کرتے، میں چوہدری فواد کی بات اس لیے خوش آئند کہہ رہا ہوں کہ چوہدری فواد کی بات کہ اللہ کرے یہ سارے سیاستدان یہ بات سمجھ کر اس چیز کوا ٓگے لے کر چلیں، نہ کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوں تو اس وقت انہیں خلائی مخلوق، نیوٹرل اور مسٹر ایکس وائی یاد آجائیں اور ان کو جج بھی برے لگنے لگیں، جس دن فیصلہ کسی کے حق میں آئے تو اس دن جج بڑے پاک پوتر اوتار لگتے ہیں، جس دن فیصلہ خلا ف آجائے اس دن عدلیہ بالکل میں لفظ استعمال نہیں کرتا جو یہ لفظ بول رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ اپنی بنیاد کو نہیں سمجھتے، میں سمجھتا ہوں جس آدمی کی جو rise کی وجہ ہوتی ہے وہ کسی اسٹیج پر اس rise کی وجہ کو negation میں جاتا ہے تو اس کا فیوچر seal ہوجاتا ہے، نواز شریف کا آپ شروع سے دیکھ لیں، نواز شریف کی ابتداء جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوئی، اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وہ پروان چڑھے، پروان چڑھنے کے بعد he became the most populat, man of the country تین دفعہ وزیراعظم رہے، اس کے بعد جب انہوں نے اسی اسٹیبلشمنٹ کو للکارا تو دو تہائی اکثریت کے باوجود گھر چلے گئے، اس کے بعد عمران خان ایک نشست کے ساتھ پارلیمنٹ میں موجود تھے، آہستہ آہستہ انہیں بارہ تیرہ سیٹیں مل گئیں، دی گئیں، اگلی دفعہ وہ ایک اکثریت لے کر اسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر وزیراعظم بن گئے، انہوں نے جب اسی اسٹیبلشمنٹ کو للکارا اور کہا کہ آپ غلط کررہے ہو آج ان کی حالت دیکھ لیں۔
احسن بھون: آرٹیکل چھ کی پھر بات کردی، یہاں ہر پرویژن جہاں اپنے جذبات کی عکاسی کرتی ہے وہاں ہم اپلائی کردیتے ہیں۔
شعیب شاہین: میں اپلائی نہیں کررہا، میں کہہ رہا ہوں کہ آرٹیکل چھ میں ترمیم کریں اور اس میں لکھیں کہ کوئی بھی پارلیمنٹرین یا سیاستدان۔
احسن بھون: یہ بڑی خوش آئند بات ہے، ایک بیانیہ یہ میرے لیے سب سے جو تکلیف دہ بات ہے وہ اس ملک کے عوام کی تکلیف ہے اور اس ملک کے مستقبل کی تکلیف ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، ایک دن ایک بندے کا ایک بیانیہ ہوتا ہے اگلے دن وہ…
حامد میر: میں اس وقت لاہور جارہا ہوں، ڈوگر صاحب آپ احسن بھون سے اتفاق کرتے ہیں یا شعیب شاہین سے؟
سردار اکبر علی ڈوگر: بیانیہ ایک ہی ہونا چاہئے خواہ وہ اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں ہو، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو اس طرح کی ٹریننگ ہے نہ کوئی نرسریز ہیں جہاں سے لوگ سیاست میں آتے ہیں، اسٹوڈنٹس یونینز پر ویسے ہی پابندی لگی ہوئی ہے، different طریقوں سے لوگ آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں آنا چاہئے جس طریقے سے مرضی آیا جائے، جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا بیانیہ اور ہوتا ہے، حکومت میں آتے ہیں تو ان کا بیانیہ اور ہوتا ہے، نظریاتی طور پر لوگ اپنے اسٹینڈ اور اسٹانس نہیں بدلتے اور جیسی بھی صورتحال ہو اپنی بات پر قائم رہتے ہیں، جب تک یہ سیاسی جماعتیں فیصلہ نہیں کریں گی کہ ہم نے ووٹ کے ذریعہ جمہوری طریقے سے آنا ہے او رحکومت میں رہنا ہے ،جب تک جن لوگوں نے انہیں الیکٹ کیا ان کا ساتھ ان کے ساتھ ہے عوام کی حمایت حاصل ہے تب تک انہیں حکومت کرنی چاہئے، جب وہ عوام کا اعتماد کھودیں تو انہیں چپ کر کے گھر چلے جانا چاہئے، جب ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ دس لوگ بھی ہمارے خلاف نکل آئیں تو ہم مستعفی ہو کر چلے جائیں گے لیکن جب ہم حکومت میں آتے ہیں تو legal remedy بھی avail کرنے کیلئے کوئی طریقہ adopt کیا جاتا ہے تو آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے غیرقانونی طریقے سے ختم کیا جائے۔
حامد میر: وقفہ کے دوران مجھے تحریک انصاف کے ایک رہنما نے نام نہ بتانے کی درخواست کرتے ہوئے پیغام بھیجا ہے کہ آج عمران خان صاحب نے ڈی جی خان میں جلسہ کیا، سیف الدین کھوسہ صاحب کیلئے جنہوں نے پچھلے 16سال میں 4مرتبہ پارٹیاں بدلی ہیں اور انہوں نے مجھے کھوسہ صاحب کی مختلف پارٹیوں کے جو الیکشن لڑے اور مختلف symbols کے ساتھ الیکشن لڑتے رہے وہ سب کچھ بھیج دیا ہے، مگر اس وقت میرا موضوع بحث یہ نہیں ہے۔ اب میرا آخری سوال ہے شعیب صاحب کہ آج کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عارف علوی کو استعفیٰ دیدینا چاہئے، پہلے انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس بھیجا جو مسترد ہوگیا، اب انہوں نے یہ خط بھیجا اور سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ خط ہمیں ملا ہی نہیں ہے، کیا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اب عارف علوی کو استعفیٰ دیدینا چاہئے؟
شعیب شاہین: بالکل غلط بات ہے۔ اگر عارف علوی نے قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس بھیجا تھا on the advice of the Prime Minister, on the advice of the Government بھیجا ، اگر وہ غلط تھا یا صحیح تھا he is bound under the constitution اس نے بھیج دیا، نمبر ٹو اب کا جو معاملہ کہہ رہے ہیں، خط ان کے پاس آیا انہوں نے ادھر بھیج دیا تو اس میں کیا illegality ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ judicial proceedings میں میرے سامنے نہیں آیا، اگر ان کی ذات کو میں کوئی خط لکھ دوں، میرے کسی کیس میں وہ automatically حصہ بن جائے گا؟ ، اور اس میں علوی صاحب کا کیا قصور ہے۔
حامد میر: ان کے استعفے کے مطالبہ ناجائز ہے؟
شعیب شاہین: صدر عارف علوی کے استعفے کا مطالبہ بالکل ناجائز ہے۔
حامد میر: ڈوگر صاحب آپ کا کیا خیال ہے، صدر عارف علوی کو استعفیٰ دینا چاہئے یا نہیں دینا چاہئے؟
سردار اکبر علی ڈوگر: یہ تو انہیں خود فیصلہ کرنا ہے، ہمارے ہاں اس طرح کی مثالیں نہیں ہیں ،یہاں تو کسی کو لیگل ایکٹ کے ذریعہ بھی گھر بھجوایا جائے تو وہ بھی جانے کیلئے تیار نہیں ہے، یہ تو انہوں نے decide کرنا ہے، یہ موجودہ حکومت کا معاملہ ہے کہ وہ ان سے یہ ڈیمانڈ کرتے ہیں یا لوگوں کی کیاڈیمانڈ ہے۔
حامد میر: یہ سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ ایک جج صاحب نے کہا ہے کہ صدر صاحب نے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کی ہے؟
احسن بھون: یہ اخلاقیات کا معاملہ ہے، اگر اخلاقی طور پر ہم دیکھیں ، ہم نے دنیا میں دیکھا ہے کہ یہ جومیرے دوستوں نے بات کی ہے یہ بات ان کی ٹھیک ہے کہ otherwise تو impeachment ہے اس کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے، two third majority ہے، اگر آپ نے نظام کو بچانا ہے، اس ججمنٹ میں جج صاحب کی رائے کو دیکھا جائے، سپریم کورٹ کی کسی جج کی رائے ، اس کے بعد اخلاقی طور پرا گر سسٹم کو بچانا ہے تو شاید وہ خود decide کریں کہ مجھے سسٹم اور اس ملک کیلئے قربانی دینی چاہئے، اگر کوئی ان پر قانونی جواز نہیں ہے کہ آپ استعفیٰ دیں ، یہ اخلاقی بات ہے، اس لیے باقی آرٹیکل چھ کے حوالے سے بات ہے میں اس پر تھوڑی سی بات اور کروں کیونکہ دوست بہت technicality پر جاتے ہیں، ایک آدمی man in authority بیٹھے ہوئے آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کہے کہ مجھے استثنیٰ ہے، مجھے پروٹیکشن ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات ٹھیک ہے، جب کوئی چیف آف آرمی اسٹاف in authority ہوتے ہوئے آئین کو توڑتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس بندے کوا ٓرٹیکل چھ کے تحت سزا دی جائے۔
حامد میر: جسٹس وقار سیٹھ کا اسی لیے ذکر آتا ہے کیونکہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے، برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں کہلاتی ہے، وہاں پر اولیور کرامویل آرمی چیف بھی تھا، بعد میں وہ ریاست کا سربراہ بھی بنا، اس کو قبر سے نکالا گیا، ایک جج صاحب اس کے ساتھی تھے، ان کو بھی قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی، جب یہ بات پاکستان میں ہوتی ہے تو آپ کہتے ہیں …؟
احسن بھون: اس کی ایک خاص وجہ ہے، بات یہ ہے کہ وہاں کا قانون یہ اجازت دیتا تھا، ہمارے قانون میں یہ تو ہے کہ اسے پھانسی کی سزا دیدو لیکن یہ ججمنٹ تھوڑی متنازع ہوگئی، آپ کہیں کہ پارلیمنٹ کے سامنے اس کو drag کیا جائے۔
شعیب شاہین: میں ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں صدر کے جو desolution of assembly ہے اس لیے wide decalre کیا کہ وہ رولنگ غیرقانونی تھی، رولنگ چونکہ revive ہوگئی تو کہا گیا کہ چونکہ foundation illegal تھی اس لیے اس کے اوپر عمارت بھی غلط تھی۔